وجود

... loading ...

وجود
وجود

تری نگاہِ کرم کوبھی
منہ دکھانا تھا !
(ماجرا۔۔محمد طاہر)

منگل 15 اکتوبر 2019 تری نگاہِ کرم کوبھی <br>منہ دکھانا تھا ! <br>(ماجرا۔۔محمد طاہر)

<p style=”text-align: right;”>ایواینجلیکن عیسائی پادری کے طور پر معروف سوشلسٹ فریڈرک لیوس ڈونلڈسن نے مارچ 1925 کوایک خطاب میں سماج کے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا۔جن میں سے ایک ’’Politics without principle‘‘ ہے۔پاکستان میں اُصول کے بغیر سیاست کا گناہ عام ہے۔ بدترین تقسیم سے دوچار ہمارے سماج میں ’’بے اُصولی‘‘ کی رعایت گروہ بندی کی نفسیات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ ہمیں عمران خان کے دھرنے کی مخالفت کے بعد اب مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی حمایت کرنی ہے۔ اس حمایت کی بنیاد بھی مولانا کے دلائل سے فراہم نہیں ہوتی۔ بلکہ میاں نوازشریف کے اُس خط سے ہوتی ہے جو اُنہوں نے شہبازشریف کے نام لکھا ہے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>میاں نوازشریف کے خطوط کو خطوطِ غالب کے بعد شاید سب سے زیادہ شہرت ملنے والی ہے۔ لسی پی کر آسودہ رہنے والے میاں صاحب کی حسِ خط نویسی اور صلاحیت ِ تحریر کے متعلق تو آج تک کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکا۔ رقعوں سے تقریر اور پریس کانفرنس تک کرنے والے ہمارے سابق وزیراعظم خطوط میں اس قدر بسیار نویس ہوں گے، اس کا اندازا ہی نہیں لگایا جاسکا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اُنہوں نے ایک خط کیپٹن صفدر کے ذریعے مولانا فضل الرحمان کو ارسال کیا۔ دوسرا خط شہباز شریف کو لکھا، جس میں اُنہیں دھرنے کی سرگرم حمایت کی تاکید کی۔ شہبازشریف دھرنے کے خلاف مستحکم رائے کا اظہار کرنے کے باوجود اس کی حمایت اپنے برادرِ محترم کی اطاعت میں کرنے کا عندیہ دے چکے۔ اُنہوں نے ایک مشاورتی اجلاس میں موبائل فون باہر رکھوا کر یہ فیصلہ کیا کہ ایک وفد نوازشریف کے خط کو مولانا کی بارگاہِ اقدس میں پیش کرے اور آئندہ کی حکمت عملی پر بات کرے۔ درحقیقت دھرنے کے معاملے میں ہی نہیں ، حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے اندر شدید قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ نوازشریف کسی نوعیت کا دباؤ پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جو اسلام آباد کے طاقتور حلقوں میں تو کجا ، عمران خان ایسے تیزی سے نامقبول ہوتے وزیراعظم کو بھی پریشان کرسکے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>ابھی بارہ اکتوبر کی تاریخ کو صرف تین روز گزرے ہیں، سال 1999 کی اسی تاریخ میں نوازشریف کو وزیراعظم کے منصب سے بزور طاقت بے دخل کردیا گیا تھا۔ مگر تب اُن کا انحصار سعودی عرب اور امریکا پر تھا۔ پاکستان داخلی طور پر اس دباؤ کو قبول کرنے پر مجبور ہوا، اور خادم الحرمین شریفین کے ایک ’’خط‘‘ ہی نے اُنہیں شب کی تاریکی میں سعودی عرب پہنچا دیا۔ پاکستان کے اندرونی حالات میں غیر معمولی بدلاؤ اور سعودی عرب سمیت عالمی سطح پر نوازشریف کی حمایت کے معمولی جذبات رکھنے والے ممالک بھی مختلف وجوہات سے میاں نوازشریف اور اُن کے معاملات سے قطع تعلق کرچکے ہیں۔ ایسے حالات میں نوازشریف کے لیے ملک کے اندر دباؤ پیدا کرنے اور عمران خان سے چھٹکارے کے علاوہ کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہ جاتا۔ نون لیگ کی مجبوری یہ ہے کہ اُسے عوام کی انتخابی حمایت تو حاصل ہے مگر یہ حمایت کبھی بھی جماعتی نظم میں ڈھال کر سیاسی قوت میں بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ مسلم لیگ نون اپنی عوامی حمایت کو سڑکوں پر منظم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی کچھ کوششیں بھی ہوئیں مگر اپنا پیٹ اُٹھا کر کون دکھاتا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ نوازشریف کے پاس مولانا فضل الرحمان کی شکل میں وہ واحد’’امید ‘‘ باقی رہ جاتی ہے،جو موجودہ حکومت کے خلاف بروئے کار آنے کی صورت میں اُن کے معاملات میں قدرے آسانی پیدا کرسکتی ہے۔ شہبازشریف اس حکمت عملی کو درست نہیں سمجھتے۔ جبکہ نوازشریف دباؤ کے بغیر مفاہمت کے امکانات کو اب ہر گزرتے دن مدہم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان اور اُن کے مارچ کے لیے نوازشریف کی گرمجوشی قابلِ فہم ہے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>اب یہاں فریڈرک لیوس کے سماج کے سات میں سے ساتویں گناہ یعنی بغیر اُصول کے سیاست کو دھیان میں رکھتے ہوئے یاد کریں۔ نوازشریف جدہ اور لندن میں اپنے جلاوطنی کے ایام میں ایک سے زائد بارمولانا فضل الرحمان کو اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ قرار دے چکے ہیں۔ یہی نہیںوہ اپنے ملنے والوں کو واشگاف الفاظ میں کہتے رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کارندے سے عمر بھر ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ اگر چہ وہ ایم کیوایم کے باب میں بھی میثاقِ جمہوریت کے ایک عہد کو پی گئے تھے۔ سماج کے ساتویں گناہ میں آخر لذت بھی تو بہت ہے۔ اب وہ مولانا فضل الرحمان کے باب میںاپنی ساری باتیں فراموش کرچکے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ جنہیں اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ قراردیتے رہے ہیں، وہی کارندہ اسٹیبلشمنٹ کے سب سے زیادہ پسندیدہ کردار کے خلاف سب سے متحرک شخصیت کے طور پر پاکستان کے سیاسی اُفق پر چھا چکا ہے۔ اگر وہ سیاسی نقشہ اُتھل پتھل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ طاقت ور حلقوں کی مرضی کے برخلاف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا اور اس کا خود مولانا فضل الرحمان سے بھی زیادہ فائدہ نوازشریف کو ہی پہنچے گا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>اُصول کے بغیر سیاست کی فضاء میں ایک سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف مولانا فضل الرحمان کی تحریک کی حمایت کی کوئی اُصولی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیا واقعتا وہ ووٹ کو عزت دلانے کے لیے نکلے ہیں؟ اس کا جواب بھی ایک خط کی اطلاع سے ملتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ نوازشریف نے ایک خط اپنے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو بھی تحریر کیا ہے ، جس میں اُنہوں نے اپنے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>نوازشریف نے اس خط میں اپنے صاحبزادے کو کچھ لوگوں سے خبردار کیا ہے ، اللہ نہ کرے کہ اس میں مولانا فضل الرحمان کا نام ہو۔ مگر اس کی اطلاع ضرور ہے کہ اُنہوں نے اپنے خط میں اپنی جماعت اور خاندان کے خود سے مخلصین کے متعلق اور اُن سے معاملات آگے بڑھانے کی نوعیت کو واضح کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دھرنے کے اس ماحول اور ووٹ کو عزت دلوانے کی اس مہم میں حسین نواز کو خط کے ذریعے کس کردار کے لیے ہدایت دی گئی ہے؟کیا یہ خط دھرنے کے دباؤ میں اپنے خال وخط سنوارنے اور فائدہ اُٹھانے کی کاروباری نفسیات کا حصہ ہے؟ اس بدگمانی کو چھوڑئیے!مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف کے پاس ملک میں حکومت کے خلا ف براہِ راست اور طاقت ور حلقوں کے خلاف بالواسطہ دباؤ پیدا کرنے والی کسی بھی تحریک کی حمایت کے سوا کوئی راستا نہیں۔ تاہم شہبازشریف سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس ابھی یہ راستا موجود ہے۔ اس لیے اُن کے نزدیک ابھی ووٹ کو عزت دلانے کا وقت نہیں آیا۔درحقیقت فریقین کوئی بھی ہو، سب اپنے مفادات کے کھیل ، کھیل رہے ہیں، مگر اس کھیل کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس الفاظ بڑے خوبصورت ہیں۔ سماج کا ساتواں گناہ ہم نے اپنے اوپر واجب جو کرلیا ہے۔ دیکھیے شاعر نے خود گناہ کو بھی کیسا باجواز بنا رکھا ہے:</p>
<p style=”text-align: center;”>گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یارب
تری نگاہِ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا</p>


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر