وجود

... loading ...

وجود

درِ آئینہ کا شاعر…رفیع الدین رازؔ

اتوار 11 فروری 2018 درِ آئینہ کا شاعر…رفیع الدین رازؔ

اُردو کی شعری اصناف میں غزل نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ غور سے دیکھیے تو غزل ہمارے آسمانِ ادب کا آفتاب ہے، باقی اصناف چاند ستاروں کی طرح ہیں۔ مرثیے کی وسعتِ بیان، رزمیہ طرزِ اظہار اور جذبات نگاری، قصیدے کا شکوہ،مثنوی کا شعری محاسن سے آراستہ کہانی پن، رباعی کافکری وقار اپنی جگہ لیکن غزل کا ایک شعر جس اختصار و ایجاز کے ساتھ زندگی کے کسی رنگ ، کیفیت یا حقیقت کا اظہار کرتا ہے، وہ منفرد اور حیرت ناک ہے۔ دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل کے اشعار ہمیں اپنے دل سے زیادہ نزدیک محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی جمالیات اور غنائیت سے ہماری آشنائی بہت پرانی ہے۔ غزل ہماری تہذیب کا چراغ ہے۔ یہ ہماری اجتماعی نفسیات میں اُترگئی ہے۔ اِسی لیے غزل بعض نامور نقادوں اور قلمکاروں کی مخالفت کے باوجود بھی زندہ ہے۔ غزل کے زندہ رہنے کی دو سب سے بڑی وجوہات ہیں، ایک تو اِس میں ہر طرح کے مضامین کو ادا کرنے کی اہلیت ہے، چاہے وہ مضامین، عشقیہ ہوں، فلسفیانہ ہوں، تصوف سے متعلق ہوں، سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق ہوں، سماجی ہوں یا سیاسی ہوں۔ غزل کے کینوس پر سب کے لیے جگہ موجود ہے۔ غزل کے مسلسل ارتقائی سفر کی دوسری وجہ یہ ہے کہ غزل میں ہر عہد کے لسانی اور شعری تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوجانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ولیؔ کے عہد سے لے کر آج تک غزل نے کئی روپ بدلے ہیں۔ آج ہماری جدید اُردو غزل، صرف موضوعات ہی میں نہیں، اپنے پیرایۂ اظہار میں بھی کلاسیکی غزل سے صریحاً مختلف ہے۔ یہ غزل عصریت اور تازگیٔ خیال سے عبارت ہے۔

عصری غزل کے منظر نامے پر نظر ڈالیے تو آپ کو رفیع الدین رازؔ بہت نمایاں نظر آئیں گے۔ اُن کی غزل ہمارے ادبی سرمائے میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ میرے نزدیک رفیع الدین رازؔ کی غزلیں اِس لیے اہم ہیںکہ یہ ہمارے عہد کے آشوب کا اظہار بھی کرتی ہیں اور اِن میں تازہ خیالی کے رنگ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ رفیع الدین رازؔ ایک پڑھے لکھے، خلّاق طبع، منکسر اور خودساز انسان ہیں۔ اُن کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ اُنہوںنے اپنا سفر زیرو (ZERO) سے شروع کیا اوراپنی اَنتھک محنت، جدوجہد اور سچائی پر یقین کے راستے سے وہ کامیابی کی موجودہ منزل تک پہنچے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُنہیں زندگی کے سفر میں مخالفت اور دل شکنی کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن وہ مخالفت اور دل آزاری کے رویوں سے کبھی افسردہ نہیں ہوئے بلکہ اِس سے اُن کے اندر ایک نئی ہمت پیدا ہوئی۔

یہی اُمید پرستی اور مثبت اندازِ فکر اُن کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اِسی نے اُن کی شخصیت کو ہمیشہ ٹوٹنے سے بچائے رکھا۔ وہ آج جو کچھ بھی ہیں، اپنے اِسی باطنی یقین کی وجہ سے ہیں۔ اُن کے اندر ابتدا سے ہی یہ یقین موجود رہا ہے کہ انسان کو سچائی، اخلا ص اور محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اِس میں کچھ تاخیر تو ہوسکتی ہے مگر ناکامی نہیں۔ اُن کی شاعری میں بھی اُن کا یہ یقین جگہ جگہ جھلکتا ہے۔ اُنہوںنے اپنی تخلیقی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنے فن کا لوہا بھی اہلِ نقدونظر سے منوایا ہے۔ وہ ایک قادر الکلام اور عروضی نکات کو سمجھنے والے شاعر ہیں۔ اُنہو ں نے غزل کے علاوہ بھی دوسری اصناف کو اپنے اظہار کے لیے منتخب کیا۔ رباعی، نعت، قطعہ، انشائیہ، آزادنظم، پابند نظم، دوہا، ہائیکو، ماہیا، تروینی اور افسانے میں وہ اپنے تخلیقی جوہر دکھاچکے ہیں۔ اُنہوںنے رباعی کے چوبیس اوزان میں رباعیات کہی ہیں اور رباعی کے سارے اوزان میں غزلیں بھی لکھی ہیں۔ اُردو ادب میں اُنہیں اِس کی اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے کیوں کہ رباعی کے ہر وزن پر غزل لکھنے کی روایت اِس سے پہلے نہیں ملتی۔

آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ یہ اُن کی تیسری ہجرت ہے۔ جس کے خدوخال اُن کی تحریروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ امریکا کی اُردو بستیوں میں وہ ایک کہنہ مشق سینئر اور صفِ اوّل کے شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ امریکا کے مشاعروں میں اُنہیں سب سے زیادہ داد ملتی ہے اور سامعین اُن کی شفیق شخصیت اور بلند معیارِ کلام کے باعث اُن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک کم گو، سنجیدہ اور نرم خو انسان ہیں۔ اگر وہ کبھی کسی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہیں تو، اُن کی دیانتِ فکر، اور زندگی کے بارے میں اُن کی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ انسانی رشتوں کا احترام کرنے والے شخص ہیں۔ وہ مذہبی انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کے خلاف ہیں۔ وہ عالمی تاریخ کے بہترین شناسا ہونے کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے استحصال اور عالمی سیاسی منظرنامے سے پوری طرح واقف ہیں ، اِسی لیے اُن کی غزل محض انفرادی تجربے کا اظہار نہیں بلکہ اجتماعیت کی امین ہے۔

اِس سے قبل اُن کی غزلوں کے سات مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور ایک ضخیم کلیات ’’ سخن سرمایہ‘‘ جو غزلیات پر مشتمل ہے منظرِعام پر آچکا ہے۔ اُن کی شاعری پر ہمارے عہد کے تقریباً سارے بڑے نقاد اور شعراء اپنی آراء کا تحریری اظہار کرچکے ہیں۔ وہ بہت خوش نصیب ہیں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی ہی میں ادب کے بڑے لوگوں سے داد پائی۔ ہمہ اصناف ہونے کے باوجود رازؔ صاحب کی شاعری کا بنیادی حوالہ ان کی غزل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ چند بنیادی باتیں تو اُن کی غزل کے بارے میں ہر نقاد ہی نے کہی ہیں اور آج ہم رفیع الدین رازؔ کی غزل کو اِنہی تنقیدی کلّیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اِن میں ایک بات تو اُن کی رجائیت کے تناظر میں ہے کہ اُن کی شاعری میں نااُمیدی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ وہ زندگی کے غموں اور مصائب میں یاسیت کے اندھیروں کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے۔ یقین اور اُمید کا اُجالا ہمیشہ اُن کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ عصرِ جدید کے انسان کی تمام سفّاکی، زرپرستی، خود غرضی اور خوں آشامی کے باوجود اُس سے مایوس نہیں ہیں۔ وہ مستقبل کی دنیا کو ایک بہتر اور پُرامن دنیا بنانے کا خواب دیکھنا کبھی ترک نہیں کرتے۔ اُن کی شاعری کے اِس رجائی انداز کا خصوصی تذکرہ اُن پر لکھے جانے والے مضامین میں ملتا ہے۔ چوںکہ رجائیت اور ظلم و آلام سے برسرِپیکار ہونے کا رویہ اُن کی ذات اور اُن کے تخلیقی شعور کا جزوِ اعظم ہے، اِس لیے زیرِ نظر مجموعۂ غزلیات ’’درِ آئینہ‘‘ میں بھی یہ اُمید پرستی ہمیں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔

رازؔ صاحب کے شاعرانہ اسلوب کے بارے میں دوسری بات جو نقادوں نے ان کی غزل کے تنقیدی مطالعے کے نتیجے میں کہی وہ یگانہ کے اثر کے حوالے سے ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ان کی غزل کا لہجہ اور طرز اظہار یاس یگانہ چنگیزی سے بہت مماثل ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ مماثلت شعوری نہیں ہے۔ یہ دو شاعروں کی زندگی کی مماثلت ہے۔ یہ زندگی اور کائنات کو دیکھنے کے انداز نظر کی مماثلت ہے، یہ دو نظریہ ہائے حیات کی مماثلت ہے۔ انہوں نے کسی کی نقل نہیں کی، کسی سے کچھ مستعار نہیں لیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے کلاسیکی ادب سے فیض حاصل نہیں کیا، اُن کے مطالعے نے اُن کے تخلیقی شعور کی تشکیل کی۔ اُنھوں نے روایت کے بہترین حصوں کے اثرات سے اپنی فکر سخن کو مہمیز کیا ان کے رنگوں کی آمیزش سے ایک نیا رنگ بنایا، ایک بالکل نیا لہجہ تراشا، جذبات کی جگہ افکار کو دی اورمحبت کے تصور کو محبوب کی فردیت سے نکال کر ساری انسانیت پر پھیلا دیا۔

جہاں تک رفیع الدین راز کی غزلوں میں ان کے انادار لہجے اور طرزِ ادا کا تعلق ہے۔ ہم اسے ایک قسم کا احساس غیرت اور خود داری سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حالات کے جبر اور دنیا کے برتائو نے ان کے خود داری کے جوہر کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ ان پر درد کے کتنے ہی موسم گزرگئے مگر انہوں نے دست طلب کبھی درازنہیں کیا، اسے آپ ان کی انا بھی کہہ سکتے ہیں، مگر یہ انانہ توانائے شکستہ ہے اور نہ ہی انائے کج، یہ ایک مثبت انا ہے، جو زندگی کی رزم گاہ میں راز صاحب کی سپر ہے اور کبھی کبھی شمشیر بھی۔ یہ انا ایک صحت مند انسانی رویہ ہے۔ جس میں دنیا سے نفرت، طیش یا انتقام کے جذبات نہیں ہیں۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ رفیع الدین راز کو اپنی ذات کا گیان بھی ہے اور اپنے چاروں طرف موجود انسانوں کا دھیان بھی۔ یہی توازن ان کی شخصیت اور ان کی سخنوری کا سب سے مستحکم ستون ہے۔

ہر شاعر کے یہاں بعض علامتیں بار بار اپنا چہرہ دکھاتی ہیں۔ رفیع الدین راز کی غزلوں میں آئینے کا لفظ بار بار آتا ہے۔ ’’آئینہ‘‘ صوفیاء کے نزدیک کائنات کی علامت ہے۔ بعض صاحبانِ حال نے اِس سے قلب بھی مراد لیا ہے۔

کہتے ہیں آئینے کا لفظ اُردو اور فارسی شاعری میں سب سے زیادہ بار عبدالقادر بیدلؔ نے استعمال کیا اور ہر بار اُس کی عظیم شاعرانہ بصیرت نے اِس علامت کو ایک نئی جہت دی ہے۔ بیدل کے بعد مرزا اسد اللہ خاں غالب نے آئینے کی علامت کو اپنی شاعری کی زینت بنایا۔ غالب کی غزلوں میں لفظِ آئینہ واقعی گنجینۂ معنی کا طلسم نظر آتا ہے۔

رفیع الدین کے مجموعے ’’درِ آئینہ‘‘ میں آئینے کی علامت کُل ۱۷۔ اشعار میں ملتی ہے۔ اس مجموعے کے نام سے بھی رفیع الدین راز کی اِس لفظ سے ایک خاص تخلیقی وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے قبل کے مجموعوں میں بھی رفیع الدین راز نے آئینے کی شعری علامت کو بڑے حسن کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ دراصل لفظِ آئینہ راز صاحب کے شعری وجدان میں اہم مقام رکھتا ہے۔ وہ اِسے ظاہر و باطن کی یکسانیت یعنی منافقت ریارکاری اور دروغ کی ضد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آئینہ اُن کی نگاہ میں سچائی کا مظہر ہے جو حقیقت کو ویسا ہی دکھاتا ہے جیسی وہ ہے۔ کہیں کہیں وہ اِسے تخلیق کی علامت کے طور پر بھی استعمال کرتے ہی۔ معنوی سطح پر آئینہ اُن کی شاعری میں جمالِ ذات اور جمالِ کائنات کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے بعض اشعار میں آئینے کو لفظ انکشافِ راز کے معنوں میں بھی برتا ہے۔

مجھے عصرِ نو میں غالب کا رنگ پورے اُسلوبیاتی اہتمام کے ساتھ یا تو عزیر حامد مدنی کے یہاں نظر آتا ہے۔ یا پھر ایک خاص زاویے سے رفیع الدین راز کی غزلوں میں۔

فراقؔ نے خواجہ حیدر علی آتش کو اخلاقی مضامین کا بادشاہ کہا ہے۔ آتش کے یہاں اخلاقی مضامین تصوف کی راہ سے آئے ہیں۔ رفیع الدین راز کی شاعری پندو نصائح کا دفتر نہیں ہے۔ وہ اپنے اشعار میں آفاقی انسانی قدروں کی طرف محض اشارہ کرتے ہیں، کیونکہ شعریت کو وہ صداقت پر قربان نہیں کرتے۔ ورنہ صحافت اور شاعری پھر کوئی حد فاصل باقی نہیں رہے گی۔ وہ غالب کی طرح زندگی اور اس خاکدان آب و گل کے بارے میں بڑے سوالوں کو Address کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ وہ مرزا اسد اللہ خاں غالب تو نہیں مگر مرزا رفیع الدین بیگ ضرور ہیں اُن کی رگوں میں مغل خون گردش کررہا ہے۔ اور اُن کے شاعرانہ اسلوب میں سلطنت رفتہ کی شان و شوکت اپنی چھب دکھاتی ہے۔ شاید یہی پس منظر ہے جس کے سبب ان کی خاکساری میں بھی ایک وقار ہے۔ انہیں غالب کی غزلوں کی زمینیں بہت پسند ہیں وہ ہمیشہ غالب کی زمینوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ موجودہ کتاب میں بھی غالب کی زمینوں میں سولہ غزلیں موجود ہیں۔

غالب کی زمینوں میں رفیع الدین راز نے جدید غزل کے ایسے رنگ سجائے ہیں جنہوں نے ایک نابغہ سخن کی زمینوں کو اور زیادہ روشن کردیاہے۔ ان غزلوں میں ان کی قدرت کلام اور لسانی گرفت بھی قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ راز صاحب کی ہر غزل کسی نہ کسی شعر پر پڑھنے والے کو چونکاتی ضرور ہے۔

حالی نے شاعری کی ایک ایسی کسوٹی ہمیں دے دی ہے کہ جس کے واسطے سے ہم کمترین اور بہترین شاعری کا فرق جان سکتے ہیں اور بلند معیار کی شاعری کو فوراً پہچان سکتے ہیں۔ اس معیار پر جانچیے تو رفیع الدین راز کی غزل آپ کو کھرا سونا محسوس ہوگی۔ وہ سونا جس میں سچائی کی چمک ہے۔ جذبات اور افکار کے یہ درخشاں شعری نقوش قاری کی نگاہوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ اُن کے زندہ افکار کی قوس قزح اُن کی غزلوں میں جا بہ جا اپنے رنگ بکھیرتی ہے۔ اُن کی غزل مردہ استعاروں کا ہجوم نہیں زندہ خیالات کا گلدستہ ہے۔ وہ زندگی میں بھی اور اپنے فن میں بھی خرد افروزی کے قائل ہیں۔ اُن کے دل میں استدلال کی حرمت ہے۔ آپ اُن کی شاعری کی تہہ میں اتریے تو جان جائیں گے کہ وہ شرف انسانیت کے شاعر ہیں۔ رفیع الدین راز کی شاعری ایک مثالی دنیا کی تلاش کی شاعری ہے۔ اُن کا یہ خواب بہت قیمتی ہے۔ وہ اپنے اس خواب میں ہمیںبھی شریک کرنا چاہتا ہے۔ اپنی شاعری اور اپنے فن کے ذریعے ۔ اپنی تازہ رخ غزلوں کے ذریعے۔ اُن کی خاموش طبعی کے اندر ایک شورِ کائنات چھپا ہوا ہے۔ یہی شور حیات انگیز رفیع الدین راز کی تخلیقات میں نغمگی کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آتا ہے اور اُن کی شعری غِنائیت قاری کو اپنے حصار افسوں میں لے لیتی ہے۔ اُن کی غزلوں میں معاشرے کے تضادات کو اجاگر کرنے کا رویہ بھی ہے اور جدید عہد کے انسان کا المیہ بھی، جدید عہد کا انسان جسے بڑی طاقتوں کی استعمار پسندی، دہشت گردی، اور سرمایہ دارانہ نظام کے جبر نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔

رفیع الدین راز کی شاعری ہر نوع کے ظلم کے خلاف آج کے انسان کی صدائے احتجاج ہے۔ اُن کی شاعری ہر قسم کی غلامی کو مسترد کرتی اور انسان کی آزادی کا علم بلند کرتی ہے۔ اسی لیے اُن کی فکر اور اُن کا اسلوب اظہار ہمارے دلوں کو تسخیر کرلیتا ہے۔


متعلقہ خبریں


ہر سال سیلاب سے نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے، فیلڈ مارشل وجود - اتوار 14 ستمبر 2025

سیلاب کے نقصانات سے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے تمام ضروری اقدامات فوری طور پر کیے جانے چاہئیں، فوج عوامی فلاح کے تمام اقدامات کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی،سید عاصم منیر کا اچھی طرز حکمرانی کی اہمیت پر زور انفرا سٹرکچر ڈیولپمنٹ تیز کرنا ہوگی، متاثرین نے بروقت مدد فراہم کرنے پر پ...

ہر سال سیلاب سے نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے، فیلڈ مارشل

افغانستان خارجیوں اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کر لے، وزیر اعظم کا واضح پیغام وجود - اتوار 14 ستمبر 2025

  وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کا بنوں کا دورہ،جنوبی وزیرستان آپریشن میں 12 بہادر شہدا کی نماز جنازہ میں شرکت،سی ایم ایچ میں زخمی جوانوں کی عیادت، دہشت گردی سے متعلق اہم اور اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی دہشت گردی کا بھرپور جواب جاری رہے گا،پاکستان میں دہشت گردی کرنیوالو...

افغانستان خارجیوں اور پاکستان میں سے ایک کا انتخاب کر لے، وزیر اعظم کا واضح پیغام

پنجاب میں سیلاب کی تباہی،کئی دیہات ڈوب گئے ،101 شہری جاں بحق وجود - اتوار 14 ستمبر 2025

45 لاکھ افراد اور 4 ہزار سے زائد دیہات متاثر،25 لاکھ 12 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل دریائے راوی ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری بھارتی آبی جارحیت کے باعث پنجاب میں آنے والے سیلاب میں اب تک 101 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں، 45 لاکھ 70 ہزار ا...

پنجاب میں سیلاب کی تباہی،کئی دیہات ڈوب گئے ،101 شہری جاں بحق

غزہ پر قبضہ، اسرائیلی سیکورٹی حکام کی نیتن یاہو کوتنبیہ وجود - اتوار 14 ستمبر 2025

سکیورٹی حکام نے نیتن یاھو کو خبردار کیا غزہ پر قبضہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے پانچ گھنٹے طویل اجلاس کا ایجنڈا غزہ پر قبضہ تھا، قیدیوں کو لاحق خطرات پر تشویش اسرائیل کے تمام اعلی سکیورٹی حکام نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ انتہائی خطرناک ث...

غزہ پر قبضہ، اسرائیلی سیکورٹی حکام کی نیتن یاہو کوتنبیہ

علیمہ خانم سے سوال کرنا جرم ، پی ٹی آئی کارکنوں کا صحافیوں پر حملہ وجود - منگل 09 ستمبر 2025

توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کارکنان آپے سے باہر ، قیادت کی جانب سے کارکنان کو نہیں روکا گیا تشدد کسی صورت قبول نہیں،پی ٹی ائی کا معافی مانگنے اور واضع لائحہ عمل نہ دینے تک بائیکاٹ کرینگے، صحافیوں کا اعلان توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان...

علیمہ خانم سے سوال کرنا جرم ، پی ٹی آئی کارکنوں کا صحافیوں پر حملہ

سیلاب سے تنہا مقابلہ نہیں کرسکتے، عالمی دُنیا ہماری مدد کرے، بلاول بھٹو وجود - منگل 09 ستمبر 2025

پہلے ہی اِس معاملے پر بہت تاخیرہو چکی ہے ، فوری طور پر اقوام متحدہ جانا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہوناچاہیے، ملک میں زرعی ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے، ملتان میں متاثرین سے خطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ...

سیلاب سے تنہا مقابلہ نہیں کرسکتے، عالمی دُنیا ہماری مدد کرے، بلاول بھٹو

کراچی سمیت سندھ بھرمیں گہرے بادلوں کا راج، بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ وجود - منگل 09 ستمبر 2025

محکمہ موسمیات نے اگلے 2 روز میں مزید موسلادھار بارشوں کا امکان ظاہر کردیا،شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت پورٹ قاسم سمندر میں ماہی گیروں کی کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر ڈوب کر جاں بحق جبکہ تین کو بچا لیا گیا، ریسکیو حکام کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے...

کراچی سمیت سندھ بھرمیں گہرے بادلوں کا راج، بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ

سیلاب کے نقصانات میں حکمرانوں کی نااہلیاں شامل ہیں،حافظ نعیم وجود - منگل 09 ستمبر 2025

قدرتی آفات کو ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر اِس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، امیر جماعت اسلامی چالیس سال سے مسلط حکمران طبقے سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس کو بے وقوف بناتے ہیں، گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں ہمارے حکمرانوں کی...

سیلاب کے نقصانات میں حکمرانوں کی نااہلیاں شامل ہیں،حافظ نعیم

ٹرمپ کی وارننگ،حماس کا مذاکرات پر آمادگی کا اعلان وجود - منگل 09 ستمبر 2025

کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کا فلسطین سے مکمل انخلا شامل ہو نا چاہئے ہم اپنے عوام پر جارحیت کو روکنے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں، بیان فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی آخری وارننگ کے بعد فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تی...

ٹرمپ کی وارننگ،حماس کا مذاکرات پر آمادگی کا اعلان

سیلابی ریلا سندھ کی جانب رواں دواں، پنجاب میں سیلاب سے 42 لاکھ افراد متاثر، 56اموات وجود - پیر 08 ستمبر 2025

  بھارت نے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ دیا، مزید سیلابی صورت حال کا خدشہ،متعلقہ اداروں کا ہنگامی الرٹ جاری،ملتان میں ریلے سے نمٹنے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے ایک عملی منصوبہ تیار کر لیا ،وزارت آبی وسائل صوبے بھر میں مختلف مقامات پر طوفانی بارشوں کا خطرہ ،پنجاب سے آنیو...

سیلابی ریلا سندھ کی جانب رواں دواں، پنجاب میں سیلاب سے 42 لاکھ افراد متاثر، 56اموات

جشن آمد رسولؐ، گلی کوچے برقی قمقموں سے روشن، ہر جانب نور کا سماں وجود - پیر 08 ستمبر 2025

  نماز فجر کے بعد مساجد اور گھروں میں ملکی ترقی اورسلامتی کیلئے دعا ئیں مانگی گئیں، فول پروف سکیورٹی انتظامات کراچی سے آزاد کشمیر تک ریلیاں اورجلوس نکالے گئے، فضائوں میں درود و سلام کی صدائوں کی گونج اٹھیں رحمت اللعالمین، خاتم النبیین، ہادی عالم حضرت محمد ﷺ کی ولادت ...

جشن آمد رسولؐ، گلی کوچے برقی قمقموں سے روشن، ہر جانب نور کا سماں

پاکستانی فضائیہ نے معرکہ حق میں اپنے کردار سے دنیا کو حیران کر دیا( صدر و وزیراعظم) وجود - پیر 08 ستمبر 2025

قوم کو پاک فضائیہ کی صلاحیتوں پر فخر ہے،پاک فضائیہ نے ہمیشہ ملکی حدود کا دفاع کیا،صدرآصف علی زرداری پاکستانی فضائیہ ہمیشہ کی طرح ملکی خودمختاری، جغرافیائی سرحدوں اور سالمیت کا بھرپور دفاع کرتی رہے گی،شہبازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ...

پاکستانی فضائیہ نے معرکہ حق میں اپنے کردار سے دنیا کو حیران کر دیا( صدر و وزیراعظم)

مضامین
قطر پر قطر کی مدد سے اسرائیلی حملہ وجود اتوار 14 ستمبر 2025
قطر پر قطر کی مدد سے اسرائیلی حملہ

بھارت میں ہندو مسلم فسادات وجود اتوار 14 ستمبر 2025
بھارت میں ہندو مسلم فسادات

نیپال کی بغاوت :تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں وجود اتوار 14 ستمبر 2025
نیپال کی بغاوت :تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

بیداری وجود اتوار 14 ستمبر 2025
بیداری

چینی کی بے چینی وجود هفته 13 ستمبر 2025
چینی کی بے چینی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر