وجود

... loading ...

وجود
وجود

پیپلزپارٹی کا سیاسی افلاس

پیر 14 جنوری 2019 پیپلزپارٹی کا سیاسی افلاس

ابھی تو بلاول بھٹو نے اپنی سیاست کا آغاز کیا ہے! مگر یہ کیا ،وہ اپنے انجام کو گلے لگانے کے لیے اتنے اُتاؤلے کیوں ہوگئے؟ الیگزینڈر پوپ نے 1711ء میں ایک نظم’’An Essay on Criticism‘‘ لکھی جس کے ایک جزوِ فقرہ نے انگریزی زبان کو ایک کہاوت دینے میں مدد دی:
’’Fools rush in where angels fear to tread‘‘
(بے وقوف وہاں جاگھستے ہیں جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں)۔
بلاول بھٹو خود کو ایک ایسے ہی انجام سے دوچار کرنے پر بضد ہیں۔ جناب آصف علی زرداری کے پاس کھینچنے کے لیے رسیاں باقی نہیں رہیں۔ اُن کی جانب سے تیز گفتاری دراصل اپنے بچاؤ کا آخری چارۂ کار ہے۔ وہ اس طرح خاموش سمندر کی گہرائیوں میں ایک ہلچل مچانا چاہتے ہیں۔ مگر سمندر میں پھینکے جانے والے کنکر محض دائرے بنا کر گم ہوجاتے ہیں۔ کیا آصف علی زرداری کے تحفظ کی قیمت بلاول اپنے قبل ازوقت سیاسی انجام سے دینا چاہتے ہیں؟اگر نہیں تو یہ کھیل خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کو بہت جلد اپنی حکمت عملی کی بنیادی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔
بلاول بھٹو کو گمراہ کرنا آسان ہے۔ وہ لکھی ہوئی تقریر کو پڑھنا سیاسی شعور کے ہم پلّہ سمجھتے ہیں،پیپلزپارٹی کے سیاسی ورثے کو گویا اپنی سیاسی بصیرت و ذہانت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس بناء پر حریفوں کی ذہانت پر سوال اُٹھا تے ہیں۔ اس سے سیاسی حریفوں کے متعلق تو رائے قائم کرنے میں اتنی مدد نہیں ملتی جتنی خود اُن کی ’’ذہانت‘‘ بے نقاب ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو نے بے نظیر کی گیارہویں برسی کے موقع کو’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ (جس سے مراد عسکری ادارے کے علاوہ اور کچھ نہیں)کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کے لیے استعمال کیا۔اُنہوں نے اپنے خطاب میں ’’طاقت کے نشے میں مست نام نہاد ٹھیکیداروں‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اپنے اُس صبر کو کھودیا تھا جو سیاست میں موقع کی تلاش کے لیے ہمیشہ درکار ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ بالواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ پر تیر انداز ہوتے تھے،اُنہوں نے اپنے والد کی طرح اینٹ سے اینٹ بجانے کی زباں درازی کو شعار نہ کیا تھا۔ مگر اب وہ اس معاملے میں اپنے والد سے بڑھ کر دکھائی دینے لگے ہیں ۔وہ ایک ساتھ وفاق ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر تاک تاک کر نشانے لگارہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس موقع پر اُنہوں نے’’ پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کے نوجوانوں کو بھی حق بجانب ثابت کرنے کی بالواسطہ کوشش کی جو فوج کے لیے ایک حساس موضوع بن چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے یہ تیور گزشتہ روز کوٹری کے جلسے میں بھی جوں کے توں تھے۔ جس میں براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کے متعلق واضح اشارے دے کر ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت کو نشانے پر لیا گیا۔ ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو نشانے پر لینے کا مقصد ہمیشہ اور واقعتا وفاقی حکومت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے مراد وہی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے والا‘‘ ہدف ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو کے لیے یہ کوئی سازگار حکمتِ عملی ہے؟
پی پی چیئرمین کو سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ جس پیپلزپارٹی کی قیادت کررہے ہیں وہ ذوالفقار بھٹو تو درکنار بے نظیر بھٹو کی بھی نہیں ہے۔ اب پیپلزپارٹی کے پاس جو بھی کاٹھ کبار ہے وہ سب کا سب اُن کے والد محترم کی پیداوار ہے۔ اس سیاست کی بنیادی قدر جمہوریت یا مزاحمت نہیں بلکہ پیسہ ہے۔ جناب زرداری کا ذہن اس حوالے سے اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ وہ ’’پیسوں ‘‘کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی ’’پیسوں ‘‘سے ہی حل کرنا چاہتے ہیں۔اس بنیادی رویے کے ساتھ تو پولیس کا سامنا نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ سامنے ایک عسکری ادارے کو مخالف بنالیا جائے۔ اس ضمن میں یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ رخصتی دروازے پر کھڑے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جے آئی ٹی پر عبوری احکامات سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ یا خود اُن کے اپنے لیے کوئی مستقل راحت کا سامان نہیں رکھتے۔ یہ سیاسی جمع خرچ کے تو کام آسکتے ہیں، مگر کسی مستقل ہدف کے لیے کارآمدنہیں۔ پھر اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نوازشریف نے مٹھائی کھائی اور مسلم لیگ نون نے بانٹی تھی۔ مگر اس کا آخری انجام شریف خاندان کے لیے بھیانک ثابت ہوا۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے دروبام سے نکلنے والی روشنی کی معمولی کرن اُن کے لیے کسی اُجالے کا مستقبل بندوبست نہ کر پائے گی، کہیں یہ انجام کا آغاز نہ ہو۔ اور پیپلزپارٹی بھی اس کتابِ احتساب کے آخری ورق تک آتے آتے نون لیگ کے حال کو نہ پہنچ جائے۔ بلاول بھٹو کی موجودہ سیاست اس دباؤ کے نرغے سے کبھی نہیں نکل سکے گی۔ ایسے میں اُن کے انقلابی خطبے خود اُن کے خلاف جذبات کو ہوا دیں گے۔ سیاست راستے بنانے اور امکانات کو مجسم کرنے کا نام ہے۔ مگر بلاول اِسے شوقِ خطابت پوراکرنے کا کام سمجھ بیٹھے ہیں۔
بلاول بھٹو کا طرزِ سیاست وخطابت پی پی کے مخصوص سیاسی رنگ کا پوری طرح آئینہ دار ہے۔ جس میں اُن کی اپنی غلطی کے ذمہ دار بھی دوسرے ہوتے ہیں۔ یہ رویہ مجموعی طور پر پاکستانی سیاست کا المیہ ہے۔ پاکستانی سیاست کا کل ماجرا یہ ہے کہ یہ احتجاجِ غیر پر چلتی ہے ، کسی کے پیش نظر تعمیرِخویش نہیں۔ تحریکِ انصاف کی غلطیاں سندھ حکومت اپنی برأت کے لیے پیش کرتی ہیں۔ پی پی حکومت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر خود کو پیش کرنے کی کوئی سیاسی روایت نہیں رکھتی۔ چنانچہ بدترین سیاسی ہنگامہ خیزی اور اُتھل پتھل کے اس دور میں بھی پیپلزپارٹی مخالفین کے خلاف گرجنے برسنے سے سیاسی کام چلا رہی ہے۔ اس ضمن میں سندھ کے وزراء اب اس حد تک گفتگو کرنے لگے ہیں کہ وہ وفاقی وزراء کا داخلہ سندھ میں بند کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے اپنا ’’سندھ مشن‘‘ تاحال بند نہیں کیا۔ ایک روز بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری سندھ میں تشریف لارہے ہیں۔ اس سے قبل وہ اپناد ورۂ سندھ منسوخ کرچکے تھے۔ مگر فواد چودھری کا تازہ ورود دراصل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 25؍جنوری کے دورۂ سندھ کی مخصوص ’’تیاری‘‘ کے پیشِ نظر ہے۔ یہ ایک نئی سیاسی ہلچل پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن سرگرمی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کو گرم بیانات سے زیادہ نرم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بلاول بھٹو نے سندھ کابینہ کا غیر رسمی جائزہ اجلاس بلانے میں نہایت تاخیر کردی۔ یہ پوری کابینہ اُن کی مرضی سے تشکیل دی گئی تھی۔ مکیش کمار چاؤلہ اور امتیاز شیخ یہ دو نام ہی ایسے تھے جو صوبائی کابینہ میں جناب آصف علی زرداری کی سفارش پر شامل کیے جاسکے تھے۔ آصف علی زرداری نے صوبائی حکومت کی تشکیل میں وزیراعلیٰ سندھ سمیت کسی بھی معاملے میں زیادہ عمل دخل نہیں دیا تھا۔ تب باپ بیٹے میں اختلاف کی خبریں بھی اندرونی حلقوں میں گردش کرتی رہیں۔ اگرآصف علی زرداری صوبائی حکومت کی تشکیل میں حصہ لے سکتے تو وزیر اعلیٰ سندھ کے طور پر اُن کا انتخاب ہرگز ہرگز مراد علی شاہ نہ ہوتے۔مگر صوبائی کابینہ کے غیر رسمی اجلاس میں بلاول بھٹو اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ وہ ایک ایسے سیاسی طوفان میں یہ اجلاس برپا کررہے تھے جب وزراء تک کی سیاسی وفاداریاں مشکوک کی جاچکی ہیں۔ یہ بات بالائے فہم ہے کہ اُنہیں سب سے زیادہ غصہ محکمہ ٹرانسپورٹ پر کیوں آیا؟ اُنہوں نے خاص طور پر یہ کہنا کیوں ضروری سمجھا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ گزشتہ دس برسوں میں کوئی کارکردگی نہ دکھا سکا۔ کیا اس طرح وہ پچھلے دور میں وزیرٹرانسپورٹ رہنے والے ناصر حسین شاہ کو ہدف بنا رہے تھے جن کی وفاداری پر گزشتہ دنوں سب سے زیادہ شک کیا گیا۔ تب بھی ناصر شاہ کو چیئرمین بلاول بھٹو نے ایک خصوصی اجلاس میں بلا کر سخت سرزنش کی تھی۔بلاول بھٹو اس طرح اپنا کنٹرول اپنے ہاتھوں کمزور کرتے جائیں گے۔ ایک بار پھر یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ذوالفقار بھٹو یا بے نظیر بھٹو نہیں، جناب زرداری کی پیپلزپارٹی کی قیادت کررہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر