وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلی اور پنجاب کے ادبی و ثقافتی ادارے

جمعه 21 دسمبر 2018 بلی اور پنجاب کے ادبی و ثقافتی ادارے

گزشتہ پورا ہفتہ لاہور میں گزرا یا یوں کہئے کہ اس تاریخی شہر کی نذر ہوگیا ۔ فن و ثقافت کے مرکز اور علم و ادب کے گہوارے اس شہر کے بارے میں اب کے بار بار یہ گُماں گزرا کہ یہ فکری یتیموں کا شیلٹر ہوم بن چُکا ہے۔ چھوٹے بڑے شاعر، ادیب اور دانشور کہلانے والے مختلف عہدوں اور اداروں کی سربراہی کے لیے مارے مارے اور للچائے للچائے پھر رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار او ر وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اداروں اور عہدوں کی فہرستیں سامنے رکھ کر قابل اور اہل افراد تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان کی یہ سعی و کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ماضی میں جو ان اداروں پر قابض رہے یا چمٹے ہوئے ہیں یا چمٹے رہنا چاہتے ہیں اُن میں سے اکثریت ان عہدوں کی اہل نہیں تھی جن پر وہ فائز تھے یا ہیں ۔سابقہ ادوار کے میرٹ کا حال جاننے کے لیے عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک مرتبہ منصور آفاق نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ عطاء الحق قاسمی نے مجھے خود بتایا تھا کہ شریف فیملی سے ان کا تعلق بہت پُرانا ہے۔ ان کی شادی کے موقع پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں ان کے شہ بالے تھے ‘‘۔
اگر ان سب کی اپنے اپنے عہدوں سے وابستگی غیر جانبدارانہ ہوتی تو شاید آج اس بڑے پیمانے پر چھان بین کی ضرورت نہ پڑتی ۔اس سارے کھیل میں لُطف کی بات یہ ہے کہ ماضی کے یہ تمام ’’ لڑکے بالے اور شہ بالے ‘‘سابقہ حکومتوں سے وفاداری اور قربت کی بدولت قومی خزانے سے مراعات اور تنخواہوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں ۔ یہ سب اب نئی حکومت کو بھی اُنہی شرائط پر دستیاب ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے عہدے سے داغِ مفارقت حاصل کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ سب اپنے ’’ اہم ‘‘ ہونے کے ’’ وہم ‘‘ میں اس بُری طرح مبتلا ہیں کہ ہر ایک کی گفتگو سے ایک علیحدہ کالم ترتیب پا سکتا ہے۔ لاہور کے شاعروں اور ادیبوں کے درمیان گھُمسان کے سے رن کی کیفیت دیکھ کر بڑے بھائی مظہر برلاس کو کہنا پڑا کہ ’’ اب یہاں آکر مایوسی ہونے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسے حکایت خونچکاں لکھنے والوں کی یہاں آخری لاٹ چل رہی ہے ۔‘‘
حالات واقعی کرب انگیز سہی مگر اُمید کا چراغ روشن ہے۔ سیاست کی طرح ادب کی اس بدحالی کا کریڈٹ بھی اُنہی شریف برادران کو جاتا ہے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے سایۂ عاطفت میں اپنا سیاسی بچپن اور عہدِ جوانی بسر کیا ۔ اس دور میں انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے منظورِ نظر اور اپنے خاندان کے وفادار افراد کو اس انداز میں سمویا کہ بیوروکریسی سمیت مختلف اداروں پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ انہوں نے انہی طاقتوں کے سامنے ایڑیا ں اُٹھا کر چلنا شروع کر دیا جنہوں نے اُنہیں اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا ۔ اب ایسی ہی ’’ گُستاخی ‘‘ وہ شاعر و ادیب بھی کرنے لگے ہیں جنہیں شریف خاندان سے وفاداری کے عوض برسوں نہیں عشروں تک مختلف سرکاری عہدے تفویض کیے رکھے گئے۔ گزشتہ دنوں بہت بڑے بڑ ے ناموں کی چھوٹی بلکہ بہت چھوٹی چھوٹی حرکتیں دیکھنے کو ملیں ۔ لاہور جا کر ہی معلوم ہوا کہ ماضی میں ایک ا سکول کی ٹیچر ( ایس ایس ) کو ایک ادبی ادارے میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تھا ۔ اب وہ اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر تعینات ہیں ۔ 25 جولائی سے قبل اُسے کہیں سے افواہ نما خبر موصو ل ہوئی کہ بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے فوراً بلاول بھٹو کے ساتھ اپنی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر وائر ل کردیں ۔ اب وہ فیاض الحسن چوہان کی نیاز مندی میں پناہ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں ۔ جو کوئی ان کے جانے کی بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی ایک ادارے میں اعلیٰ منصب پر ہیں ۔ کیا دو نہیں ایک پاکستان کا یہی مطلب ہے ۔
گلی ، محلوں ، سڑکوں اور بازاروں میں وہ افراتفری اور مایوسی دیکھنے سے بھی نظر نہیں آتی جو لاہور کے اخبارات کے دفاتر میں بیٹھے دانشور اور تجزیہ نگار اپنے جلتے ہوئے سگریٹوں کے دھویں کے ساتھ پھیلارہے ہیں ۔ اسی شہر کو ہمیشہ زندہ دلوں کا مسکن قرار دیا جاتا رہا لیکن اب یہ شہر زاغوں کے تصرف میں نظر آتا ہے ۔ لاہور واقعی ہر لحاظ سے لاہور ہے۔ یہاں قدم قدم پر سرشاری کے اظہاریے ہیں ۔ لیکن عہدوں کے پیچھے ہلکان ہونے والوں کی کہانیاں سُن کر ایسے لگتا ہے جیسے قدم قدم پر الم کدے ہوں ۔
لاہور ی شاعروں اور ادیبوں کے معاملات میں اُلجھا ہوا تھا کہ اچانک چینیوٹ سے ایک خبر آگئی ۔ اس خبری واقعہ کا کالم سے کوئی تعلق تو نہیں لیکن پھر بھی نقل کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اہل دل اور صاحب فکر احباب کے لیے شاید کوئی نکتۂ بینش نکل آئے ۔پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں پولیس کے مطابق چوری کی انوکھی واردات پیش آئی ہے جس میں ایک بلے کی چوری کے مقدمے میں دو نامعلوم افراد اور ایک نامعلوم بلی کو نامزد کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق امیر عمر چمن نامی شخص نے تھانہ سٹی چنیوٹ پولیس کو تحریری درخواست دی کہ ’نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں بلی بھیج کر بیش قیمت رشین بلے کو ورغلا کر چوری کر لیا ہے۔اس واردات کی مزید تفصیل ایف آئی آر میں کچھ یوں درج کی گئی ہے کہ ’ ’بلے کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے ملزمان نے بلی گھر کے اندر بھیجی۔ کچھ دیر کے بعد بلی کے پیچھے پیچھے بلا گھر سے باہر آیا تو ملزمان اسے موٹر سائیکل پر اٹھا کر بھاگ گئے‘‘سکیٹو نامی بلے کے مالک امیر عمر چمن نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ یہ رشین نسل کا بلا ہے جو انھوں نے آٹھ ماہ قبل لاہور سے 70 ہزار روپے کا خریدا تھا، اس وقت اس کی عمر صرف پانچ دن تھی۔دوسری جانب چنیوٹ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان اور بلی کی تلاش شروع کر دی ہے۔پولیس نے بلے کی چوری کی ایف آئی آر درج کر لی ہے جس میں دو نامعلوم افراد اور ایک نامعلوم بلی کو نامزد کیا گیا ہے۔پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی مقدمے میں بلی کو ملزم نامزد کرنے کا یہ انوکھا واقعہ ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ملزمان اور بلے کو ڈھونڈ لیں گے۔
بلے کے مالک امیر عمر چمن سے جب ایف آئی آر میں نامعلوم بلی کو ملزم نامزد کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اصل ملزم وہ نامعلوم بلی ہی ہے جس کی مدد سے بلے کو گھر سے باہر کی راہ دکھائی گئی اور ملزم اس کو چوری کرنے میں کامیاب ہو سکے۔‘‘بلی کے مالک کے مطابق بلے کے چوری ہونے کے بعد گھر میں بچوں نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے جبکہ بچوں نے دو دن سے کھانا بھی نہیں کھایا۔‘‘’وہ ہمارے گھر میں ہی پلا بڑھا ہے اس لیے اس کے ساتھ سب کوبہت لگاؤ تھا۔‘‘
خبر اور مالک کی گُفتگو کے آخری حصہ کو پڑھنے کے بعد بھی ہمیں لمحہ بھر کے لیے یہ گُمان نہیں گُزرا کہ ادبی اور ثقافتی اداروں سے علیحدگی کا سوچ کر ان سب کا حال بھی اُن اہل خانہ جیسا ہے جو بلے کی جُدائی میں بے حال ہیں ۔ ایسے واقعات ہمارے ہاں ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں پچھلے سال پنجاب کے علاقے ضلع بھکر کی تحصیل صدر مقام کلورکوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر نے بچے کو کاٹنے کے جُرم میں ایک پالتو کُتے کو موت کی سزا سُنادی تھی ۔گزشتہ سال نومبر میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدر میں پولیس نے سڑک پر ہونے والے حادثے کے بعد ایک گدھے کو گرفتار کر کے رپورٹ درج کی تھی۔ اس واقعے میں ایک گدھا گاڑی اور رکشے کی ٹکر کے بعد گدھا گاڑی کا مالک فرار ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس نے گدھے کو گاڑی سمیت تحویل میں لیا تھا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر