وجود

... loading ...

وجود
وجود

شیر اُڑا۔۔۔! (راؤ محمد شاہد اقبال)

جمعرات 14 نومبر 2019 شیر اُڑا۔۔۔! (راؤ محمد شاہد اقبال)

مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے ہونی والی ضمانت نے ملک بھر میں مختلف قسم کی افواہوں کا بازار گرم کردیا ہے ۔خاص طور پر سوشل میڈیا پر متوالے اور کھلاڑیوں کے درمیان ایک گھمسان کا مقابلہ جاری ہے ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ کھلاڑی ہوں یا متوالے دونوں ہی اپنے اپنے سیاسی قائدین کی محبت و عقیدت میں سچ کے بجائے جھوٹ کے تیز دھار آلات سے ایک دوسرے سے نبرد آزماہیں ۔ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا جھوٹی خبروں اور افواہوں کی زبردست آماجگاہ بن چکا ہے ۔جہاں ایک طرف مریم بی بی کے حامی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سچ اور حق کی جیت قرار دے رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب تحریک انصاف کے کھلاڑی ڈیل اور ڈھیل کی دہائیاں دے رہے ہیں ۔ متوالوں اور کھلاڑیوں کی اِس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان اُن سادہ لوح عام لوگوں کا ہورہا ہے جو سوشل میڈیا کو خبر رسانی کا ذریعہ سمجھ کر اِس پر پوسٹ ہونے والی جھوٹی خبروں کو سچ سمجھ لیتے ہیں ۔اِن حالات میں جھوٹ اور افواہوں کے درمیان میں سے سچ نکال کر اُسے عام عوام تک پہنچانے کی سب سے بڑی ذمہ داری پرنٹ میڈیاکے مضبوط اور مستند ترین ادارتی بورڈ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خبروں اور تجزیوں پر سے الیکٹرانک میڈیا کی چڑھائی گئی غیر ضروری سنسنی اور سوشل میڈیا کے زہر آلود جھوٹے ملمع کو کھرچ کر اپنے قارئین کو مصدقہ اور مستند ترین تجزیے و خبر تک پہنچنے میں مدد دے ۔

اگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے ہونے والی ضمانت کو ایک معمول کی کارروائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ۔ جس میں عدالت کے معزز جج نے فقط اُن حقائق و واقعات کا جائزہ لیا ہے جو اُس کے سامنے نیب اور مریم نواز کے وکلاء کی جانب سے پیش کیے گئے ۔ عدالت نے مریم نواز کو ضمانت ضرور دی ہے لیکن جن شرائط کے ساتھ اِس ضمانت کو جاری کیا گیا وہ تمام شرائط کیس میں اختیار کیے گئے نیب کے موقف کو ہی تقویت پہنچاتے ہیں اور مریم نواز کو ضمانت ملنے کے باوجود بھی اِس بات کا پابند بناتے ہیں کہ وہ عدالت کے علم میںلائے بغیر بیرونِ ملک نہیں جاسکتیں ۔ عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلہ کا یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو اِس بات کی کلیتاً نفی کرتاہے کہ عدالت کہیں بھی شریف خاندان کی طرف سے ہونے والی ڈیل یا ڈھیل کی کوششوں میں براہ راست ملوث ہے ۔ اس لیے جو لوگ بھی مریم نواز کی ضمانت کے فیصلہ پر اظہارخیال فرماتے ہوئے عدالت کو اپنی تنقید کا نشانا بنارہے ہیں اُنہیں اپنے رویہ پر سنجیدگی کے ساتھ نظرِ ثانی کرنی چاہئے ۔

جہاں تک میاں محمد نواز شریف کی علاج کی غرض سے بیرونِ ملک روانگی کا تعلق ہے تو اِس واقعہ کو پاکستانی سیاست میں ’’طبی نظریہ ضرورت‘‘ کے طور پر لیا جارہا ہے کیونکہ تحریک ِ انصاف کی حکومت ہو یا پھر نیب کوئی بھی میاں محمد نوازشریف کی علاج کے حوالے سے ’’سیاسی رسک‘‘ لینے کو تیار نہیں ہے ۔ شاید اِسی لیے جیسے جیسے میاں محمد نوازشریف کی بیماری شدید تر ہوتی گئی ویسے یسے اُن کے بیرونِ ملک جانے کی راہیں بھی آسان سے آسان تر ہوتی گئیں لیکن میاں صاحب کی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود میاں صاحب کے ہمراہ اُن کی سیاسی جانشین محترمہ مریم نواز کا بیرونِ ملک روانہ ہونے کا بندوبست ممکن نہ ہوسکا ۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے پاس مریم نواز کا پاسپورٹ موجود ہے اِس لیے مریم نواز کو بیرونِ ملک سفر کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے لازماً اجازت درکار تھی ،اِس قانونی رکاوٹ کو دور کرنے میں کچھ وقت درکار اُمید ہے کہ جیسے ہی یہ قانونی رکاوٹ دور ہوگی مریم نواز بھی اپنے والد بزرگوار کی خدمت کے لیے پہلی دستیاب فلائیٹ سے بیرونِ ملک روانہ ہوجائیں گی۔جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ذرائع کے حوالوں سے یہ خبریں بھی زیرِ گردش ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے فی الفور ہٹانا چاہتے ہیں اور میاں صاحب بضد ہیں کہ وہ شہباز شریف کے جگہ شاہد خاقان عباسی کو لائے بغیر وہ پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہو پائیں گے ۔بظاہر یہ خبر بھی حقائق سے یکسر برخلاف معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اگر بالفرض محال اِس خبر کو ایک لمحہ کے لیے درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وراثت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ شہباز شریف کی سیاسی اور غیر سیاسی کوششوں کی وجہ سے ہی آج میاں محمد نواز شریف کو بیرونِ ملک جاکر علاج کروانے کی ڈھیل اور ڈیل دی جارہی ہے ۔

بہر حال ایک بات طے ہے کہ مریم نواز نے رہائی ملنے کے بعد جس طرح سے مولانا فضل الرحمن کے بار بار اُکستانے کے باوجود بھی خود کو سیاست میں عملی طور پر متحرک نہ ہونے کی پالیسی پر کاربند رہنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اِس سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی سیاسی رائے کو بالآخر میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز نے بھی من و عن قبول کرلیا ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی اپنی پرانی سیاست سے ایک ایک قدم کرکے پیچھے ہٹنا شروع ہوجائے گی۔اگر ایسا ہوگیا تو یہ مسلم لیگ ن کی سیاست کے لیے بڑا ہی نیک شگون ہوگا۔ہم تو ویسے بھی ایک سے زائد بار اپنی اِس رائے کا اعادہ کرچکے ہیں کہ صرف شہباز شریف کا نظریہ سیاست ہی مسلم لیگ ن کو اقتدار کی راہ داریوں میں کسی نہ کسی حد تک واپس لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر