وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان تحریک اور حکومت..قسط نمبر:9
(جلال نُورزئی)

اتوار 17 نومبر 2019 طالبان تحریک اور حکومت..قسط نمبر:9<br> (جلال نُورزئی)

سال1998ء میں اسامہ بن لادن نے کندھار منتقلی کی خواہش کا اظہار کیا۔ چناں چہ ملا محمد عمر مرحوم نے انہیں اجازت دیدی۔ وہ خاندان کے ہمراہ کندھار منتقل ہوگئے۔ ملا محمد عمر کے ترجمان ملا عبدالحئی مطمئن کہتے ہیں کہ اُسامہ کے پاس مالی ذرائع نہ تھے۔ ان کی گاڑیوں کے لیے پٹرول و ڈیزل بھی امارت اسلامیہ فراہم کرتی۔ اُسامہ نے سیاسی لحاظ سے خود کو نمایاں رکھا تھا ۔باوجود اس کے کہ دنیا کے اندر اس کا امیج ناپسندیدہ بن چکا تھا ۔ انہیں یقینا اس بات کا ادراک بھی تھا ،کہ ا ن کی فعالیت سے امارت اسلامیہ کے لیے مشکلات بنتی جارہی ہیں ۔

 

لغزشیں اور کوتائیاں امارت اسلامیہ سے بھی ہوئیں۔ ان کی جانب سے اُسامہ کی سیاسی و دوسری سرگرمیوں پر قطعی پابندی لگنی چاہئے تھی۔ چناں چہ ان ہی ایام میں یعنی7اگست1998ء کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے واقعات پیش آئے۔ اگرچہ طالبان کہتے ہیں کہ انہوںنے اُسامہ کوسرگر میاں نہ کرنے کا کہا تھا ۔ نیزسعودی حکومت کے خلاف سیاسی گفتگو نہ کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔اور ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی گئی تھی۔مگر حالات سے ظاہر ہوا کہ طالبان اس ضمن میں خاطر خواہ عمل درآمد نہ کرا سکے۔کیوں کہ اُسامہ سیاسی گفتگو کرتے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے بھی بات چیت کر لیتے ۔ 27اگست 1998ء کو امریکا نے خلیج کے پانیوں سے افغانستان پر کروز میزائل داغے ۔ گولے خوست کے مختلف مقامات پر جا لگے ۔

 

ایک دینی مدرسہ پر گولہ گرنے کے نتیجے میں اکیس طلباء جاں بحق ہوگئے۔ جلال آباد اور کندھار میں بھی گولے گرے ۔ بیک وقت سوڈان کو بھی نشانہ بنایا گیا وہاں ادویات تیار کرنے کی فیکٹری تباہ کی گئی ۔الزام لگایا کہ فیکٹری میں کیمیائی ہتھیار بنائے جاتے ہیں۔ لیکن امریکااپنے اس الزام میں دروغ گو ثابت ہوا۔ سوڈان کی حکومت نے اقوام متحدہ سے معائنہ کار بھیجنے کا مطالبہ کیا ۔تاکہ دنیا پراصل حقائق واضح ہوں، مگر ان کی شنوائی نہ ہوئی ۔ کروز میزائل بلوچستان کے علاقے چاغی کے صحرامیں بھی گرے تھے۔ برہان الدین ربانی نے افغانستان پر ان حملوں کی حمایت کی۔

 

فروری1999ء میں افریقی ممالک کے اندر دو حملے بھی القاعدہ یا اسامہ سے منسوب ہوئے۔12اکتوبر2000ء کو یمن میں لنگر انداز امریکی فوجی بیڑے پر حملے کا الزام بھی اُسامہ پر لگا۔ اس حملے میں سات امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اسطرح اُسامہ کی حوالگی اور افغانستان سے بدری کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ واشنگٹن کے سفارتی اور جاسوسی کے ادارے متحرک ہوگئے۔ سعودی عرب کی پریشانی مزید بڑھ گئی۔ حالاں کہ اس سب کی وجہ سعودی حکومت تھی۔ چناں چہ سعودی حکومت نے بھی طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ یقینی طور پاکستان کی حکومت اورعسکری حکام اس پوری صورت حال سے باخبر و مضطرب تھے۔

 

جیسا کہا گیا کہ امارت اسلامیہ، اُسامہ کے قضیے کا منطقی حل چاہتی تھی۔ طالبان یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں سے اٹھا کر مسلم ممالک اور وہاں کے معتبر و معروف علماء کے سپرد کرنا چاہتے تھے ۔ گویا اس مرحلے پر بھی افغانستان کی حکومت (امارت اسلامیہ)نے ثبوت طلب کرلیے ،جو قانونی اور شواہد کا معیار پورا کرتے ہوں ثبوت تب بھی نہ د یے گئے۔ افریقا کے واقعات سے متعلق امریکا نے طالبان کو سی این این کی ایک رپورٹ شواہد کے طور پر بھیجی ۔سعودی عرب کے انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل خصوصی طیارے میں کندھار پہنچ گئے۔ ہمراہ پاکستان میں متعین سعودی سفیر بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ طیارے میں لوہے کا پنجرہ بھی لایا گیا تھا۔ ترکی الفٖیصل بڑے تکبرو رعونت کے ساتھ گئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جونہی وہ اُسامہ کی حوالگی زبان پر لا ئیں گے ،تو ملا محمدعمر آن میں اُسامہ ہاتھ بند ھے حوالے کردے گا۔ مگر ملا محمد عمر نے ان کی رعونت اور زعم کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ملا محمد عمر نے انہیں کہا کہ اس حوالے سے سعودی عرب ،سعودی علماء پر مشتمل کمیٹی بنائے ،جو افغان علماء سے ملکر کوئی حل نکالے۔ غرض ماحول تلخ و ناخوشگوار بن گیا۔

 

ملا محمد عمر ترکی الفیصل پر برہم ہوئے۔ کہا کہ سعودی عرب اسلام کا مرکز ہے اور آپ کے اسلاف نے دنیا ئے اسلام کو حمیت و غیرت کا درس دیا ہے۔ ملا محمد عمر نے ان سے یہ بھی کہا کہ امریکیوں پر حملے افریقہ میں ہوئے ہیں ، دشمن امریکا کا ہے اور حوالگی کا مطالبہ سعودی کررہے ہیں ۔ چناں چہ ترکی الفیصل غصے سے لال پیلے اُٹھ کر چلے گئے اور ملا محمد عمر اپنی چادر اٹھا کر اپنے کمرے میں داخل ہوئے ۔ اگلے دن سعودی حکومت نے ریاض میں متعین افغان سفیر مولوی شہاب الدین کو نکال دیا۔ گویا مُصر تھے کہ بہر صورت اسامہ بن لادن ان کے حوالے کردیا جائے۔ بہر حال افغان حکومت کئی حوالوں سے غافل رہی۔

 

اگر امارت اسلامیہ نے اسامہ بن لادن کو امریکا اور سعودی عرب پر تنقید اور سیاسی سرگرمیاں نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تو ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھنی چاہیے تھے۔ طالبان تسلیم کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن ذرائع ابلاغ پر گفتگو کرتے ۔امریکی پالیسیوں پر تنقید کرتے۔ بن لادن مہمان و پناہ گزین کی حیثیت سے افغانستان میں مقیم تھے ۔ مگراس کے بر عکس وہ افغانستان کے قوانین کو پامال کرتا تھا۔ لہٰذا طالبان حکومت پر لازم تھا کہ انہیں بہر حال اپنے قوانین کے احترام کا پابند کر تی ۔ ان کی نقل و حرکت پر کڑ ی نگاہ رکھی جاتی۔ غرض سعودی عرب طالبان مخالف بن گیا۔ پاکستان کا رویہ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔ (جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر