وجود

... loading ...

وجود
وجود

کتوں کا راج۔۔ (علی عمران جونیئر)

جمعه 22 نومبر 2019 کتوں کا راج۔۔ (علی عمران جونیئر)

دوستو، کراچی سمیت سندھ بھر میں انسانوں کو کتے کے کاٹے جانے کے واقعات جس تیزی سے ہورہے ہیں اس سے بلاشبہ اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہ سندھ میں اب ــ’’کتوں کا راج‘‘ ہے۔۔ہمارے گھر کے نیچے روزانہ درجن بھر سے زائد کتے مورچے لگا کر رات بھر شدید ’’بھونکاباری‘‘ کرتے رہتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ زلزلہ آگیا ہو۔۔ پطرس بخاری برصغیر کی مزاح نگاری کے بے تاج بادشاہ ہیں، کافی عرصہ پہلے ان کا ایک مضمون ’’کتے‘‘ پڑھا تھا، جس میں انہوں نے نہایت آسان الفاظ میں کتوں کی اقسام بتائی تھی۔۔وہ لکھتے ہیں۔۔یوں تو کتوں کی بہت سی اقسام ہیں لیکن دو موٹی موٹی قسموں میں تقسیم کیا جائے تو پالتو/نسلی کْتے اور آوارہ یا بے نسلے کْتے ہیں۔ پالتو کتوں میں بہت سی اقسام میں جرمن شیفرڈ کیساتھ دنیا بھر میں قریب دو سو مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں میں اْن بے نسلے اور آوارہ قسم کے گھٹیا کتوں کا ذکر کررہا ہوں جو ہمارے گردونواح میں عموما پائے جاتے ہیں اور شاید ہم انہیں بے ضرر سمجھ کر کسی حد تک نظر انداز بھی کر رہے ہیں، لیکن انکا معاشرے میں اپنے وجود کا مسلسل احساس دلانا بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۔

یہ واقعہ ایک مزاحیہ لطیفہ بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ اسلام میں کتے کو نجس مانا گیا ہے اور اس کے لعاب کو نجس العین مانا گیا ہے۔ اگر یہ لعاب کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا نجس ہوگا، اور جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ایک صاحب کے پاس ایک مولوی صاحب گئے اور دیکھا کہ ایک کتا ان کی بغل میں دبا ہوا تھا، جب بیٹھے تو کتا ان کی گود میں رہا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ نے کتا پالا ہے اچھا کیا، مگر انسان کے بچے کی طرح اسے گود میں بٹھانا، پیار کرنا تو اچھا نہیں ۔ اس نے فوراً کہا کہ مولوی صاحب میں کتے کو اس لیے ہر وقت پاس رکھتا ہوں کہ موت سے محفوظ رہوں، آپ کے یہاں کتابوں میں لکھا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو، تو فرشتے نہیں آتے۔ جب کتا میرے پاس ہے تو جان نکالنے والا فرشتہ میرے پاس کیسے آئے گا؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ خیال اور استدلال آپ کا غلط ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتے بھی مرتے ہیں، موت سے تو کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ آپ نے یہ مثل سنی ہوگی ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔ جو فرشتے کتوں کی روح قبض کرتے ہیں وہی فرشتے آپ کی روح بھی نکالیں گے۔ آپ کے پاس وہ فرشتے نہیں آئیں گے جو اچھے لوگوں کے پاس آتے ہیں۔۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ نیپال میں اور بھارت کے بعض حصوں میں انسان اور کتوں کے درمیان خصوصی بانڈ کا جشن منانے کے لیے ایک ہندو چھٹی ہے اسے ’’ککور تہار‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ پانچ روزہ تہار نامی میلے کے دوسرے دن، لیمپ اور پٹاکھی جلا کر بھارت اور دوسری جگہوں میں دیوالی رسومات کی طرح منایا جاتا ہے۔ ککور تہار پر، لوگ ٹیکہ (سرخ بندیاں) اور خصوصی چیزیں جیسے دودھ، انڈے، گوشت، یا اعلی معیار کے کتوں کی خوراک پالتو کتوں اور بھوکے کتوں کو پیش کرتے ہیں۔ ٹکا (سرخ ڈاٹ) کتے کو مقدس کی فضائیت سے پاک کرتا ہے اور اس اچھے دن پر کتے سے ملنے والے لوگوں کو برکت کے طور پر کام کرتا ہے۔ہندوؤں کا خیال ہے کہ کتا یمراج کا محافظ ہے، جو موت کے خدا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کتوں کو وفادار جانور سمجھا جاتا ہے اور اس دن انسانوں اور کتوں کے درمیان تعلقات منائے جاتے ہیں۔ ۔ باباجی نے ایک روز ہمیں ایک واقعہ سنایا،کہنے لگے۔۔ایک چوہیا اپنے تین ننھے ننھے بچوں کے ساتھ سیر کررہی تھی کہ ایک بلی سامنے آگئی۔ اس سے پہلے کہ بلی ان پر جھپٹتی ، چوہیا اپنی پوری طاقت سے چلائی۔۔ بھوں بھوں غررررررر۔ بھوں بھوں۔ بلی ہکا بکا رہ گئی۔ اور کنفیوز ہو کر الٹے قدموں واپس چلی گئی۔۔چوہیا نے مڑ کر بچوں کو دیکھا اور فخریہ لہجے میں بولی۔۔ دیکھا بچو ! تعلیم کے فائدے۔ اب تم جان گئے ہوگے کہ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا کتنا ضروری ہے۔

گاہک نے دکاندار سے کہا۔۔ آج کے بعد میرا کتا بھی تمہاری دکان پر آئے تو تمہیں اس کی عزت کرنی ہو گی۔۔دکاندار دونوں ہاتھ جوڑ کر بولا۔۔ بہت بہتر جناب! آپ کا کتا آئے تو سمجھوں گا کہ جناب ہی تشریف لائے ہیں۔۔۔ایک بچہ گلی میں کھیل رہا تھا، سامنے والے مکان سے ایک کتا نکلا اور اس کے پاؤں چاٹنے لگا ، بچہ روتا ہوا گھر آیا ۔۔ماں نے پوچھا، رو کیوں رہے ہو ؟ کہیں پڑوسی کے کتے نے تو نہیں کاٹ لیا ؟بچہ بولا۔۔نہیں، ابھی تو صرف چکھ کر گیا ہے، کاٹنے تو کل آئے گا۔۔کسان کھیت کی تیاری میں تھا کہ گیدڑ پاس آنکلا۔ اس نے کسان سے پوچھا، جناب کیا فصل اگانے کا ارادہ ہے۔۔کسان نے کہا، ہاں ،خربوزے کی فصل کا ارادہ ہے۔ گیدڑ بولا، واہ پھر تو میری موجیں ہوجائیں گی۔۔کسان نے کہا، نہیں میںکھیت کے گرد باڑ لگواؤں گا۔۔گیدڑ نے کہا،تو کیا ہوا میں باڑ کے نیچے سے آجاؤں گا۔۔کسان بولا، میں کھیت کے گرد دیوار بنوادوں گا۔۔گیدڑ نے کہا، میں دیوار پھلانگ لیا کروں گا۔۔کسان نے کہا، میں کھیت کی رکھوالی کیا کروں گا۔۔گیدڑ کہنے لگا، جب تم سونے جاؤگے میں کھیت میں داخل ہوکر خربوزے کھایاکروں گا۔۔اچانک کسان کو یاد آیا کہ گیدڑ کتے سے ڈرتے ہیں، بولا۔۔۔میں کھیت کی رکھوالی کے لیے کتے رکھ لوں گا۔۔’’ اوہ جٹا، ایہہ تے فیر مرداں والی گل نہ ہوئی نا (یہ تو کوئی مردوںوالی بات نہ ہوئی نا )گیدڑ یہ کہہ کر دم دبا کر آگے نکل گیا۔۔یک لیڈر (جس سے اکثرعوام نفرت کرتے ہیں) کی کار کے نیچے آ کر ایک کتے کا بچہ مر گیا۔۔لیڈر نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ جا کر معلوم کرو کہ یہ کس کا کتے کا بچہ تھا۔جب ڈرائیور واپس آیا تو ’ا س کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔لیڈر نے پوچھا کہ یہ کیا۔۔ڈرائیور بولا۔۔سر میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں۔۔ کتے کا بچہ مر گیا ہے تو لوگوں نے اگلی بات سنی ہی نہیں۔۔

اورآخر میں فیض احمد فیض کی روایت سے ہٹ کر’’کتے ‘‘ پر ایک دلچسپ نظم جو ریختہ نامی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے۔۔یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے ،کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی ۔۔زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا ،جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی ۔۔نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے ،غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے ۔۔جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو ،ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو ۔۔یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے ،یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے ۔۔مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے ،تو انسان سب سرکشی بھول جائے ۔۔یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں ،یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں ۔۔کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے ،کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر