... loading ...
جرات رپورٹ
بلوچستان میں کئی دن سے جاری سیاسی کشمکش اورغیریقینی صورت حال کا وزیر اعلی نواب ثنااللہ زہری کے استعفے سے کسی حدتک خاتمہ ضرورہوگیا لیکن سیاسی بحرا ن برقرارہے ۔ اس حوالے سے اگریہ کہاجائے توغلط نہیں ہوگاکہ نواب ثناء اللہ زہری نے وزارت اعلی کے عہدے کی قربانی دے کر بلوچستان اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچا لیا۔ بلوچستا ن میں حکومتیں گرائے جانے کی روایت خودن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے سرداراخترمینگل کی حکومت گرا کر ڈالی۔ اس کے بعد یہ رویت چل پڑی بلوچستان کی حالیہ صورت حال خودن لیگ کی ہی پیداکردہ ہے ۔بلوچستان اسمبلی میں دو جنوری کوو عدم اعتماد کی تحریک چلی تھی حکومت میں شامل کئی ن لیگی اراکین اوروزراء اپنی ہی جماعت وزیراعلی کوہٹانے پرتل گئے ۔ اس ساری صورت حال میں ن لیگ کی مرکزی قیادت خاموش تماشائی بنی رہی ۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کوئٹہ آئے ضرورلیکن تحریک عدم پیش کیے جانے سے صرف ایک دن قبل ان کی آمد وروانگی باغی اراکین پرکوئی خاص تاثرقائم نہ کرسکی اوروہ خالی ہاتھ واپس جاتے ہوئے نواب ثنا ء اللہ زہری کومستعفی ہونے کامشورہ ضروردے گئے جس پرانھوں نے فوری عمل بھی کیا اورگورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بھی ان کا استعفیٰ منظور کرنے میں دیرنہیں لگائی ۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے اس طرح اچانک مستعفی ہونے سے یہی واضح ہوا ہے کہ انہیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کا یقین تھا‘ لہٰذا انہوں نے سوچا ہو گا کہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے سے بہتر ہے‘ خود ہی دستبردار ہو جائیں۔ ان کے مستعفی ہونے کے باعث اپوزیشن اور ان کی اپنی جماعت کے منحرف ارکان کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی‘ لیکن یہ بات بہرحال قابل غور ہے کہ آیا اس کے نتیجے میں اس صوبے میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ختم ہو گیا اوراسمبلی بھی تحلیل ہونے سے بچ گئی ہے اور زہری کی جگہ جو رکن اسمبلی وزیرِ اعلیٰ کی مسند پر بیٹھے گا‘ اسے حکومتی ارکان کا مکمل اعتماد اور تعاون حاصل رہے گا اور وہ حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے تک اس عہدے پر برقرار رہ سکے گا؟ ان سارے معاملات کے بارے میں فی الحال کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی‘ لیکن اگر ایسا ہوا‘ یعنی نیا وزیر اعلیٰ لایا گیا اور وہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے تک اپنی سیٹ پر برقرار رہا تو ان حلقوں اور افراد کے تجزیے غلط ثابت ہو جائیں گے‘ جو بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں سیاسی بحران بالقصد پیدا کیا گیا‘ اور اس کا مقصد بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنا ہے تاکہ اس کی بنیاد پر باقی صوبائی اسمبلیاں بھی توڑی جا سکیں اور اس طرح امسال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں حکمران جماعت کو اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
اگرچہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ وضاحت کر چکا ہے کہ صوبائی اسمبلی برخاست ہونے سے سینیٹ الیکشن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ بروقت ہوں گے۔ بلوچستان کی سینیٹ نشستوں پر الیکشن بعد میں بھی کرایا جا سکتا ہے مگر یہ خدشہ موجود تھا کہ معاملہ بلوچستان اسمبلی پر نہیں رکے گا بلکہ دوسری صوبائی اسمبلیاں اور بعد ازاں قومی اسمبلی بھی اس کی زد میں آئے گی۔یاد رہے کہ بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں مسلم لیگ ق کی 5، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کی 14، نیشنل پارٹی کی 11 اور مسلم لیگ نون کی 21 نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ نون، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق اتحادی ہیں۔ ایوان میں مجلس وحدت المسلمین کی ایک نشست ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) 8 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے۔ اپوزیشن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی 2، اور اے این پی کی ایک نشست ہے۔ اگر آئینی تقاضوں کے مطابق پْرامن طریقے سے نیا وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا گیا تو بلوچستان میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران خود بخود ختم ہو جائے گا۔ بلوچستان کے معاملات پر غور کے لیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر اعلیٰ کے مستعفی ہونے کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ یہ سارے صلاح مشورے اپنی جگہ‘ لیکن یہ واضح ہے کہ بلوچستان میں اکثریتی پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود نواز شریف اپنے وزیر اعلیٰ کو نہ بچا سکے‘ یعنی ثنااللہ زہری پر عدم اعتماد کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکان کو رام کرنے اور تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے پر رضا مند کرنے میں ناکام رہے۔
دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ اور برسرِ اقتدار جماعت کے باغی ارکان میں اختلافات گہرے ہیں؛ چنانچہ یہ سوال اہم ہے کہ اگلا وزیر اعلی صوبے کے معاملات کو ہموار طریقے سے آگے لے جانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا ایک آئینی اور جائز طریقہ ہے؛ لیکن یہ عام طور پر اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جاتی ہے‘ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف یہ تحریک پیش کرنے والوں میں کچھ حکومتی ارکان کا شامل ہونا مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ معاملات اس نہج تک کیوں پہنچے اور جب صورتحال خراب ہو رہی تھی تو اس وقت اس کو سدھارنے اور بہتر بنانے پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔
دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری کے استعفے کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ کم و بیش 15 اراکین صوبائی اسمبلی کے ‘باغی دھڑے’ کے فیصلے کا انتظار کرے گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اگلے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب کیلیے کس امیدوار کی حمایت کی جائے۔منگل (9 جنوری) کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے نواب ثنااللہ زہری کی جگہ سنبھالنے کے لیے سابق وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی، سابق وزیر اعلیٰ صالح بھوتانی اور نوابزادہ چنگیز مری کو امیدوار قرار دیا جا رہا ہے تاہم مسلم لیگ ن کے باغی دھڑے اور نیشنل پارٹی دونوں کے حمایت یافتہ سرفراز بگٹی کو عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جان اچکزئی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی حمایت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی۔ پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کرے گی کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جائے یا پھر اپوزیشن میں بیٹھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی بڑی کامیابیوں کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا پایا جا سکے۔وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی باغی اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ قانون دانوں کی جانب سے پارٹی ڈسپلن کی کہاں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اگر انہوں نے پارٹی کے وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کے خلاف ووٹ دیا تو صرف اسی صورت میں ان کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا سوال اٹھتا ہے۔ ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم اسے مناسبت سے اپنا فیصلہ کریں گے۔
سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ باغی اراکین اسمبلی کو اپنی شکایات پارٹی قیادت کے پاس لے کر آنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہم انتظار کریں گے اور دیکھیں گے کہ 15 سے 16 ووٹوں کے حامل یہ لوگ آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اور اسی حساب سے اپنی حکمت عملی طے کریں گے۔حکمران جماعت کا اصرار ہے کہ بلوچستان میں جاری قیادت کے بحران کا آنے والے سینیٹ انتخابات کے نتائج پر برا اثر نہیں پڑے گا اور پرویز رشید نے آئندہ دس دنوں کو انتہائی اہم قرار دیا تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جا سکے کہ کہیں ثنااللہ زہری کو عہدے سے پٹانے میں ‘دیگر عناصر’ تو ملوث نہیں۔ادھر جان محمد جمالی کی قیادت میں کام کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے باغی دھڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں ثنااللہ زہری کے جانشین کا انتخاب کر لیں گے۔منگل کی رات نجی ٹی وی چینل گفتگو کرتے ہوئے جان محمد جمالی نے کہا کہ اگلے وزیرِاعلیٰ کا انتخاب ہم کریں گے۔ ہمیں مسلم لیگ ن کے 15 سے زائد قانون دانوں کی حمایت حاصل ہے اور اس سلسلے میں پارٹی اور اتحادیوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکشاف کیا کہ وہ اس معاملے پر پارٹی سربراہ نواز شریف سے متفق نہیں تھے۔ ‘نواز شریف بلوچستان سے زیادہ پنجاب کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ میں مسلم لیگ کا ہی حصہ رہوں گا کیونکہ میرا خاندان 1933 سے اس پارٹی سے منسلک ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا انتخاب لاہور میں نہیں کیا جائے گا۔بلوچستان اسمبلی میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے صدر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے اعتبار سے مسلم لیگ 21 سیٹوں کے ساتھ پہلے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی 14 سیٹوں کے دوسرے اور نیشنل پارٹی 11 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمان) کی آٹھ، مسلم لیگ ق کی پانچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کی دو جبکہ مجلس وحدت المسلمین، بی این پی عوامی اور آزاد امیدوار کی ایک ایک سیٹ ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ بلوچستان کا آئندہ وزیر اعلیٰ ان معاملات پر توجہ مبذول اور مرکوز رکھے گا‘ جو زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کا باعث بنے۔
پاکستان اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانا افغانستان کی ذمہ داری ہے،پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیے اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے، وزیراطلاعات افغان طالبان دوحا امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل...
اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس ...
اپوزیشن ستائیسویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے ، امیر جماعت اسلامی جو ایسا کریں گے انہیں ترمیم کا حمایتی تصور کیا جائے گا،مردان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے ستائیسویں ترمیم پر اپوزیشن حکومت سے کس...
صاحبزادہ حامد رضا پشاور سے فیصل آباد کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی مقدمہ میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی،قائم مقام چیئرمین کی تصدیق سنی اتحاد کونسل کے چیٔرمین صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر لیا گیا۔سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی ...
27ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ تیار، آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی عدالت، ججز کی مدت 70 سال، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات دینے کی تجویز، بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا،ذرائع این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیٔر کم کرکے وفاق کا حصہ بڑھانے، تعلیم و صحت کے شعبے وفاقی حکومت کو دینے ک...
اپوزیشن سے مل کر متفقہ رائے بنائیں گے،معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے ٹرمپ نے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا،اسرائیل ک...
وزیراعظم سے خالد مقبول کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 رکنی وفد کی ملاقات وزیراعظم کی ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو 27 ویں ترمیم میں شامل کرنیکی یقین دہائی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے 27 ویں ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے...
اب تک ترمیم کا شور ہے شقیں سامنے نہیں آ رہیں،سود کے نظام میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہمارا نعرہ بدل دو نظام محض نعرہ نہیں، عملی جدوجہد کا اعلان ہے، اجتماع گاہ کے دورے پر گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اب تک ستائیسویں ترمیم کا شور ہے اس کی شقیں سامنے نہیں ...
موصول شدہ چالان پر تاریخ بھی درج ،50 ہزار کے چالان موصول ہونے پر شہری نے سر پکڑ لیا پانچوں ای چالان 30 اکتوبر کو کیے گئے ایک ہی مقام پر اور2 دوسرے مقام پر ہوئے، حکیم اللہ شہر قائد میں ای چالان کا نظام بے قابو ہوگیا اور شہری کو ایک ہی روز میں 5 چالان مل گئے۔ حکیم اللہ کے مطابق...
پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، ترمیم کا حق ان اراکین اسمبلی کو حاصل ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ، محمود اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں،بیرسٹر گوہر صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا،وزیراعلیٰ کے پی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے قو...
اسپیکر قومی اسمبلی نے اتفاق رائے کیلئے آج تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاسشام 4 بجے بلا لیا،ذرائع پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف ، اتحادی جماعتوں کے چیف وہپس اورپارلیمانی لیڈرز کو شرکت کی دعوت پارلیمنٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق...
اسد قیصر، شبلی فراز، عمر ایوب، علی نواز اعوان کے وارنٹ گرفتاری جاری انسداددہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے انسداددہشت گردی عدالت اسلام آباد نے تھانہ سی ٹی ڈی کے مقدمہ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئ...