وجود

... loading ...

وجود
وجود

ذکر ہے مکھیوں کے شہر ِ بدحال کراچی کا۔۔۔!

پیر 02 ستمبر 2019 ذکر ہے مکھیوں کے شہر ِ بدحال کراچی کا۔۔۔!

اشفاق احمد اپنی کتاب زاویہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”میں نوروالے ڈیرہ پر بیٹھا ہو اکافی دیر سے ایک مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لیے مجھے نور والے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اچانک ان کی آواز سنائی دی۔وہ کہہ رہے تھے کہ”یہ مکھی اللہ نے آپ کے ذوقِ کشتن کے لیے نہیں پیدا کی ہے،جو آپ اِسے مار رہے ہو“۔ میں نے کہا”بابا جی! یہ مکھی گند پھیلاتی ہے اس لیے اِسے مار رہا تھا“۔بابا جی جواباً کہنے لگے”یہ مکھی تو انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو“۔ میں نے کہا”بابا جی! یہ مکھی،انسان کی محسن کیسے ہوسکتی ہے؟“ بابا جی! میرے سوال کے جواب میں کہنے لگے کہ”یہ مکھی بغیر کوئی کرایہ لیے، بغیر کوئی ٹیکس لیے انسان کو یہ بتانے کے لیے آتی ہے کہ یہاں پر گند ہے اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں یہ خودبخود چلی جائی گی“۔کئی برس قبل پڑھا ہوا یہ واقعہ آج اِس لیے یاد آگیا ہے کہ میرے سامنے رکھے ہوئے اخبار میں جلی حروف میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ”سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں سندھ بھر میں مکھیوں کے خاتمہ کے لیے خصوصی دُعا کروائی گئی“۔ مذکورہ خبر میں بہرحال اِس بات کی وضاحت نہیں کی گئی سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خلاف فقط دُعا پر ہی اکتفا کیا گیا ہے یا کوئی قرارداد بھی پاس کروائی گئی ہے۔جبکہ اَب تک یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خلاف کروائی گئی دُعا یا ممکنہ قرارداد کا سندھ میں دراندازی کرنے والی مکھیوں نے کیا اثر لیا ہے۔بظاہر تو یہ ہی لگتا ہے کہ مکھیوں نے سندھ اسمبلی میں اُٹھائے گئے اپنے خلاف کسی بھی اقدام کو خاص ”سنجیدگی“ سے نہیں لیا ہے۔ جب ہی تو مکھیاں اَب تک سندھ کی آلودہ فضاؤں میں بدستور لذتِ کام و دہن میں مصروف نظر آرہی ہیں۔
واضح ر ہے کہ سندھ اسمبلی میں کبھی بھولے سے بھی کسی بے وقعت موضوع پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کیا جاتا،اِس لیے یہ سوچنا کہ سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں ”مکھی“ کا تذکرہ خالی از منفعت ہوسکتا ہے، بالکل ایک لغو خیال ہے اور سندھ اسمبلی کے معزز اراکین اِس طر ح کی لغویات سے مکمل طور پر پاک و صاف ہیں۔ اس لیے سندھ اسمبلی میں ”انسدادِ مکھی“ کے لیے کروائی دُعا کا پوسٹ مارٹم کرنے پہلے ہمیں اِس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا ہوگا کہ آخر سندھ بھر بالخصوص کراچی میں ”مکھیوں“ کی اچانک بھرمار ہوئی کیسے؟ اِس بارے میں عوامی رائے تو یہ ہی پائی جاتی ہے کہ سندھ میں ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد کچرے کے پھیلنے والے تعفن کے باعث مکھیوں کی بہتات ہوئی ہے،لیکن اِس رائے سے سندھ حکومت شاید کچھ اتنی زیادہ متفق نہیں ہے کیونکہ اگر سندھ حکومت اِس عوامی رائے سے ذرہ برابر بھی اتفاق رکھتی تو کراچی شہر سے کچرا اُٹھانے کی کوئی نہ کوئی عملی سعی لازمی اختیار کرتی، نہ کہ سندھ اسمبلی میں مکھیوں کے خاتمہ کے لیے دُعا کا روحانی سہارا لیتی۔ویسے چند ناعاقبت اندیش تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ اگر کراچی شہر کا کچرا اُٹھانے کا آغاز”مکھیوں“ کو بھگانے سے پہلے کردیگا تو پھر ”مکھیوں“ کو صوبہ بدر کرنے کے لیے کروڑوں روپوں کا بجٹ کیسے اور کیونکر ملے گا؟یعنی سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی کی دُور اندیشانہ سیاسی سوچ یہ ہے کہ سب سے پہلے ”مکھیوں“ کو بھگانے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات کی منظوری حاصل کی جائے گی۔بعد ازاں کراچی کا کچرا اُٹھانے کے لیے منظور کروائے گئے کروڑوں روپے کا بجٹ خرچ کر کے شہر کو کچرے سے نجات دلانے کی سمت کوئی عملی قدم اُٹھایا جائے۔
مکھیوں کے لیے سب سے زیادہ فخر و مباہت کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جگہ جگہ ہونے والی اُن کی اچانک رونمائی نے اُنہیں راتوں رات ایک عام سی مکھی کے مقام سے اُٹھا کرالیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا سپر اسٹار بنا دیا ہے۔ کل تک جو میڈیا مالکان اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے آج وہی میڈیا مالکان اپنے نیوز اینکروں کو بریکنگ نیوز میں مکھیوں کا تذکرہ کر نے پر ترغیبی انعامات سے نوازرہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اِس وقت کراچی میں گھومنے پھرنے والی مکھیاں ٹاپ ٹرینڈ کررہی ہیں۔ٹو ئٹر اور فیس بک پر مکھیوں پر بے شمار میمز اور ٹوئٹس زیرِ گردش ہیں،جن کی مقبولیت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ جیسے ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ”کراچی میں سب مر جائیں گے صرف مکھیاں رہ جائیں گی“۔ سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم بھی مکھیوں سے پریشان ہیں اور انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ”جلد ہم کراچی کو ’مکھیوں کا شہر‘ کہیں گے“۔نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہم گھروں میں رہیں یا گھر سے باہر رہیں مکھیاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔پھل اور سبزی فروش دہائی دے رہے ہیں کہ”مکھیاں اُڑا اُڑا کر ہمارے بازوؤں میں درد ہوجاتا ہے لیکن مکھیاں ہیں کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتیں“۔ایک ٹوئٹر صارف نے مکھیوں کی عزت افزائی میں یہ تک لکھ دیا ہے کہ”دنیا میں 7 ارب لوگ ہیں اور کراچی میں 7 کھرب مکھیاں ہیں“۔اَب آپ خود ہی بتائیں کیا ایسی بے مثال شہرت کبھی مکھی جیسی ادنیٰ سی مخلوق کے نصیب میں آئی ہوگی۔ خدا لگتی تو یہ ہے کہ مکھی ذات کو اِس عظیم ترین مقام تک پہنچانے میں سندھ حکومت کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔یقینا مکھیاں اگر کراچی میں یونہی زندہ جاوید اور سلامت رہیں تو اُن کی نسل تاقیامت سندھ حکومت کے یہ احسانِ گراں بار فراموش نہ کرسکیں گی۔
کراچی میں کچرے اور مکھیوں کے بھیانک امتزاج نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی کے حکمران ایک دوسرے پرالزامی بیان بازی سے وقت گزاری کا شوق فرمارہے ہیں۔ہماری وفاقی حکومت سے التماس ہے اگر سندھ حکومت اور بلدیہ عظمی کراچی مل کر بھی کراچی کو کچرے سے نجات نہیں دلاسکتے تو پھر وزیراعظم پاکستان عمران خان کے انتظامی کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی کے باسیوں کے لیے کچھ کر گزریں۔عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ کراچی کے عوام نے گزشتہ انتخابا ت میں اپنا سارا مینڈیٹ اُن کی سیاسی جماعت کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ وہی تاریخی مینڈیٹ ہے جس کی بنیاد پر آج عمران خان وزیراعظم پاکستان ہیں۔پس کراچی کے باسیوں کے دگرگوں حالت پر وفاقی حکومت کا مزید تماشائی بنا رہنا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آئے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر