وجود

... loading ...

وجود
وجود

داغ اور یوٹرن اچھے ہوتے ہیں!!

پیر 19 نومبر 2018 داغ اور یوٹرن اچھے ہوتے ہیں!!

یوٹرن’’ اچھے‘‘ ہوتے ہیں جیسے صابن فروشوں کے لیے داغ، جیسے اداکاراؤں کے لیے اسکینڈلز۔ جیسے سنی لیون کے لیے۔ ۔۔۔ ارے چھوڑیے!!! یہ بھی کوئی بحث ہے۔عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بڑے بہت ہوگئے ہیں۔اُن کے موضوعات کی فہرست دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کانٹ ، ہابس اور ہیگل کو ہی زیبا ہے کہ وہ اُن پر بات کریں۔ آپ بھی اُن موضوعات کی فہرست پر نگاہ ڈالیں جو عمران خان کی گفتار کا ہدف رہے ، تویقین کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ مدینہ کی ریاست ،روحانی دنیا، علامہ اقبال کا شاہین اور اب یہ یوٹرن والا تازہ موقف !!!!
امریکی ریاست سینٹ لوئس کی لمبی شاہراؤں سے گزرتے ہوئے سامنے کچھ بورڈ آویزاں ملتے ہیں، جس پر لکھا ہوتا ہے :
Remember, if you’ re headed in the wrong direction, God allows U-turns
(یاد رکھیں! اگر آپ غلط سمت میں آگئے ہیں تو خدا یوٹرن کی اجازت دیتا ہے)
الیزن گاپا بوٹکا (Allison Gappa Bottke) کا یہ مشہور فقرہ دراصل اُس کی مختصر کہانیوں کی ایک کتاب کا نام بھی ہے۔ مسکراہٹ ضبط کیجیے !یہ کتاب دراصل ایک عورت کے سفرِ حیات کے محور میں مختلف کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس تناظر میں یوٹرن کا ایک اپنا لطف ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کی ناں اور ہاں میں فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اردو شاعری کے بھی کیا کہنے!
اُٹھتے اُٹھتے ہی اُٹھیں گے یہ حجاباتِ حجاب
آتے آتے ہی آئے گی یہ نہیں ہاں کے قریب
یہ رہوارِ خیال کہاں بھٹکتا ہے، یوٹرن اچھی بات ہے۔ عمران خان کے ذہن میں یوٹرن کی تقدیس پر نہ جانے کیا تصور رہا ہوگا۔ مگر الیزن کی کہانیوں میں شاہراہ حیات پر غلط سمت دوڑانے والی جن گمراہوں کی نشاندہی کی گئی ہیں اُن میں بُرا انتخاب، منفی رویے اور تباہ کن فیصلے شامل ہیں۔ اگر زندگی کی سڑک پر دوڑتے ہوئے یہ عناصر کسی کوبھٹکا رہے ہو تو مصنف کے مطابق خدا اُسے یوٹرن کی اجازت دیتا ہے۔ عمران خان کے باب میں معاملہ مختلف ہے ۔ وہ وزیراعظم کے منصب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر چلے تھے۔ اور اس کے لیے اُنہوں نے بُرے انتخاب، منفی رویے اور تباہ کن فیصلے کیے۔اور اسے وہ کامیابی کے جائز یوٹرن کہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے نزدیک وہ لیڈر ہی نہیں جسے یوٹرن لینا نہ آتا ہو۔ عمران خان کی تسلی تھوڑے الفاظ میں عام طور پر نہیں ہوتی ، اس لیے وہ اس موضوع پر بھی کم بولنے پر راضی نہ ہوئے۔ اُنہوں نے مزید فرمایا کہ جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا ، اُس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔ ہٹلر اور نپولین یوٹرن نہ لینے سے شکست سے دوچار ہوئے۔ اپنے اس موقف پر اُن کے اور نوازشریف کے درمیان سمٹتے فاصلے دیکھ کر اُنہوں نے یہ بھی فوراً کہنا ضروری سمجھا کہ نوازشریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا، جھوٹ بولا۔
وزیر اعظم عمران خان کا یوٹرن تصور جتنی پست سطح سے آیا ہے، اس کی کوئی توجیہ چاہتے ہوئے بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کی حمایت میں لکھنے والوں کو نوازشریف کے دستر خوانی خوانی قبیلے کی نفسیات چاہئے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ یہ موقع عمران خان نے ہی دیا کہ خواجہ آصف کو پسند نہ کرنے والوں کوبھی اُن کا تبصرہ پسند آیا : عمران خان یوٹرن والے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے‘‘۔ مگر یہ اتنی بھی سادہ بات نہیں جو عمران خان نے کہی اور خواجہ آصف کے تبصرے میں جس کی تفہیم کی گئی۔نوازشریف اورآصف زرداری سمیت سب سیاسی رہنما کم وبیش اسی راستے کے مسافر ہیں ۔نوازشریف نے ابھی ابھی قطری خط اور اپنے بیٹے کے موقف سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہے یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب سے بھی استثنیٰ کے ذریعے اظہارِ لاتعلقی کردیا ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری معاہدوں پر اپنا بیان دے چکے ہیں کہ یہ قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔یہ میکاولی طرزِ فکر سے بھی خطرناک زاویہ ہے جس میں انسان کسی عقیدے، نظریے اوردائرے میں خود کو نہیں رکھتا۔ اس کی ہر بات سیاست کے لیے ہوتی ہے اور اس نوع کی سیاست میں مفادات مذہب اور یوٹرن عقیدہ بن جاتا ہے۔ عمران خان کے ہاں یہ بات زیادہ بھیانک اس لیے ہے کہ وہ بات ریاست مدینہ کی کرتے ہیں ۔ رہنما قائداعظم کو مانتے ہیں۔ مفکر علامہ اقبال کو قرار دیتے ہیں اور مثالیں ہٹلر اور نپولین کی دیتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست اُصول پر کھڑی تھی اور اس کے لیے جو راستا اختیار کیا گیا اُس میں کہیں کوئی یو ٹرن نہیں تھا۔ کسی بھی رہنما کے لیے منزل سے کہیں زیادہ راستے کا شعور معنی رکھتا ہے۔ اگر وہ راستے کو نہیں سمجھتا اور اُسے راستا باربار بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر یہ قیاس کبھی غلط قرار نہیں پاسکے گا کہ وہ منزل کے ادراک میں بھی کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ جو شخص راستے کی سمجھ نہیں رکھتا اُس کے بارے میںیہ یقین کرنے کی وجہ بھی نہیں ملے گی کہ اُسے منزل کی سمجھ ہے۔ عمران خان کے باب میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے ۔ایک طرف وہ مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ہی چین سے سیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایک ملغوبہ ذہن کے ساتھ اقتدار کی بے پناہ محبت کے شکار شخص کی طرح بروئے کار ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے یوٹرن تصور میں مثالیں بھی عجیب استعمال کی گئیں۔ انسانی نفسیات کے ماہر فرائڈ کے نزدیک انسان کی پھسلتی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور اس کی مثالیں اس کے اندرون کو باہر کرتی ہیں۔ درحقیقت آدمی کی مثالیں اُس کی جبلت سے آتی ہے۔ ہٹلر کی مثال عمران خان کے مزاج کا سنجیدگی سے مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ اُنہیں ہٹلر کے یوٹرن نہ لینے سے ہونے والی ناکامی کا خیال آتا ہے جبکہ طبعاً نیک آد می ایسے افراد کی ناکامیوں کو ہی پسند کرتا ہے۔پھر نپولین کا تو واٹر لو اس کے تو یوٹرن کا نتیجہ تھا۔ افسوس یہ ہے کہ عمران خان گاہے روحانی دنیا کی بات کرتے ہیں مگر اُن کی سیاست اور اُس کا پورا بیانیہ کہیں سے بھی ’’اخلاقی‘‘دکھائی نہیں دیتا۔ وہ سیاست میں بدترین طور پرمیکیاولین سے بھی زیادہ گھناؤنے تیور ظاہر کرتے ہیں۔ مگر اکثر مدینہ کی ریاست، قائد اعظم، علامہ اقبالؒ ، روحانیت، مولانا رومی اور نہ جانے کون کون سے موضوعات پر اپنا ہنر آزماتے رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر وہ ان موضوعات کے درمیان رہ کر یوٹرن کو ایک تصور کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ جبکہ متوازی طور پر وہ باقی رہنماؤں کے کم وبیش ایسے ہی طرزِ عمل پر گرج برس بھی رہے ہیں۔ وہ اپنے جھوٹ کو یوٹرن جیسا اور دوسروں کے یوٹرن کو جھوٹ جیسا باور کرانے میں لگے ہیں۔ ایسے عالم میں عمران خان پر انحصار کرنے والے بہت جلد مایوسی کی دلدل میں ہوں گے۔ پھر یوٹرن کو سیاسی بائبل بنانے والے اس شخص کے تیور اُن کے حوالے سے کیا ہوں گے؟ اس پر ابھی بات نہیں کی جاسکتی۔ مگر کسی بھی ابہام کے بغیر عمران خان کا رویہ کندھا دینے، کندھا لینے اور کندھا جھٹکنے والا ہے۔ ایسے شخص کا دوست دشمن جیسا اور دشمن دوست جیسا ہوسکتا ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف عامر لیاقت اورفواد چودھری ایسے گالی گفتار کرنے والوں کو کیوں کر قبول کر لیا تھا؟اب یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ عمران خان کے لیے اپنے قریب ترین لوگ بھی غیر متعلق اور غیر اہم کیوں بن جاتے ہیں۔مگر کیا ایسا شخص جو منزل تک پہنچنے کے لیے ایسے ایسے یوٹرن کو قبول کرنے والی ذہنیت رکھتا ہو، منزل تک پہنچ بھی سکتا ہے یا پھر یوٹرن پر یوٹرن لے کر راستوں کی گھمن گھیریوں اور پیچ داریوں میں اُلجھ جاتا ہے۔ چرچل نے اپنی کتاب ’’عظیم ہم عصر‘‘(Great Contemporaries)میں لکھا ہے کہ
’’جگمگاتے ہوئے لمحات میں ہی کوئی تیز ترین انسان دھندلا دیا جاتا ہے‘‘۔
عمران خان نے اپنے انجام کا آغاز خود کردیا ۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اُن کے یوٹرن اُنہیں کہاں پہنچاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر