وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’صوبہ نیلاب ‘‘

منگل 27 نومبر 2018 ’’صوبہ نیلاب ‘‘

موجودہ حکومت کے سو دن کی کارکردگی بتا رہی ہے کہ وزیر اعظم اپنے نصب العین کی تکمیل میں سنجیدہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں نا تجربہ کار ارباب اختیار کے ساتھ کامیابی سے حکومتی اُمور سر انجام دیے ہیں ۔۔ بلاشُبہ ٹیم کا کپتان حوصلے اور عزم کے ساتھ سب کو کامیابی سے چلا رہا ہے۔ الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدے پورے کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انتہائی عرق ریزی اور ذمہ داری کے ساتھ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے معاملات کو بھی آخری شکل دینے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے تمام حلیف اپنے اس وعدے کے ایفاء کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ادراک کر لیا ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل زیادہ سے زیادہ انتظامی یونٹوں کی تشکیل میں ہے۔
اس سلسلہ میں ماضی میں بھی وقتا فوقتا آوازیں اُٹھتی رہی ہیں۔ کچھ سال پیشتر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نئے صوبوں کے قیام کے معاملے پر کشیدگی کئی ہفتوں جاری رہی تھی جس کی وجہ سے نئے صوبوں کے قیام کے موضوع پر ایک مرتبہ پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ 25 جولائی سے پہلے بھی اس بارے میں بہت سے مطالبات سامنے آئے ۔ مُلک کے صاحب الرائے افراد کی اکثریت نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام کووفاقِ پاکستان کی سلامتی، استحکام اور ترقی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔ سندھ کی تقسیم کے معاملے پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجود تنازع میں شدت کے خوف سے اس حقیقت سے انکار کرنا دانشمندی نہیں ہو گی کہ نئے انتظامی یونٹوں یا صوبوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے نئے صوبے کے قیام کے مطالبے کا پس منظر کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس وقت ملک میں صوبہ ہزارہ، سرائیکی صوبہ اور صوبہ بہاولپور یا جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبات ایک حقیقت کی صورت میں موجود ہیں۔صوبہ ہزارہ کے لوگ اپنے مطالبے کے حق میں کئی قیمتی جانوں کی قربانی بھی دے چُکے ہیں۔ کچھ روز قبل ہی اس تحریک کے بانی ’’ بابا حیدر زمان ‘‘ کا انتقال ہوا ہے۔ ’’ صوبہ ہزارہ ‘‘ کی تحریک کے لیے اُن کی کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ علامہ طاہر القادری بھی ماضی میں ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ اور منشور پیش کر چُکے ہیں۔ اس تجویز کو ملک کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں نے ہمیشہ پزیرائی سے نوازا ہے۔ پوٹھو ہار ، سرائیکی صوبے اور صوبہ بہاولپور کی تحریکیں تو تین عشروں سے زائد عرصہ سے جاری ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں جب پانچ سال پورے کیے تو اقتدار کی حالتِ نزع میں جنوبی پنجاب بہاولپور صوبے کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اُس وقت کے صدارتی ترجمان سینیٹر فرحت اللہ خان بابر کی سربراہی میں قائم صوبوں کے قیام سے متعلق پارلیمانی کمیشن کے اس اعلان نے پنجاب کے جنوبی اضلاع میں بے چینی کی ایک لہر دوڑا دی تھی۔ کمیشن کے سربراہ سینیٹر فرحت اللہ بابر اپنی شخصیت کی تمام تر سحر انگزیزیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کے خول سے باہر نہ نکل پائے تھے۔کمیشن کی جانب سے پیپلز پارٹی کے سیاسی مفاد کی خاطر کیے گئے اس اعلان کے مطابق پنجاب کا شمال مغربی دور دراز علاقہ میانوالی بھی مجوزہ صوبے میں شامل کر دیا گیا تھا۔ جغرافیائی، علاقائی، ثقافتی حوالوں سمیت کسی بھی طریقے سے میانوالی اُس مجوزہ صوبے کا حصہ نہیں بنتا تھا۔ میانوالی کے لوگوں کو موجودہ صوبائی دارالحکومت لاہور جانے کے لیے بھی پانچ گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ اگرانہیں اُس وقت کے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے میں شامل کر دیا جاتا تو انہیں صوبائی دارلحکومت جانے کے لیے دس گھنٹے سے زائد وقت درکار ہوتا۔ معاملے کو متنازع بنانے اور اُلجھانے کے لیے اُس وقت مسلم لیگ ن کی جانب سے ”صوبہ تھل ” کے قیام کی قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔”تھل صوبے ” کی قرارداد کے پیچھے کوئی وژن یا تحریک موجود نہیں تھی اس لیے یہ ”غنچہ بن کھِلے مرجھا گیا ” اور معاملہ پنجاب اسمبلی کی فائلوں میں گُم ہو گیا۔
جنوبی پنجاب بہاولپور صوبے کے اعلان کے بعد ضلع میانوالی کے لوگوں نے دونوں بڑی جماعتوں کے طرزِ عمل پر شدید احتجاج اور ردِ عمل کا اظہارکیا تھا۔ مزاحمتی تحریک کے دوران ہی میانوالی کے لوگوں نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیا تھا۔ شاید یہ اُسی سوچ کا نتیجہ کے نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کے حوالے سے میانوالی کے عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ میانوالی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے سنگم پر آباد ایک دور اُفتاد علاقہ ہے، اپنی جغرافیائی حیثیت کے اعتبار سے یہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے انُ کئی اضلاع جیسا ہے جنہیں جس صوبے میں بھی شامل کر دیا جائے تو وہ ”ٹیل ” پر ہی رہیں گے۔ ان دنوں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں نئے انتظامی یونٹ یا صوبہ ” نیلاب ” کے قیام کے لیے تحریک کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔میانوالی میں یہ احساس بھی بڑے پیمانے پر جاگزیں ہوا ہے وہ کبھی سرائیکی کلچر یا خطہ کا حصہ نہیں رہے ہیں ۔ بلکہ ایسی ہی ایک تحریک ضلع بھکر میں بھی موجود ہے جو اپنے آپ کو سرائیکی کہلانے کے بجائے ’’ تھلوچی ‘‘ کہلانا فخر قرار دیتے ہیں اور اپنی اس شناخت کو کسی بھی قیمت پر چھیننے نہ دینے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ماضی میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ملتان میں اپنے ایک جلسے میں نئے صوبوں کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ ”ملتان اور میانوالی کے لوگ لاہور کیوں جائیں ”۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اور پنجاب کے شمال مغربی اضلاع پر مشتمل نئے صوبے ” نیلاب ” کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے انتہائی جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک(Tank)، کرک، لکی مروت اور پنجاب کے اضلاع میانوالی، بھکر، خوشاب اپنے اپنے صوبوں کے انتہائی آخری اضلاع ہیں۔یہ علاقے اپنے اپنے صوبوں کی باؤنڈری پر واقع ہونے کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے محروم ہیں اور ان علاقوں کے عوام پسماندگی اور درماندگی کا شکار ہیں۔ اس وقت جن نئے صوبوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے ان میں شمولیت کے بعد بھی ان اضلاع یا علاقوں کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جبکہ انہیں ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لیے ان پر مشتمل ایک نئے صوبے” صوبہ نیلاب ” کے قیام کی انتہائی ضرورت ہے۔ اس نئے انتظامی یونٹ کا صدر مقام ڈیرہ اسماعیل خان ہوناچاہئے۔ ان علاقوں میں ” صوبہ نیلاب ” کے قیام کی تجویز کو بڑے پیمانے پر پزیرائی ملنے لگی ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے قائد اعظم کی فکر او ر وژن کو بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ قومیتی اور لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کا قیام قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کر سکتا ہے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام اور وفاق کی اکائیوں کی تقسیم میں کوئی حرج نہیں۔نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کے قیام سے نہ صرف لسانی اور قومیتی عصبیتوں کے بُت پاش پاش ہوں گے بلکہ ان علاقوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز بھی ہوگا۔دنیا کے کسی بھی ملک میں خاص کر وفاقی نظام رکھنے والے کسی ملک میں اتنی کم تعداد میں صوبے نہیں ہیں جتنے کہ ہمارے ہاں ہیں۔ صوبوں کی جغرافیائی حدود کی طوالت اور آبادی کے بوجھ کی وجہ سے ترقیاتی عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بعض علاقوں میں احساسِ محرومی بھی پروان چڑھ رہا ہے جو ہماری قومی یکجہتی، ملی وحدت اور وفاق کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن وہاں ترقیاتی عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ غیر ملکی مداخلت نے بلوچستان میں مختلف نوعیت کی شورشوں کو بھی پروان چڑھایا ہے۔
میانوالی، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کرک، لکی مروت، بھکر اور خوشاب کے علاقوں پر مشتمل نئے مجوزہ انتظامی یونٹ کے مطالبے پر صاحب الرائے حضرات کو کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہئے اور اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو منظرِ عام پر لانا چاہئے تاکہ اس مطالبے میں شدت آنے سے پہلے سب کچھ واضح ہو جائے۔ جنوبی پنجاب خصوصاً سرائیکی علاقوں میں احساسِ محرومی اور پسماندگی نے نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملات کو حساس بنانے کے ساتھ ساتھ وقت اور حالات کے تقاضوں میں بھی شامل کر دیا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر