... loading ...
پاکستان کے شہر قصور سے سات سالہ بچی زینب انصاری سمیت زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کا نشانہ بننے والی کم از کم آٹھ کمسن بچیوں کا مجرم گذشتہ تقریباً تین برس تک نا معلوم رہا۔منگل کے روز پہلی بار اس کی شناخت کی گئی۔ لاہور میں وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ملزم عمران علی کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ پریس کانفرنس کے دوران گزشتہ تمام وارداتوں کے حوالے سے درجنوں ایسے پہلو سامنے آئیں گے جو جواب طلب تھے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ تفتیشی ٹیم میں شامل کسی بھی پولیس افسر کو سوالات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ متعدد سوالات ایسے ہیں جو آج بھی جواب طلب ہیں۔پولیس نے مبینہ قاتل تک پہنچنے میں دو برس کیوں لگائے جبکہ اس عرصے میں کم از کم پانچ معصوم بچیوں کی جانیں ضائع ہوئیں؟ کیا شواہد، گواہان اور اشارے موجود نہیں تھے یا پولیس نے انہیں نظر انداز کیا؟۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جو مشترکہ کوشش گزشتہ چودہ دنوں میں کی، وہ دو برس قبل اس نوعیت کے پہلے ہی واقعے کے بعد کیوں نہیں کی گئی؟۔سوال یہ بھی پیداہواہے کہ عمران علی پر پولیس کو ابتدا ہی سے شک کیوں نہیں ہوا؟ خصوصاً اْس وقت جب ماضی میں کمسن بچیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی عمران کے خلاف شکایات مقامی پولیس کے علم میں تھیں۔
کورٹ روڈ پر واقع زینب کے گھر کے راستے میں ان کی گلی میں مڑنے سے چند قدم پہلے مرکزی بازار میں کریانے کی چند دکانوں کے بیچ چھوٹا سا ایک چائے کا ا سٹال ہے۔ یہاں بیٹھے لوگ ٹی وی پر انہماک سے خبریں دیکھتے ہیں۔ خبروں پر تبصرے بھی ہوتے ہیں تاہم جب ان سے زینب کیس اور ملزم عمران علی کے بارے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو زیادہ تر لوگ ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے۔
ان میں سے ایک صاحب جو اپنا نام نہیں بتانا چاہتے تھے، ان سے جب پوچھا گیا کہ ٹی وی پر ملزم کی تصویر دیکھنے کے باوجود یہاں لوگ اسے کیوں نہیں پہچان سکے تو ان کا کہنا تھا ادھر ہمارے ساتھ آ کر بیٹھا رہا ہے اور کئی بار یہاں بازار سے گزرا مگر کیونکہ خاکے اور ویڈیو میں نظر آنے والے کی شکل واضح نہیں تھی اس لیے ہمیں عمران پر شک ہی نہیں ہوا۔”وہ سمجھتے تھے کہ عمران ایسا کام نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تو نعتیں پڑھنے والا شخص تھا۔ تاہم وہیں، اسی محلے میں عمران کی گلی اور قریب وجوار میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس کے دوسرے رخ سے بخوبی واقف تھے اور ان میں سے کچھ نے مقامی پولیس میں شکایات بھی درج کروا رکھیں تھیں۔
اسی محلے کے رہائشی جنہوں نے اپنا نام محمد اکرم بتایا انہوں نے غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2015 میں انھوں نے بذاتِ خود عمران کو ایک چھوٹی بچی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور زبردستی بوسہ کنی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا تھا۔جس پر انھوں نے اس کی پٹائی کرنی شروع کردی تھی۔شور سن کر آس پاس کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور ہم سب نے مل کر اس کی پٹائی کی، بعد میں اس کے باپ نے آ کر معافی مانگی اور معاملہ رفع دفع ہوا۔” یاد رہے کہ پولیس کے مطابق بچیوں کے ساتھ زیادتی کے وہ آٹھ واقعات جن کا سراغ نہیں مل پایا ان میں پہلا واقعہ سنہ 2015 میں ہی پیش آیا تھا۔ اس کے بعد اگلے دو برس میں سات مزید وارداتیں ہوئیں جن میں پانچ معصوم بچیاں جان سے گئیں۔اکرم کے مطابق عمران کے حوالے سے چھوٹی بچیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی شکایات اس کے بعد بھی مختلف قریبی محلوں سے سامنے آتیں رہیں جہاں اس کو مار بھی پڑی۔
عمران کے گھر والی گلی میں مقیم محمد علی نے بتایا کہ عمران کے گھر آنے جانے کی روٹین بہت مختلف تھی۔ انھوں کبھی اس کو کسی کمسن بچی کے ساتھ نہیں دیکھا تاہم کچھ روز قبل محلے والوں کو پتہ چلا کہ اس کے ساتھ ان کے گھر میں کوئی لڑکی رہ رہی تھی۔وہ جوان لڑکی تھی جو ان کے گھر میں دس پندرہ دن رہی جس کے بعد اس کے لواحقین شاید اس کو لے گئے۔ ابھی کچھ روز قبل سننے میں آیا تھا کہ عمران کی اور اس کی شادی طے ہونے والی تھی۔ اس حوالے سوال یہ ہے کہ جب کمسن بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد قتل کا پہلا واقعہ سامنے آیا تو یہاں کہ لوگوں کے لیے عمران کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں کیوں نہیں بجیں؟ اکرم یا کسی اور نے پولیس کو اس حوالے سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟۔ اس حوالے سے اکرم کہتے ہیں لوگ پولیس سے خوفزدہ ہیں۔ ’پولیس کو کیا بتائیں، وہ تو الٹا ہمیں پکڑ کے بٹھا لیتے ہیں اور تفتیش شروع کر دیتے ہیں۔
تاہم ایک گھر ایسا تھا جس نے عمران کے خلاف اپنی کمسن بچی کو چھیڑنے کی شکایت مقامی پولیس کو باقاعدہ درج کروائی تھی۔محمد علی نے غیرملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان کی محلہ دار ایک خاتون نے عمران علی کو ان کی کمسن بچی کو چھیڑنے پر پہلے اس کے خاندان والوں کو شکایت لگائی جس پر ان کا جھگڑا بھی ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے پولیس کو اس کی رپورٹ درج کروائی ۔ یاد رہے کہ زینب قتل کیس کی تفتیش کے ابتدائی دنوں میں زینب کے چند رشتہ داروں کے کہنے پر پولیس نے عمران کو پکڑا تھا، تاہم بعد میں چھوڑ دیا۔ حکام کے مطابق اس نے وہاں پر سینے میں درد کا بہانہ کر کے واویلا شروع کر دیا تھا جس پر اس سے سوال و جواب کے بعد جانے دیا گیا۔اگر اس وقت اکرم یا کوئی اور پولیس کو عمران کے ماضی کے حوالے سے آگاہ کر دیتا تو شاید تفتیش کا رخ بدل جاتا، وقت بچتا اور پولیس کو گواہ بھی مل جاتے۔ ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا پولیس نے کوشش نہیں کی یا لوگ سامنے نہیں آئے؟
اکرم اور ان کے آس پاس اکٹھے ہونے والے دیگر افراد نے یک زبان یہ بولا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس پر شک ہوا ہی نہیں۔اکرم کا کہنا تھا کہ سنہ 2015 والا واقعہ انہیں یاد ہی نہیں تھا۔ ’وہ تو جب گرفتاری کے بعد میں نے اس کی شکل دیکھی تو میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ یاد ہے یہ وہ ہی لڑکا ہے جس کو ہم نے پیٹا تھا۔‘ہم تو سمجھے بندے سے ایسی حرکتیں ہو جاتیں ہیں، یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ اس حد تک جا سکتا تھا۔”
عمران علی کے محلہ دار جو نہیں چاہتے کہ ان کا نام ظاہر کیا جائے انہوں نے غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران علی کے گرفتاری کے بعد ان کی بیوی نے ان کو بتایا کہ اس نے ایک مرتبہ ان کی کمسن بچی کو بھی چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ان کا ماننا ہے کہ عمران علی کا کردار مشکوک تھا اور اس کے کچھ ایسے دوست بھی تھے جنہیں انہوں نے اس کے ساتھ اکثر اکٹھے کچرے کے میدان کی طرف جاتے دیکھا تھا۔زینب کے گھر سے چند گز کے فاصلے پر قریبی بازار کورٹ روڈ پر الیکٹرونکس کی ایک دوکان ہے۔ اس کے مالک بابر علی جو ایک مقامی اخبار کے لیے لکھتے بھی ہیں انہوں نے حفاظت کی غرض سے دوکان کے باہر نگرانی کرنے والے کیمرے نصب کر رکھے ہیں۔ زینب کے گمشدگی کے دنوں میں معاملے کی تفتیش اور بچی کی تلاش کرنے والی ایک پولیس پارٹی کے ڈی ایس پی سے انہیں معلوم ہوا کہ زینب کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تو انہوں نے اپنے کیمروں کی ویڈیو فوٹیج کی چھان بین کی۔ان میں سے ایک کیمرہ کی فوٹیج میں زینب کو ایک شخص کے ساتھ جاتے ہوئے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر اس میں اس شخص کا چہرہ واضح نہیں تھا کیونکہ اس کے اوپر سکرین پر موجود ہندسے آ گئے تھے۔”بابر نے وہ ویڈیو پولیس کے حوالے کر دی۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ زینب کے گھر والی گلی کی نکڑ سے بائیں جانب بازار میں کھڑا شخص زینب کو کچھ اشارہ کرتا ہے جس کے بعد وہ دوڑ کر اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ وہ زینب کو ساتھ لیے ایک عقبی تنگ گلی میں غائب ہو جاتا ہے۔بابر کے مطابق پولیس ان کا ڈی وی آر یا فوٹیج محفوظ کرنے والا آلہ بھی ساتھ لے گئی تھی جو تا حال انہیں واپس نہیں ملا۔ اس میں سات روز تک کا ڈیٹا محفوظ رہتا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اس کہ علاوہ بھی ان کے کیمروں سے لی گئیں ویڈیوز میڈیا میں منظرِ عام پر آئیں تاہم ان میں نظر آنے والا شخص ملزم نہیں تھا۔
پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...
پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...
دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...
تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...
زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...
8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...
دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...
مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...
پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...
مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...
بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...
ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...