وجود

... loading ...

وجود
وجود

جام کمال۔۔۔۔ نئی جماعت ‘‘باپ’‘ کے صدر

هفته 26 مئی 2018 جام کمال۔۔۔۔ نئی جماعت ‘‘باپ’‘ کے صدر

بلوچستان  کے اندر ابن الوقت سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں، جن کی نظریں خالصتاً اقتدار اور مفادات پر جمی رہتی ہیں۔ بدعہدی، دغا اور چال بازیوں کو سیاست، جمہوری اصول اور روایات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ مقتدر حلقوں کے اشاروں پر اپنا قبلہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان موقع پرستوں کی نئی جماعت میں جمع ہوگئی ہے، یعنی بلوچستان میں سیاست کے نام پر مستقبل کی پیش بندی ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کے نام سے ہوئی ہے۔ اس میں کئی ایسے نام ہیں جو منتخب ہوتے آرہے ہیں، اس لیے آئندہ ہونے والے انتخابات میں اس جماعت سے وابستہ افراد کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ مقتدرہ کی اس جماعت کی داغ بیل 29 مارچ کو ڈالی گئی اور اس میں اکثریت نوازشریف کو چھوڑنے والوں کی ہے، اور سب نے حکومت کے آخری مہینوں میں وفاق کی زیادتیوں کا رونا روکر عوام کو بے وقوف بنانا شروع کردیا، یا مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کے لیے بلوچستان کی محرومیوں اور وفاق کی عدم دلچسپی و تعاون کو جواز کے طور پر پیش کیا۔بلوچستان عوامی پارٹی کی مرکزی کونسل کا اجلاس 15مئی کو بوائے اسکائوٹس کے سبزہ زار پر منعقد ہوا جس میں جام کمال صدر اور منظور کاکڑ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ جام کمال جن کے پاس وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کا قلمدان تھا، ان کے ساتھ دوستین ڈومکی (جو وزیرمملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھے)، اور رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے 5 اپریل2018ء کو اسلام آباد پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد10 مئی کو یہ تین حضرات اور اقلیتی رکن قومی اسمبلی خلیل جارج بھٹو کوئٹہ پریس کلب میں سعید احمد ہاشمی کی قیادت میں پریس کانفرنس کے ذریعے بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ خلیل جارج بھٹو کو مسلم لیگ (ن) نے سڑک سے اٹھا کر قومی اسمبلی کا رکن بنایا۔ سعید احمد ہاشمی بزنس مین ہیں۔ پتا نہیں کیوں اِس شخصیت کو سیاست کا ماہر کہا جاتا ہے! اور اب تو وہ خود کو بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ اس کی اہلیہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی مشیر خزانہ ہیں جنہیں بلوچستان اسمبلی کے اندر بعض ارکان کے نامناسب رویّے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے مشیر خزانہ کے عہدے سے احتجاجاً گورنر اور وزیراعلیٰ کو تحریری استعفیٰ پیش کردیا۔ اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث جاری تھی مگر مشیر خزانہ استعفے کے بعد اجلاسوں میں شریک نہ ہوئیں۔ چناں چہ وزیراعلیٰ کو ایوان میں مطالباتِ زر پیش کرنا پڑے۔

بہرحال اس پارٹی کی تشکیل میں یہ سب جٹ گئے تھے۔ جام کمال کے ساتھ شامل ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ساڑھے چار سال کا عرصہ بہت مشکل میں گزارا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ کے حوالے سے مشورہ کیا اور نہ ہی ان کے حلقوں میں پیسہ خرچ ہوسکا ہے، اور یہ کہ بڑی پارٹیوں نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو اب سہانا مستقبل بلوچستان عوامی پارٹی میں دکھائی دینے لگا ہے، اور جام کمال صوبائی نشست پر بھی الیکشن لڑیں گے۔ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ جام کمال لسبیلہ کے ضلع ناظم بھی رہے ہیں۔ ان کے والد جام یوسف مرحوم2002ء میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے، ان کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا۔ ان کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا لیکن جام یوسف نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب نہ چھوڑا، حالانکہ اس واقعے کے بعد اکتوبر 2016ء میں قلات میں گرینڈ بلوچ جرگہ بھی منعقد ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی کی ایک وجہ ختمِ نبوت کے قانون میں مبینہ تبدیلی کی کوشش بھی ہے۔ جام کمال باریش شخص ہیں، تعلق تبلیغی جماعت سے بھی رہا ہے۔ ان کے والد جام یوسف ویڈیو گیمز کھیلنے اور مو سیقی کے شوقین تھے۔ خود بھی تفریح طبع کے لیے گا لیتے تھے۔ جام کمال کے دادا جام میر غلام قادر بلوچستان کی پہلی اسمبلی یعنی1970ء کی اسمبلی میں 1973ء سے1976ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ اس سے پہلے سردار عطاء اللہ خان مینگل وزیراعلیٰ تھے جن کی حکومت ختم کردی گئی تھی۔ اس طرح جام غلام قادر وزیراعلیٰ بن گئے۔ جام غلام قادر اس کے بعد اسپیکر بنے۔ چنانچہ 1977ء کے انتخابات کے بعد جام غلام قادر پھر بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان کی تیسری اسمبلی وجود میں آئی تو جام غلام قادر 1985ء سے1988ء تک ایک مرتبہ پھر صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر جام یوسف متمکن ہوئے اور پانچ سال تک حکومت کی۔مگسی خاندان بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے قریب ہوگیا ہے۔ خالد مگسی نے تو باقاعدہ شمولیت اختیارکرلی۔ البتہ نواب ذوالفقار علی مگسی کی نگاہ حالات کے رخ پر لگی ہے۔ نواب ذوالفقار علی مگسی وزارتِ اعلیٰ کے لیے موزوں شخصیت ہیں مگر وہ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بننا پسند نہیں کریں گے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کا اگر وزیراعلیٰ بنتا ہے تو وہ جی حضوری کرنے والا شخص ہی ہوگا۔ اس گروہ کے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ یکساں مراسم قائم ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے بلوچستان کی محرومیوں کا سلوگن بلند کیا ہے۔ یہ غیر فطری جماعت اپنے قیام کے ساتھ ہی گروہ بندیوں کا شکار ہوئی ہے۔ آنے والے عام انتخابات کے بعد ان کے درمیان رسّاکشی دیدنی ہوگی۔ دیکھا جائے تو یہ بدقسمتی ہی ہے کہ اس صوبے پر بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت مسلط کرنے کی تدبیریں ہورہی ہیں۔ اس سے بڑھ کر بلوچستان سے زیادتی اور کیا ہوسکتی ہے!


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر