وجود

... loading ...

وجود
وجود

سعودی عرب اور پاکستان کے سفارتی تعلقات...
سیاسی زائچہ(راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 30 دسمبر 2019 سعودی عرب اور پاکستان کے سفارتی تعلقات... <br>سیاسی زائچہ(راؤ محمد شاہد اقبال)

کیا سعودی عرب اور پاکستان کے سفارتی تعلقات واقعی نازک ترین صورت حال سے گزر رہے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کم و بیش ہر پاکستانی کو فوری طور پر اور بالکل درست درست درکار ہے ۔ کولالمپور کانفرنس میں سعودی عرب کی خواہش پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کی عدم شرکت نے اتنے سوالات نہیں اُٹھائے تھے جتنے اندیشے اور واہمے ترکی کے صدر طیب اردوان کے اِس بیان نے پیدا کردیے ہیں کہ ’’ پاکستان کو کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے دھمکی دی گئی تھی کہ’’ اگر پاکستان کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرے گا توپھر وہ اپنے ملک میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو جبری طور پر اُن کے ملک سے بے دخل کردیا جائے گا‘‘۔ویسے تو اِس بیان کے میڈیا پر آنے کے فوراً بعد ہی سعودی عرب کے سفارتی ذرائع نے اِس بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہہ دیا گیا تھا کہ ’’پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات میں ایسا لب و لہجہ ہرگز استعمال نہیں کیا جاتا جس کی طرف ترکی کے صدر طیب اردوان نے اشارہ کیا ہے بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات مکمل طورپرباہمی اعتماد کے رشتہ پر قائم ہوتے ہیں‘‘۔بظاہر اِس تردیدی بیان نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین پیدا ہوجانے والی سفارتی دھند کو کم تو کیا لیکن یہ وضاحت نامہ طیب اردوان کے بیان کے بعد تیزی سے بڑھنے والے سفارتی کشیدگی کے اوہام اور اندیشوں کو مکمل طور ختم کرنے کا موجب نہ بن سکا۔

خاص طور پر اپوزیشن کی جانب سے اِس وضاحتی بیان کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ ’’ پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کا اچانک اِس سطح پر پہنچ جانا تحریک انصاف حکومت کی اَب تک کی سب سے بڑی سفارتی ناکامی ہے ‘‘۔ مگر دوسری جانب حکومت کا موقف یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس سے پہلے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کر کے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اُس سے پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ سفارتی تعلقات کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوئے ہیں کیونکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مہاتیر محمد اور طیب اردوان سے اپنے ذاتی نوعیت کے تعلقات ہونے کے باوجود بھی شہزادہ محمد بن سلمان کی بات کو مانتے ہوئے سعودی عرب کے موقف کے ساتھ خاموشی کے ساتھ لیکن عملی طورپر کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ۔اگر وزیراعظم پاکستان کا یہ اقدام سعودی عرب کے موقف اور خواہشتات کے عین مطابق ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے ناراضگی کا اظہار کرے ۔ جہاں تک طیب اردوان کے بیان کا تعلق ہے تو اُس سے اگر مستقبل میں کوئی سفارتی بحران پیدا ہونا بھی چاہئے تو وہ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کے مابین ہونا چاہئے ناکہ پاکستان کے ساتھ ۔
بلاشبہ تحریک انصاف کی حکومت کے اِس موقف میں کافی جان ہے اور حقیقت احوال بھی اِسی موقف سے کافی مطابقت بھی رکھتی ہے کہ کوالالمپور کانفرنس پر سعودی عرب کے اعتراضات کے ساتھ پاکستان بھلے ہی مکمل طور پر اتفاق نہ بھی کرتا ہو مگر اُس کے باوجود اُس نے بہرحال ساتھ تو سعودی عرب کا ہی دیا ہے ۔ یقینا اِس بات کاادراک تو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو بھی اچھی طرح سے ہوگا کہ جس کانفرنس کے انعقاد میں سب سے بنیادی کردار عمران خان کا تھا ،اُس کانفرنس میں ہی عمران خان نے عین آخری موقع پر فقط اِس لیے شرکت سے انکار کردیا تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا سعودی عرب کے مخالف کیمپ میں جانے کا ہلکا سا بھی تاثر پیدا نہ ہو سکے۔اچھی بات یہ ہے کہ سعودی عرب بھی جانتا ہے کہ اسلامی دنیا کے درمیان پاکستان کی اپنی بھی کیا کیا سفارتی مجبوریاں ہوسکتی ہیں۔ خاص طور پر جبکہ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے کشمیر میں پچھلے کئی مہینوں سے ظلم و ستم کا بازار گرم ہو۔ یقینا ایسے حالات میں پاکستان چاہے گا کہ اُس کے ساتھ زیادہ بین الاقوامی ممالک خاص طور مسلم ممالک کی حمایت ہو اور اس کے حصول کے لیے ہی پاکستان نے کوالالمپور کانفرنس کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی کوشش کی تھی ۔کیونکہ پاکستان کو او آئی سی اور عرب ممالک کی طرف سے بھارت کے مقابلے میں وہ سفارتی امداد اور تعاون نہیں حاصل ہوپایا تھا جس کی کہ پاکستان کو شروع دن سے اُمید تھی۔

اگر پاکستان کو کشمیر میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 375 اے کے نفاذ کے پہلے دن ہی بھارت کے خلاف او آئی سی کے پلیٹ فارم سے خاطر خواہ سفارتی امداد حاصل ہوجاتی تو پاکستان کوالالمپور کانفرنس کی طرف دیکھنے کے بجائے مہاتیر محمد اور طیب اردوان کو قائل کر کے او آئی سی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے پر مجبور کرتا ۔ لیکن جب کشمیر جیسے سلگتے معاملہ پر بھی عرب ممالک کی جانب سے مجرمانہ چشم پوشی سے کام لیا گیا تو پھر پاکستان نے مجبوری کی حالت میں اپنی کچھ سفارتی اُمیدیں کوالالمپور کانفرنس سے دراز کرنا شروع کردیںاور سچی بات تو یہ ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں کشمیر پر جو موقف اختیار کیا گیا ایسے ہی موقف کی اُمید پاکستان کو برسوں سے او آئی سی سے رہی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ او آئی سی کبھی بھی کشمیر کے حق میں اور بھارت کے خلاف کھل کر اپنی کوئی دیرپا سفارتی پالیسی لانے میں کامیاب نہ ہوسکا کہ جس پر عملدرآمد کر کے بھارت پر حقیقی معنوں میں معاشی ، سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالا جاسکے تاکہ بھارتی سرکار اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر کشمیری عوام کو اُن کا حقِ خودارادیت دینے پر مجبورہو سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر