وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھاری سرمایوں کے زور پر جلسے جلوس اور دھرنے

جمعرات 12 اپریل 2018 بھاری سرمایوں کے زور پر جلسے جلوس اور دھرنے

سبھی مقتدر بڑی سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوسوں دھرنوں کا سلسلہ آمدہ انتخابات 2018سے قبل ہی شروع ہو چکا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کے لیڈرز صرف جلسوں میں مصنوعی رش دکھا کر ہی ان ووٹروں کو متاثر کرنا چاتے ہیں جو ان کی مخصوص حرکات گالم گلوچ کی وجہ سے ان کے خلاف شدید نفرتوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بھلا کرپشن میں لتھڑے ہو ئے زرداری صاحب اور شریفین کو کیسے پاکستانی عوام اپنا دوبارہ راہنما تسلیم کرلیں ؟جو کہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے ہی بالترتیب ملک کے دوسرے اور چوتھے بڑے سرمایہ دار بن چکے ہیں کیا یہ سرمایہ ان کی خاندانی وراثت ہے؟ قطعاً نہیںیہ غریب عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی ممالک سے بھاری سود در سود سے حاصل کردہ رقوم کی کتر بیونت و لوٹ کھسوٹ کے علاوہ اور کسی محنت و مشقت سے کمائی گئی دولت نہ ہے انہی کی وجہ سے ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا مگرخزانوں پر سانپ بنے بیٹھے یہ نام نہاد بور ثوائی طبقے کے نمائندے کسی صورت ہمیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

جلسوں جلوسوں دھرنوں میں عوام کا رش دکھا کر متاثر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ آجکل کوئی غریب شخص (ووٹر) اگر دیہاڑی نہ کرے تو دن رات کا خرچہ پورا ہو ہی نہیں سکتا ،سارا دن کولہو کے بیل کی طرح سخت جاں ماری کی جائے تو بھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہو سکتا، فروٹ و دیگر لوازمات کا تو تصور کرنا ہی محال ہے۔لیڈران عظام جہاں بھی جلسہ “فرماتے ” ہیں وہاں کے ٹکٹوں کے خواہشمند افراد منتخب ایم پی اے ایم این اے اور پھر پارٹی کے دھاندلیوں سے جمع کردہ بھاری فنڈز سے جمع کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اس مخصوص جگہ پر عوام کو اکٹھا کیا جاتا ہے، ہر جلسہ سننے والے کو کم ازکم 1000روپیہ روزانہ لازمی دنیا پڑتا ہے اور لانے واپس لیجانے کے دوران ناشتہ طعام کا بھی پارٹی انتظام کرتی ہے تبھی یہ رش وش دکھایا جا سکتا ہے۔

ایک ایک جلسہ جلوس دھرنا پر کروڑہا سرمایہ خرچ ہو تا ہے ! کیا ان نام نہاد مقتدر سیاسی جماعتوں نے اس کا حساب الیکشن کمیشن میں ہر سال جون کے اواخرمیں جمع کروایا ہے؟ قطعاً نہیں وہاں صرف جعلی حساب کتاب شو کیا جا تا ہے ، بیرونی ممالک سے بھاری فنڈز وصول کرنے پر سخت پابندی ہے ہر سال تمام رجسٹرڈ جماعتوں کو سالانہ حساب آمدن و خرچ باقاعدہ چارٹرڈ اکائونٹینٹس سے تصدیق کروا کر جمع کروانا ہو تا ہے جس میں یہ بھی حلف نامہ شامل ہو تا ہے کہ پارٹی کسی بیرونی ملک سے کوئی فنڈز وصول نہیں کرتی اگر اس کا ثبوت مل جائے تو سیاسی پارٹی فوراً کالعدم قرار پا سکتی ہے مگر ان اصول و ضوابط پرمقتدر بڑی سیاسی پارٹیاں تو بالکل عمل نہیں کرتیں۔انتخابات میں بھی ہر قومی اسمبلی کے امیدوار کو 30لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی اجازت ہے مگر یہاں تو لاہور و لو دھراں کے دو ضمنی انتخابات میں اربوں روپے خرچہ کیا گیا۔

عوام پوچھتی ہے کہ پھر الیکشن کمیشن نے کیوں ایکشن نہیں لیا ؟اس ملٹی ملین سوال کا جواب بحر حال الیکشن کمیشن کو لازماً دینا ہو گا!ایسے امیدوار نا اہل کیوں قرار نہیں دیے جاتے ؟ صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے دن ہی ہر پولنگ اسٹیشن پر درجن بھر گاڑیوں کی کم ازکم ضرورت ہوتی ہے اور1000افراد تک کا کھانا ہر پولنگ اسٹیشن پر مہیا ہونا ضروری ہے اور سارا دن چائے بسکٹ مٹھائی علیحدہ ٹھہری ۔اب تو پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی بڑھائی جا چکی ہے اس دن کے کم و بیش چار سو پولنگ اسٹیشنوں کا خرچہ ہی کروڑوں روپے ہوتا ہے نہ نا اہل قرار دیے جانے کا یہ آنکھ مچولی کا کھیل کب تک جاری رہے گا ،ہر جلسہ کے لیے کروڑوں کے خرچہ سے اردگرد کے پانچ چھ اضلاع سے بھی عوام کو ڈھو ڈھو کر اکٹھا کرنا پڑتا ہے ۔پھر ایسے جھوٹ کی بنیاد پر چلنے والے سیاسی گروہوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟عوام کھلی آنکھوں اور حاضر دماغوں سے سب کچھ دیکھ سمجھ رہے ہیں خدائے عز و جل کی مشیعت ایزدی نے ہی بالآخر فیصلہ فرمانا ہے۔

کروڑوں کے خرچہ سے جلسے جلوسوں کے جعلی رش دکھا کر اب کی بار عوام کو ورغلاکر دھوکا نہیں دیا جاسکتا کہ وہ 70سالوں سے برسر اقتدار ظالم جاگیرداروں کرپٹ وڈیروں اور دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام ِسود کے علمبردار نو دولتیے سرمایہ داروں اور ڈھیروں زبردستی منافع خور صنعتکاروں کو اب پہچان چکے ہیں وہ تو بھوکوں مرتے ڈوب کر خود کشیاں کرتے پھریں یا پھر مٹی کا تیل چھڑک کراپنے آپ کو کوئلہ بناتے رہیںمگر یہ مخصوص کرپٹ جغادری سیاستدان انہیں رش دکھا کر متاثر کرلیویں ایسا اب ممکن ہی نہ ہے ! پھر عمران سمیت سبھی اپنے آپ کو بڑی پارٹیاں کہنے والوں نے پہلے سے منتخب شدہ ممبران اسمبلی کو گھیرنے اور لالچ دیکر اپنی اپنی پارٹیوں میں گھسیٹ کر لانے کا کارنامہ شروع کر رکھا ہے یہ سبھی تحت الشعور میں یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہی وہ “متبرک بھاری پتھر “ہیں جو کہ ان کی جیت کا سامان بن سکتے ہیں مگر یہی تو ہیں وہ لو گ جومزدوروں کا خون شرابوں میں ملا کر پی جا تے رہے ہیں اور ہر اقتداری کشتی میں سوار رہتے ہو ئے ہمیشہ اسے ڈبو دیا کرتے ہیں اور خود ڈوبتے جہاز میں سے چوہوں کی طرح نکل جانے والے محاورے کے مصداق فوراً کسی دوسری کشتی میں سواری فرما لیتے ہیں انہی کی نفرتوں کی وجہ سے تو ہر نئے مداری نما لیڈر کو لوگ پسند کرتے ہیں مگر نئے لالچی سیاستدان انہی کو دوبارہ عوام کی گردنوں پر سوار کرنے کے لیے اپنے ہاں شامل کرکے ان کی ساری سابقہ کرپشنوں کے محافظ بن بیٹھتے ہیں تو ان کا احتساب اسی لیے نہیں ہو سکتا کہ یہ پھر اقتدار کی چھائوں میں بیٹھ جاتے اور تحفظ پاجاتے ہیں ۔خدائے عز و جل کی کبریائی اور ہر مسلک فرقہ و علاقائی گروہ کی مکمل نمائندہ اللہ اکبر تحریک انہیں اس دفعہ انتخابات میں ضرور گہری کھائیوں میں ڈبو ڈالے گی ملک لازماً فلاحی مملکت بن کر رہے گا انشاء اللہ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر