وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا بدل رہی ہے مگر پی پی نہیں!

پیر 31 دسمبر 2018 دنیا بدل رہی ہے مگر پی پی نہیں!

گردش لیل ونہار میں پاکستان کے زمین وآسمان بدل رہے ہیں۔ عمران خان اگر ناکام بھی ہوئے تو بھی ہر آن تغیر پزیر حقائق نہیں بدل سکیں گے۔گردوپیش کا پرانا پن لوٹ نہ سکے گا۔ عوامی ذہن کا اجتماعی سانچہ پُرانی ساخت سے اوبھ گیا ہے ۔ رہنماؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس تبدیلی سے آگاہ نہیں۔عوامی ذہن کی تبدیل ہوتی ساخت میں ردِ عمل کی نفسیات موجود ہے۔ اِس میں رعب قبول کرنے کی پرانی عادت سے ایک بغاوت ہے۔ مگرسیاست دان پُرانی عادتوں کے اسیر ہیں۔
شریف خاندان تیزی سے اپنے انجام سے بغلگیر ہورہا ہے۔ مگرجناب زرداری کے کیا کہنے!جب بولتے ہیں تو انسانی دانش کی کامل تاریخ کا مزاق اڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔ گڑھی خدابخش میں اُن کی بھی قبر بنے گی۔ ہمیں جتنا ماروگے اُتنا ہی آگے بڑھیں گے۔ پھر وہ دوسروں کی عقل کا ماتم کرتے ہیں اور بیماری سے دبی آواز کو ذرا اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے کارنامے گنواتے ہیں۔ کیا واقعی انہیں اپنے باقی رہنے کا اتنا ہی یقین ہے؟ابھی خورشید شاہ بولے ہیں ،جو خود بھی احتساب میں اپنی باری کے خدشے سے دوچار ہیں،’’بلاول بھٹو کو کوئی گرفتار نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر ایک خدشے نے گویا اُنہیں گھیر لیا تو کہا ’’ موجودہ حکومت سے کوئی بعید بھی نہیں‘‘۔ مگر اپنے کرّوفر کا کیا کریں ، تو پھر کہنا پڑا کہ ’’بلاول کی گرفتاری ایک خطرناک کھیل ہو گا، جس سے ملک افراتفری کا شکار ہوگا‘‘۔ کیا واقعی یہ نہیں جانتے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اب طرزِ کہن پر اڑے رہنے کی گنجائش کہاں باقی رہ گئی۔ ابھی انقلابِ فرانس کی دہلیز پر گونجنے والے ’’ترانۂ رخصت‘‘ کے گُنگنانے کا وقت نہیں آیا:
اے دشمنانِ فرانس ! خوف سے تمہارے کانپنے کی گھڑی آن پہنچی
اے حکمرانو! جام خون و غرور کے مدہوشو!
جلدی سے اپنے اپنے کفن اوڑھ لو!!!!
انقلابِ فرانس کے ہنگام گونجنے ولا یہ ترانہ ابھی پاکستان کے گردوپیش کا لمحۂ مسعود نہیں بن سکا۔مگر ایسا بھی کیا ہے ! داغ دہلوی کو تویاد کیا جاسکتا ہے!!
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
افسانہ عاشقوں کا فقط یاد رہ گیا
پاکستان کی سیاست کے شب وروز بدل رہے ہیں۔تبدیلی کے محرکات کی زد میں تمام قوتیں آگئی ہیں جس سے راہِ فرار ممکن نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کل تک ٹیلی ویژن پراکھڑ لہجے میں ایک اکڑ سے کہہ رہے تھے کہ میں کسی فالودہ والے کے اکاؤنٹ میں پیسے رکھواؤں تو اس سے تمہیں کیا؟ اُن کے فرموداتِ عالیہ میں ایسے ایسے فقرے موجود ہیں جو رہتی دنیا تک کے لیے سامانِ عبرت فراہم کرسکتے ہیں۔ کبھی وہ ’’سوچ ‘‘ میں اپنے مثالی ہونے کا اظہار باربار کیا کرتے تھے۔ معاہدوں کے قرآن وحدیث نہ ہونے کا قولِ زریں بھی آئندہ نسلوں کی اخلاقی تربیت کے لیے اُن کے کنجِ لب سے پھوٹا تھا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اُنہوں نے نیب کے متعلق کہا تھا کہ اُن کی کیامجال ہے کہ وہ میرے متعلق تحقیقات کا ڈول ڈالیں۔ پھر اُنہوں نے جس حکومت کو دھمکی دی تھی وہ پہلے سے ہی ڈھ کر جیلوں میں جاپہنچی ہے۔ پاکستان کے سب سے طاقت ور ادارے کی’’ اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کا انکسار بھی اُن کی ہی ایک تقریر سے ظاہر ہوا تھا۔ پھر کمالِ بہادری سے وہ ملک چھوڑ گئے تھے تاکہ اُن کے غصے کی زد میں آکر ٹینکوں ، بندوقوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے پرخچے نہ اڑ جائیں۔ اب اُن کی اُسی زبان سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے متعلق نئے نئے پھول جھڑ رہے ہیں۔ چند دنوں کے مسلسل جلسوں میں اُن کا باطن آشکار ہوچکا ہے۔ اُن کے اسی ذہنِ رسا کا یہ کارنامہ ہے کہ اُنہوں نے خود اپنے بیٹے کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
بلاول بھٹو کی گڑھی خدابخش کی تقریردراصل اُن کا ایک خودکش حملہ تھا۔ جس سے اُن کے سیاسی مستقبل اور پیپلزپارٹی کے وجود کے ریزہ ریزہ ہوجانے کے خطرات اُبھرنے لگے ہیں۔ اس تقریر نے اُن کے متعلق معمولی حُسنِ ظن کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔ اُنہوں نے جس طرح پشتون ،بلوچ تعصب کی باگیں پکڑنے کی کوشش کی ، وفاق کے متعلق جس خطرے کو اُبھارا۔ اُس نے پیپلزپارٹی کے لیے’’ ڈوبتے کو تنکے کے سہارا ‘‘ کا تنکا بھی ڈبودیا ہے۔ بلاول بھٹو نے نوازشریف کی سزا کے بعد پنجاب میں لگنے والے نعروں کی بھی خاص طور پر نشاندہی کی۔ اس تقریر کا روئے سخن بھی وہی شخصیت تھی جن کے خلاف لگے نعرے بلاول بھٹو کا موضوع بنے۔ اس پورے تناظر میں بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’لیکن مجال ہے ملک کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو کوئی فکر اور احساس ہو، وہ تو طاقت کے نشے میں مست ہیں اور دیکھنے سے قاصر ہیں کہ ملک ہاتھ سے نکلا جارہا ہے‘‘۔ بلاول بھٹو کے اس خطابِ لاجواب و با ثواب سے دو باتیں بالکل واضح ہیں۔ اولاً:اُن کا مخاطب سیاسی نہیں تھا اور وہ اپنے والد کی’’ اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ والی تقریر کی’’ انکساری‘‘ میں مبتلا تھے۔ ثانیاً:اگر اُنہیں چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو جن خطرات کی وہ نشاندہی کررہے ہیں وہ سب میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہیں جہاں سیاست دان اس نوع کا کلام کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔
پاکستان کے شب وروز بدلنے کا احساس ان رہنماؤں کو ابھی تک نہیں ہوا۔اسمبلیوں کی اگلی بینچوں پر بیٹھنے والے اب کونوں کھدروں میں جاپہنچے ہیں۔ کل تک گونجنے والوں کی گھگیاں بندھی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر انتخابات سے پہلے جگمگانے والے اچانک غائب ہوگئے ہیں۔ اسمبلی کے درودیوار ابھی تک نئے آنے والوں سے مانوس تک نہیں ہوئے۔ چودھری نثار مہینوں بعد گزشتہ روز ٹیلی ویژن پر طلوع ہوئے تو ایسا لگتا تھا کہ عہد کہن کی عمیق تیرگیوں سے کوئی اجنبی سایہ اُبھر ا ہے۔ وقت ایسا ہی ظالم ہوتا ہے۔ مگر زرداری خاندان کو اس وقت کی راگنی سے کیا لینا دینا۔ اُن کے پاس پہلے سے ہی پکا راگ ’’بھٹو‘‘ کا موجود ہے۔ وقت اُن سے آگے نکلا جارہا ہے، مگر یہ وقت کو پیچھے دھکیلنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ اُن کے خیال میں بھٹو واقعی ابھی تک زندہ ہے اور وہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرانے سے بچا بھی لیں گے۔ وہی فارورڈ بلاک بھی نہیں بننے دیں گے۔ اور ہمیشہ ہمیشہ سندھ میں زرداری خاندان کو، کوس لمن الملک بجانے دیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ زرداریوں کا خیال سچا ہے یا وقت کی آواز میں صداقت ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر