... loading ...
دوسری جنگ عظیم ستمبر 1939ء میں شروع ہوئی اور چھ سال تک نہایت شدومد سے جاری رہی۔ اس چھ سال کی آتشیں مدت میں جنگ کے مصارف کھربوں روپے سے بھی زیادہ ہوئے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں اور صنعت و حرفت کے کتنے ہی ادارے صفحہ ہستی سے ناپید ہو گئے۔ ان کی جگہ پورا یورپ بالخصوص جرمنی ایک اسلحہ ساز فیکٹری بن گیا۔ جرمنی نے جدید اسلحہ سازی میں کمال ہی کر دیا تھا۔ اس کا طریقہ جنگ بھی جدید ترین تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے انوکھے ہتھیاروں اور نئے نئے طریق جنگ سے پولینڈ، بلجیم، ہالینڈ، فرانس، فن لینڈ، ناروے، اور سویڈن جیسی جمی جمائی سلطنتوں کو چند روز ہی میں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے کئی محاذوں پر اس قدر ہو لناک لڑائیاں ہوئیں کہ ان کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی۔ اس میں انسان کی بے دردی، شقاوت اور بربریت کے ایسے لرزہ خیز مناظر و واقعات ظہور میں آئے کہ آج بھی ان کے تخیل سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت انسان انسان نہ رہا تھا بلکہ وحشی اور درندہ بن گیا تھا۔ جرمنی کی فضائی قوت کا یورپ پر اس قدر رعب چھا چکا تھا کہ اس کے ہوائی جہاز بلاروک ٹوک رات دن پولینڈ، بلجیم، ہالینڈ، فرانس اورانگلینڈ پر آ گ برساتے رہتے اور کسی ملک کی فضائیہ ان کے مقابل آنے کی جر آت نہ کر سکتی۔ جرمنی کے ہوائی جہازوں نے لندن کے کثیر حصہ کو کھنڈر کر دیا تھا۔ ان کے حملوں میں لندن کے لاتعداد شہری ہلاک ہوئے۔ غرض جولائی 1943ء تک ایک ابتری کا عالم رہا۔ اب امریکا بھی جنگ میں شریک ہو چکا تھا۔ اس کے پاس بھی اچھے ہوائی جہاز تھے۔ ادھر اس عرصہ میں برطانیا نے بھی اپنی فضائیہ کو کافی ترقی دے لی تھی۔ چنانچہ امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں نے اب بڑی تیزی سے جرمنی پر جوابی حملے شروع کر دیے اور چند ہی روز میں فضائی جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ان مقابلوں میں جرمنی کے بہت سے ہوائی جہاز تباہ ہو گئے۔ فضائی برتری حاصل ہوتے ہی امریکی اور برطانوی ہوائی جہاز جرمنی کے صنعتی ٹھکانوں پر پے در پے حملے کرنے لگے۔
جرمنی کا مشہور علاقہ ہیمبرگ جو جنگی مشینری کا مرکز تھا اور جس کی اتنی حفاظت کی جاتی تھی کہ اس کے آسمان پر پرندہ پر نہ مار سکتا تھا، وہ بھی آخر کار برطانوی اور امریکی فضائیہ سے بچ نہ سکا۔ برطانوی فضائیہ تو جرمنی پر خارکھائے بیٹھی تھی کیونکہ اس نے لندن کے بارونق علاقے مثلاً سوان سی، ویلز، پورٹس ماوتھ اور مانچسٹر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور جس میں بہت بڑی تعداد میں معصوم شہری ہلاک ہوئے تھے۔ لہٰذا برطانیا نے دل کھول کر بدلے لیے۔ 1939ء سے اوائل 1943ء تک کا دور ابتلا گزر چکا تھا، جس میں برطانیا نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا تھا اور اب اس کے جوابی حملوں کا وقت آگیا تھا۔ آخر ایک روز تین تین سو کی دوٹکڑیوں میں اس کے لنکاسٹر ہوائی جہازوں نے ہیمبرگ پر پرواز کی۔ پہلے تو ان جہازوں نے جرمنی کے رڈارنظام کو معطل کیا۔ اس کے بعد شدت سے پھٹنے والے بے شمار بم ہیمبرگ پر برسانے شروع کر دیے۔ اس غضب ناک ہوائی حملہ سے جرمنوں کے چھکے چھوٹ گئے ۔ مگر یہ تو ابھی ابتدا ہی تھی۔ جب ہوائی حملہ ختم ہوا تو ہیمبرگ میں پندرہ سو سے زیادہ آدمی ہلاک ہو چکے تھے اور شہر کے بیشتر حصہ میں آگ لگ چکی تھی۔
دوسری جانب سپلائی اور مواصلات کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ دوسرے روز سہ پہر کو جب کہ ابھی کل کی بمباری سے لگی ہوئی آگ پر قابو نہ پایا جا سکا تھا، پھر سائرن بجنے لگے اور ایک سو اسی فلائننگ فورٹریس قسم کے ہوائی جہاز گھنے بادلوں کو چیرتے ہوئے نمودار ہوگئے۔ انہوں نے ہیمبرگ کی بندرگاہ کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ مگر ہیمبرگ کا ختم ہونا آسان نہ تھا کیونکہ اس شہر کی حفاظت کا بڑا سامان کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس شہر میں تین ہزار کارخانے تھے جن میں سے زیادہ تر سامان جنگ ہی تیار کرتے تھے جو جرمنی کے محاذوں پر بھیجا جاتا تھا۔ ان کارخانوں کی چھتیں اور گودام وغیرہ زمین دوز بھی تھے اور کنکریٹ کے بنے ہوئے بھی۔جن پر بمباری کا اثر ہونے کا بہت کم اندیشہ تھا۔ جرمن کم از کم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ ہیمبرگ میں فائر بریگیڈ کا بھی بہت اچھا انتظام تھا جس کا عملہ تین ہزار چار سو افراد پر مشتمل تھا۔ اس کے پاس دوسو اٹھاسی اعلیٰ درجہ کے ٹرک بھی تھے لیکن اس جاہ و حشم اور فوجی استحکام کوبرطانوی فضائیہ نے صرف دس روز کے اندر تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ ہزاروں افراد کی لاشیں گلی کوچوں میں سڑ رہی تھیں جنہیں کوئی اٹھانے والا نہ رہا تھا۔
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہیمبرگ کے تین بڑے حملوں میں برطانوی اور امریکی ہوائی جہازوں نے لاکھوں چھوٹے بڑے بم برسائے۔ ان حملوں سے شہر کا وسطی علاقہ بے شک تباہ ہو گیا تھا لیکن مضافاتی علاقے ہنوز باقی تھے۔ لوگ بڑی تعداد میں گرتے پڑتے مضافات کی جانب بھاگنے لگے کیونکہ شہر میں آگ کی شدید تپش، لاتعداد آتش گیر مادہ اور بموں کے پھٹنے سے اس قدر حدت بڑھ گئی تھی کہ لوگوں کے دم گھٹنے لگے تھے۔ پھر ہیمبرگ اور اس کی مضافاتی بستیوں پر حملہ کیا گیا۔ برطانیا نے ہیمبرگ مٹا کر فضائی جنگ میں نیچا دکھا دیا تو اس کے ہوائی جہازوں نے ڈریسڈن کا بھی یہی حشر کیا اور پھر جنگ اتحادیوں کے حق میں ہونے لگی۔
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...