وجود

... loading ...

وجود
وجود

بٹ کوائن کی بنیاد ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کیا ہے؟

جمعه 20 اپریل 2018 بٹ کوائن کی بنیاد ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کیا ہے؟

آج کل بٹ کوائن کا بہت چرچا ہے اور اس کے بارے میں تقریباً روزانہ خبریں آرہی ہیں۔ کہیں اس پر فتوے لگ رہے ہیں تو کہیں اس حوالے سے قانونی بحث جاری ہے لیکن یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ بٹ کوائن اور اس جیسی متعدد کرپٹوکرنسیز کو وجود بخشنے والی بنیادی ٹیکنالوجی ’’بلاک چین‘‘ پر کہیں کوئی بات نہیں ہورہی۔ اس کے برعکس، سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ سنجیدگی سے بلاک چین پر مہارت حاصل کرلیں گے تو یہ ٹیکنالوجی آنے والے وقت میں آپ کیلیے بہترین کیریئر کی ضمانت تک بن سکتی ہے۔ یہ بلاگ میں نے خاص طور پر ایسے ہی لوگوں کیلیے تحریر کیا ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔اِنسان پیدائش سے لے کر موت تک اَور شاید موت کے بعد بھی، ریکارڈ کے طور پر، ایک رجسٹر (کھاتے) سے دوسرے رجسٹر میں سفر کرتا رہتا ہے۔ اْس کی ذات اور اْس سے جڑی تمام ضروریات اور مسائل کسی نہ کسی کھاتے کے مرہونِ منّت ہوتے ہیں۔ اگر آپ اِنسان کو لا تعداد کھاتوں کی زنجیر کی ایک اکائی مان لیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ لاتعداد و لامحدود کھاتے جو ایک زنجیر میں پروکر ایک ساتھ جوڑدیئے گئے ہوں۔ ان میں درج ایک حقیقت، ایک اکائی اِنسان کہلاتی ہے اور اسے اپنے وجود کا ثبوت دینے کیلئے بھی اِن کھاتوں کے اندراج کی ضرورت ہوتی ہے۔

آپ یقین جانیے میں کوئی مذہبی یا فلسفیانہ بحث نہیں کر رہا، یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے مطابق ہم جیتے ہیں اور جو ہوبہو بلاک چین کا عملی نمونہ ہے۔

ہم پیدا ہوتے ہیں تو پیدائش کا برتھ سرٹیفیکیٹ بنتا ہے۔ ہسپتال سے یا ضلع ناظم کونسلر کے آفس سے ’’ب‘‘ فارم اور پھر نادرا سے حتمی ثبوت کے طورپر پکّا برتھ سرٹیفکیٹ یا فیملی سرٹیفکیٹ۔ یہ سرٹیفکیٹ اِس بات کی سند ہے کہ آپ ہیں۔ اِس کے بغیر قانونی طور پر آپ کا وجود ثابت نہیں۔

آپ نے حفاظتی ٹیکے لگوائے تو ایک اور رجسٹر میں اِندراج ہوگیا۔ گھر لیا، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوایا، ڈرائیونگ لائسنس، بینک اکاؤنٹ، اسلحہ لائسنس، شادی و نکاح، بچوں کی پیدائش، اسکول میں داخلہ، یونیورسٹی ڈگری حتیٰ کہ موت تک آپ کو کوئی نہ کوئی سرٹیفکیٹ ملتا ہی رہتا ہے جو کسی نہ کسی کھاتے میں اندراج کی گواہی ہوتا ہے۔ میں اس نظام کو غیر مرئی بلاک چین (Invisible block chain) سے تشبیہ دیتا ہوں… اور نامہ اعمال؟ وہ بھی تو ایک رجسٹر ہے جِس میں سب لِکھا جا رہا ہے۔

قیمتی اشیاء ، قدرتی ذخائر، مْلکی وسائل اور آبادی کا شمار ہمیشہ سے ہی اس بات کا متقاضی رہا ہے کہ اس کا درست اندراج ممکن بنایا جائے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1944 میں بریٹن وڈز کانفرنس ہوئی جس کے نتیجے میں انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ (IMF)، ورلڈ بینک اور بعد ازاں اقوام متحدہ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) جیسے اِداروں کا قیام عمل میں آیا کہ دنیا کے تمام تر وسائل کو ایک مرکزی نظام کے تحت کنٹرول کیا جاسکے، چلایا جاسکے اور چھوٹے بڑے سب ممالک اور اْن میں بسے سب لوگ، کیا مسکین اور کیا طاقتور، سب ہی اس مرکزی نظام کے تحت آجائیں اور اپنے تئیں جتنی آزادی اور شخصی حیثیت کا ڈھنڈورا پیٹ لیں، بالآخر ان کی ساری توانائیاں اور وسائل اِسی مرکزی نظام سے ہوتے ہوئے ان معدودے چند لوگوں یا اداروں تک پہنچ جائیں جو پالیسی سازی کے نام پر آزاد لوگوں کو غلام اِبن غلام بنانے کا عزم لیے پھرتے ہیں۔

آپ آس پاس میں نظر دوڑائیے اور غور کیجیے تو آپ کو اپنی زندگی کچھ مرکزی کھاتوں میں جڑی نظر آئے گی۔ بینک، گھرکے کاغذات (پٹواری)، اسپتال، شناختی کارڈ، شادی دفتر وغیرہ۔چلیے مان لیاکہ ہم ہر وقت کسی نہ کسی مرکزی کھاتے یا نظام میں بندھے ہوئے ہیں تو اِس میں آخر ہوا کیا ہے؟ کیوں ہمیں ایک متبادل نظام کی ضرورت ہے؟ ہم کیوں کھوج کریں ایک نئے نظام کی جب کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے؟

مرکزی نظام پر اعتماد (یا اندھے اعتماد) میں تین بڑی خرابیاں ہیں:

1۔ من مانی علیحدگی
یہ نظام یا اِس کے چلانے والے جب چاہیں، جیسے چاہیں، مسابقت یا سینسرشپ کے نام پر یا ملک کے وسیع تر مفاد میں، جِسے چاہیں سسٹم سے الگ کردیں؛ پاکستان کو ٹیررازم واچ لِسٹ میں ڈال کر پیسوں اور اشیاء کی آمدورفت پر پا بندیاں لگا دیں۔ کسی اور حیلے بہانے سے ایران، وینزویلا، فلسطین، شمالی کوریا اور ہر وہ ملک، ادارہ یا شخص جو آپ کے سامنے سرنِگوں نہیں ہورہا،اْسے خارِج کردیں یا اْس کی شمولیت ناممکن بنادیں۔ Pay-Pal پاکستان میں نہیں۔ دنیا میں ایک ارب سے زائد لوگوں کے پاس اپنی شخصی شناخت کی دستاویزات نہیں یعنی امیگریشن ہونے کی حکومتی اِمداد تک، نوکری سے لے کر طبی اِمداد تک وہ اپنا وجود تک ثابت نہیں کرسکتے۔

2۔ بے اِیمانی
لوگ آپ پر اعتماد (Trust) کریں مگر آپ ناانصافی، لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم رکھیں۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی کسی اِدارے میں رکھوائیں اور وہ اِدارہ اْسے امانت سمجھتے ہوئے جیسے چاہے برباد کردے۔ لوگ ملک کو ٹیکس دیں اورحکمران اِسے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں میں صرف کردیں۔

3۔ اِندراج میں گڑبڑ
(Loss of Records)
مرکزی اِدارے یا بینک کو کوئی شخص ہیک کرکے سارے کھاتے صفر کردے تو؟ غلطی سے کوئی بینک ملازم آپ کے اکاؤنٹ میں غلط اِندراج کردے یا کسی اور قدرتی یا اِنسانی حادثے میں ریکارڈ ضائع ہوجائے تو؟ جیسا کہ عموماً ملک عزیز میں فائلوں کو آگ لگ جاتی ہے، تو اِس صورت میں حق دار کے حق کی کیا ضمانت ہو؟

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اختیارت کا ناجائز اِستعمال اور جِس کی لاٹھی اْس کی بھینس کے مصداق اپنی من مانی سے نظام چلانا وہ وجوہ ہیں جن کی بناء پر بتدریج عدم اعتماد کی فضاء قائم ہوئی۔اگر پچھلی صدی کا بغور جائزہ لیں تو اِنسانوں میں سب سے زیادہ تنزلی اعتماد میں آئی ہے۔ لوگوں کا اعتماد یکسر اْٹھ گیا ہے خواہ وہ اِدارے ہوں، حکومت ہو، عدالت ہو، رشتے ناتے ہوں، مذہب ہو، لیڈر ہو یا کوئی اور ضامن۔ بحثیت مجموعی اِنسانوں کو کسی پر اعتماد نہ رہا۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو پچھلے پچاس سال سے زیرِبحث ہے کہ ہم آخر دو یا دو سے زائد فریقین میں اعتماد (Trust) کیسے قائم کریں؛ اور وہ بھی بغیر کسی مرکزی کردار کے؟

کیا ہم ایسا رجسٹر (کھاتا) بنا سکتے ہیں جِسے لکھ/ پڑھ سکیں تاکہ تمام اِندراجات شفافیت سے وجود میں آسکیں؟ کیا ہم پیسے کے کھاتے کو کسی حکومت، ادارے یا شخص کی دسترس سے باہر نکالنے کے قابل ہوسکیں گے؟ کوئی بھی ادارہ یا فرد کیونکر ایسے رجسٹر یا کھاتے کو اَپ ڈیٹ کرنے کی ذْمہ داری لے گا؟ کیسے ممکن ہے کہ ایسے اوپن کھاتے میں بْرے لوگوں کے فراڈ اور بے ایمانی کو روکا جاسکے اور پکڑا جاسکے؟ کیا اِس بات کی اِجازت ہو گی کہ اِس کھاتے میں تبدیلی کرسکیں؟

یہ اور اِن جیسے درجنوں سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں ریاضی، کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور نفسیات کے تحقیق کاروں نے کئی دہائیاں لگا دیں۔ بارش کے قطروں کی طرح، ہلکے ہلکے ٹکڑوں میں اِس نئے نظام کے مختلف حِصّے بنتے رہے یہاں تک کہ 2008 میں فرضی نام کے شخص ساتوشی ناکاموتو نے اِس مسئلے کا قابل عمل حل دنیا کے سامنے پیش کردیا جسے ہم ’’بلاک چین‘‘ (Block Chain) کہتے ہیں۔

بلاک چین کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟ اِسے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہے کیونکہ اِس کیلیے آپ کو اِس میں شامل تمام جزئیات کو سمجھنا ہوگا۔

پہلے ہم اِس نظام کی تعریف کرلیتے ہیں، پھر مثالوں سے بتدریج سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’بلاک چین ایک کھلا (Open)، منقسم (Distributed) رجسٹر (کھاتا) ہے جِسے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور جس میں ہر کوئی اِندراج کر سکتا ہے (مخصوص شرائط کے ساتھ) اور جِسے ریاضی کے پیچیدہ عمل کے ذریعے محفوظ بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی تصّور ہے۔

ریکارڈ رکھنے کیلیے انسان صدیوں سے کھاتے استعمال کرتا آیا ہے۔ کبھی یہ مٹی کی تختیوں کی شکل میں تھے، تو کبھی کاغذی دفتر کی شکل میں، آج کل یہ بائٹس کے مجموعے کی شکل میں کمپیوٹرز میں محفوظ ہوتے ہیں۔

بلاک چین (منقسم کھاتا) ایک ایسا ڈسٹری بیوٹر لیجر ہے جو ہونے والی ٹرانزیکشنز کا وقت کے حساب سے مکمل حساب رکھتا ہے۔ نیٹ ورک میں شامل ہر فرد کے پاس اِس کی مکمل کاپی ہوتی ہے۔ جب کوئی تبدیلی آتی ہے یا کوئی ٹرانزیکشن ہوتی ہے تو تمام لوگ اپنے اپنے کھاتوں کو اَپ ڈیٹ کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی جعلی ٹرانزیکشن کو ریکارڈ کروانے کی بات کرے گا تو باقی لوگ اْسے مسترد کر دیں گے کہ اْن کے پاس کاپی میں اس ٹرانزیکشن کا وجود نہیں ہوگا۔

آپ نے نکاح کے وقت بہت سے مہمان دیکھے ہوں گے، دراصل یہ سب ایک شعوری بلاک چین ہے جو اِس شادی کے گواہان ہیں۔ اگر کل کوئی شخص شادی کا دعویٰ کرے گا تو سب اْس کی مخالفت کریں گے کہ اِس خاتون کی تو پہلے ہی شادی ہوچکی ہے۔

آپ قرآنِ پاک کے حفظ کو دیکھ لیجیے، ہر حافِظ قرآن ایک نوڈ (Node) ہے۔ سب کے پاس ایک ہی پبلک لیجر (Public Ledger) یعنی قرآنِ پاک کی کاپی موجود ہے جو سب نے اپنے اپنے دماغوں میں محفوظ کی ہوئی ہے۔ اب اگر کل کوئی عاقبت نااندیش شخص (نعوذ باللہ) کوئی نئی آیت گھڑ لاتا ہے تو حفاظ کا بلاک چین سسٹم اْسے مسترد کرکے اسے نظام سے باہر پھینک دے گا۔ بالکل ایسے ہی بلاک چین کام کرتاہے۔

جمشید نے اپنے آن لائن اکاؤنٹ میں جاکر دس ہزار روپے بھیجنے کی درخواست (Request) کی تو کمپیوٹر سسٹم نے اس کے کھاتے میں رقم کی موجودگی کو چیک کیا۔ اگر اس کے اکاؤنٹ میں دس ہزار سے کم رقم ہوتی تو یہ ٹرانزیکشن نہ ہوپاتی۔ اس کے اکاؤنٹ میں رقم چونکہ زیادہ تھی لہٰذا اس کے کھاتے میں سے دس ہزار روپے کی رقم کم ہوئی اور اتنی ہی رقم (دس ہزار روپے) عبداللہ کے کھاتے میں بڑھ گئی۔ اس پورے عمل میں رقم کا وجود ’’کھاتے کے اندراج‘‘ سے زیادہ نہیں۔مسئلہ صرف اتنا ہے کہ دو لوگوں کو ا?پس میں رقم کی منتقلی کیلیے کسی تیسرے ادارے پر اعتماد کرنا پڑا اور عموماً یہ تیسرا ادارہ ان سروسز کے بدلے رقم لیتا ہے۔شہروں اور ملکوں کے درمیان یہ عام سی ٹرانزیکشن 10 فیصد تک وصول کرلیتی ہے اور 3 سے 7 دنوں تک کا وقفہ آجاتا ہے۔ یعنی جمشید کے اکاؤنٹ سے رقم تو فوراً منتقل ہوجائے گی مگر عبداللہ تک پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔کسی تیسرے ادارے (Third Party) کے استعمال میں وہ ساری قباحتیں موجود ہیں جو ہم مرکزی نظام کے مسائل میں اوپر ڈسکس کر چکے ہیں اور مزید یہ کہ اس میں زیادہ فیس اور وقت بھی لگتا ہے۔ حکومت اور اداروں کی اجازت بھی درکار ہوتی ہے اور فارن ایکسچینج کے تبادلے کی صورت میں بھی کٹوتی ہوتی ہے۔ چوری کا احتمال ہے، اِنسانی غلطی کا بھی اور سہولت بھی کوئی زیادہ نہیں۔

یہ تو ہم نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیئے ہیں اور وہ بھی کسی اور کی، جسے عْرفِ عام میں ہم ’’بینک‘‘ کہتے ہیں۔تو کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ آپس میں خود ہی ایک رجسٹر بنالیں اور اس میں اندراج کرتے رہیں؟ بالکل! ایسا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں ڈبل اسپینڈنگ (Double-Spending) یعنی دوہرے خرچے کا مسئلہ آتا ہے جسے ساتوشی ناکاموتو نے بخوبی حل کیا۔ اس حل کو ’’بلاک چین‘‘ کہتے ہیں۔ہم ایک پبلک لیجر (عوامی رجسٹر) بنا لیتے ہیں اور اس میں شروع سے لے کر رہتی دنیا تک ہونے والی تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ رکھتے رہیں گے۔ اگر عبداللہ ا?ئندہ بھی کسی کو 5 ہزار روپے دیتا ہے تو سب کو پتا ہے کہ اْس کے پاس 10 ہزار روپے ہیں اور وہ 5 ہزار دے سکتا ہے، اور یہ 10 ہزار اْس کے پاس جمشید کی طرف سے آئے تھے۔ اب اگر اس نظام پر ہزاروں، لاکھوں لوگ ہیں تو یہ سب ٹرانزیکشن کرتے رہیں گے اور بلاک چین کے پبلک رجسٹر میں سب کا اندراج ہوتا رہے گا۔جب بہت سی ٹرانزیکشنز کو لکھنے کی وجہ سے صفحہ بھر جائے گا تو تمام لوگ (Nodes) اْسے ہیش فنکشن کی مدد سے ’’سیِل‘‘ کرکے بلاک بنا دیں گے اور اگلے بلاک پر کام شروع ہوجائے گا۔اِس سیل (Seal) کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی صفحے/ بلاک پر لکھا ہوا ہے، وہ ٹھیک ہے اور اب رہتی دنیا تک اِس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اسے ہم بلاک چین کی Immutability کہتے ہیں۔ہیش فنکشن آسان زبان میں ریاضی کا وہ پیچیدہ فنکشن ہے جس میں آپ جو چاہیں تحریر ڈال دیں، وہ جواب میں آپ کو ایک ہی سائز کے مختلف جواب دے گا۔ آپ اسے ایک مشین کہہ لیجیے۔ اب اگر ہم اس میں 4 ڈالتے ہیں تو جواب آئے گا۔


متعلقہ خبریں


عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم وجود - اتوار 28 اپریل 2024

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ وجود - اتوار 28 اپریل 2024

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش وجود - اتوار 28 اپریل 2024

وزیرستان میں تعینات سیشن جج شاکر اللہ مروت کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا جبکہ وزیراعلی نے نوٹس لے کر آئی جی کو بازیاب کرانے کی ہدایت جاری کردی۔تفصیلات کے مطابق سیشن جج وزیرستان کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم سے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور اپنے ہمراہ لے گ...

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان تحریک انصاف میں پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات شدت پکڑتے جارہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق چیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی کی تقرری کے معاملے پر تحریک انصاف کے رہنمائوں میں اختلافات اب منظر عام پر آگئے ہیں۔پی ٹی آئی رہنما اور سینیٹر شبلی فرا...

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات کا مطلب اور خواہش پوری کرلے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر فوج کو سیاسی میں دھکیل رہی ہے۔تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی جانب سے پا...

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ وجود - هفته 27 اپریل 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں پارٹی قائد نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں نے کہاہے کہ (ن) لیگ پنجاب کے اجلاس کی تجاویز نواز شریف کو چین سے وطن واپسی پر پیش کی جائیں گی،انکی قیادت میں پارٹ...

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان وجود - هفته 27 اپریل 2024

سندھ حکومت نے ٹیکس چوروں اور منشیات فروشوں کے گرد گہرا مزید تنگ کردیا ۔ ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شایع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔منشیات فروشوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں بھی مزید تیزی لانے کی ہدایت کردی گئی۔سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔جس میں شرج...

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار وجود - هفته 27 اپریل 2024

بھارتی ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔مسلسل 10 برس سے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی مودی سرکار ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کے خواہش مند ہیں۔ نری...

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر