... loading ...
کچھ دن پہلے خالد قیصر صاحب نے فون پر بتایا کہ اُن کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’تم چلے آؤ‘‘ کا مسودہ تیار ہے تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ابھی تو کراچی کے ادبی حلقوں میں اُن کے پہلے مجموعۂ کلام ’’ہندسوں کے درمیان‘‘ کی پذیرائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اور انہوں نے دوسرا مجموعۂ کلام بھی مرتب کر لیا۔گویا موصوف تخلیقی وفور سے متصف ہیں۔مذکورہ پہلا مجموعہ بھی نظر نواز ہوا تھااور اُس پر راقم الحروف نے سہ ماہی غنیمت میں مختصر تبصرہ بھی کیا تھا۔ بصارت کے علاوہ اُن کی غزلیںسماعت کے وسیلے سے بھی کراچی کے مشاعروں میں مجھ تک پہنچتی رہی ہیں ۔ اب زیر نظر مجموعۂ کلام کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ فنی اور فکری طور پر یہ پہلے کہے گئے کلام ہی کا تسلسل ہے۔’’تم چلے آؤ‘‘ نام میں جو سادگی اور غنائیت ہے بلا شبہ وہ روحِ کلام کہی جا سکتی ہے جو پورے کلام میں رواں دواں ہے۔اگرچہ اب وہ تاثراتی تنقید پر مبنی مضامین بھی لکھ رہے ہیں مگر اُن کی پہچان کا بنیادی حوالہ شاعری ہی ٹھہرتا ہے۔انہوں نے متفرق موضوعات مثلاََ اتحاد ملت، راجپوت برادری، ہلالِ عید ،استاد اذفر زیدی،اپنی قوم سے متعلق نظمیں اور چند قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں مگر فی الوقت درج ذیل سطور میں ہمارا موضوع اُن کی غزل ہے۔ مسودے کا سرسری جائزہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ صاحب کتاب کا محبت کرنے کا اپنا انداز ہے اور اس سلسلے میں اپنا مکتب فکر ہے ۔محبت، ہجرو فراق اور اُس کے نتیجے میںجنم لینے والی دل خراش تنہائی، انتظار،حسرت وشوقِ دید،بے اعتنائی کا شکوہ،حسن و جمال یار کے تذکرے اس انداز سے کیے ہیں کہ خمِ کاکل بھی دل کی دنیا کو برہم کر دے۔ مناظر فطرت میں محبوب کی جلوہ سامانیاں اور رعنائیاں کتاب کا بنیادی موضوع ہیں۔ صاحب کتاب خالد قیصر اُسے ’’آفتابِ حُسنِ طلسمات‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔اُس شوخ کی مسکراہٹ اُن کے دل پر بجلیاں گراتی ہے، حافظ شیرازی کی طرح محبوب کے تل پرسمر قند و بخارا صدقے کرنے والوں میں سے ہیں۔ محبت میں انا کے نہیں مکمل سپردگی، شیفتگی اور وارفتگی کے قائل ہیں کہ محبوب کے دل میں گھر کرنے کی خواہش نا تمام انگڑائیاں لے رہی ہے ۔زمانے میں اسیر زلف جاناں کی سند پانا چاہتے ہیں۔اُس کی محبت کو پاؤں کی زنجیر کرنا چاہتے ہیں۔موصوف کی خوشی اور غم کا تصور بھی مرضی محبوب سے مشروط ہے۔عشق اُن کا مسلک ہے ۔یہ جگ بیتی نہیں دل کی بات ہے۔ اُن کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ جذباتِ محبت کا بدل خلوص و مہر ہی کی صورت میں مل جائے۔
دل کے معاملات میں قید نہیں ہے کوئی بھی
اُن کو بھی اختیار ہے مجھ کو بھی اختیار ہے
اے ذوقِ طلب کون سی منزل پہ کھڑا ہوں
اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے
انہوں نے وہ علامتیں استعمال کی ہیں جو ایک زمانے میں مقبول عام تھیں۔ ساغر، میخانہ، ساقی، میکش، جنوں ، داماں، چاک گریباں، حجاب، نقاب، آشیانہ ، چار تنکے ، بجلی،گردش جام وغیرہ۔وہ روایت سے جُڑے ہوئے ہیں مگر انہوں نے شعری تجربات یا صنعتوں کا استعمال نہیںکیا ، اس لیے کہ وہ عصر حاضر کے شاعر ہیں۔ دوسری طرف موجودہ عہد کے شعرا کی طرح مشکل ردیف وقوافی بھی استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے ہم عصروں کی طرح مشکل ترکیبیں اور کثرت سے اضافتیں استعمال نہیں کی ہیں ۔ روایتی مضامین باندھے ہیں مگر سادگی، روانی اور رعنائی کے ساتھ۔وہ لفظ پرستوں کی ظاہر دار دنیا سے کوسوں دور ہیں۔انہوں نے پرانی علامتیں استعمال کی ہیں مگر اپنی قلبی صداقتوں کے اظہار کے لیے۔ اس لیے قاری کو کہیں کھوکھلا پن محسوس نہیں ہو گا۔ایک اور بات یہ کہ اُن کی شاعری میں رندی و سر مستی تو ہے۔بیانِ عشق میں سپردگی،ہجراور کوچہ جاناں میں رسوائی و خواری کے مضامین بھی ہیں مگر روایتی عشاق مثلاََ لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا ، شیریں فرہاد وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا۔اس کے علاوہ رقیب، ناصح، محتسب، پیر مغاں اور شیخ جی بھی ندارد ہیں۔ اُن کی ذہنی فضا کو جذبہ عشق کی نیرنگیوں نے سجا رکھا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ بہر حال غزل کے مزاج آشنا ہیں اور روایت کو سلیقے سے برتتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹوٹتے بکھرتے خوابوں کو غزل کے طاق پر محض رکھا ہی نہیں ہے، غزل کی روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، سلیقے سے سجا کر رکھا ہے۔اُن کو داد دینی چاہیے کہ ایک بنیادی موضوع جو بہر حال محبت ہے ، یہ اُن کی فنی اور فکری استعداد ہے کہ اُس کی ایک کیفیت، سرشاری اور والہانہ پن کو کس کس رنگ، کس کس زاویے اور کس کس خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔موضوع کی محدودیت کے باوجود خوب طبع آزمائی کی ہے، جاذبیت پیدا کی ہے، رنگ بھرے ہیں اور نئے نئے ڈھنگ سے اشعار کہے ہیں۔
تیری آنکھوں کا نشہ کچھ اور ہے
شہر میں یوں تو ہیں مے خانے بہت
چار تنکوں کے گھر میں رہتا ہوں
زد میں بجلی کے آشیاں کیوں ہے
اثر آفرینی کلام میں قلبی واردات کے بیان سے پیدا ہوتی ہے۔ دل کا درد ہی ہر آواز میں سوز و ساز کا سبب ہو تا ہے۔ صاحب کتاب کی کئی غزلیں مکمل سوز و گداز کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں، غم کے اشکوں سے گندھی ہوئی ہیں۔کئی اشعار میں شدّت سے محسوس ہوا ہے کہ کہیں غمِ جاناں اور اس کی بخشی ہوئی تنہائی سے گھبرا کر وہ اُسے بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں۔ اس مقام پر بہاروںکی طلب میں اُن کا دل گریہ کرتا ہے۔ اُن کے ہاں عاشقانہ جذبات کی شدت میں بڑا اعتدال ہے جس نے جذباتیت کی بجائے جذبے کو جنم دیا ہے۔ جو بھی شاعر خالد قیصر کی طرح الفاظ کے تہ بہ تہ مفاہیم ، اُن کے تاثر، روایت کی ادبی قدروں سے واقف ہو ، خاموش طبع ہو مگر اس بات سے آگاہ ہو کہ قلبی واردات کو کس طرح اشعار کا جامہ پہنانا ہے، جو محبت میں شکست خوردہ اور نارسا ہو مگر حوصلے سلامت رکھتا ہو، وہ جب بھی کچھ کہے گا لطیف اور دل گداز پیرائے میں کہے گا۔
جب دل میں کوئی درد نہیں راز نہیں ہے
آواز میں بھی سوز نہیں ساز نہیں ہے
اشک آنکھوں سے اس طرح نکلے
شمع پگھلی ہے جیسے جل جل کر
اُن کے فن کے اِس پہلو کی صراحت ضروری ہے کہ وہ جناب اذفر زیدی کے تلامذہ میں سے ہیں۔انہوںنے باقاعدہ اصلاح لی ہے۔ایسے ہی شعرا کی وجہ سے استادی شاگردی کا ادارہ ابھی زندہ ہے۔ اگرچہ ( فاعلاتن، مفاعلن، فعلن) اُن کی پسندیدہ بحر ہے اور اُن کی زیادہ تر غزلیں اِسی بحر میں ہیں مگر اس کے علاوہ بھی انہوں نے کوئی سترہ بحور اپنے کلام میں استعمال کی ہیں۔وہ شعری اُفق پر قدرے دیر سے نمایاں ہوئے ہیں مگر عرصہ درازسے علم و ادب سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ مجموعہ بلا شبہ اُن کی فنی ہُنر مندی اور چابک دستی کا ثبوت ہے۔ خالدقیصر نے مختصر اور طویل دونوں طرح کی بحور میںکامیابی سے اظہار کیا ہے۔اُن کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی ٹھہرتی ہے مگر زیر نظر مجموعے میں چند قطعات، رباعیات اور پابند نظمیں بھی شامل ہیں۔اس لیے میں اِسے غزلوں کا مجموعہ ہی کہوں گا۔
اُن کے ہاں مصنوعی مضمون آفرینی نہیں ہے ۔کم کم ایسے مقامات ہیں جہاں انہوں نے غمِ دوراں کوموضوعِ سخن بنایا ہے۔ لیکن فی زمانہ زندگی چوں کہ بڑی تلاطم خیز ہو گئی ہے ۔ ہر روز ہماری ذاتی اور قومی حیات کو نت نئے حادثات کا سامنا رہتا ہے۔موصوف بھی اسی معا شر ے کا ایک حساس فرد ہیں ، اس لیے انہوں نے بھی کئی ایک مقامات پر جیون کی کٹھنائیوں کا ذکر کیا ہے۔ان متفرق موضوعات میں ’’دنیا کی بے ثباتی‘‘ بھی ہے ، جس پر ہر تخلیق کار کسی نہ کسی رنگ میں شعر ضرور کہتا ہے کہ جس چیز کا نام سکوں ہے دنیا میں کہیں نہیں۔ایک مسلسل تبدیلی اور تغیر ہے ۔ ہر شے ایک روز زوال آشنا ہو گی، وہ دولت ہو، طاقت ہو یا جاہ و حشمت۔ کسی دارا و سکندر کو دوام ہے نہ رستم و سہراب کو۔زمانہ سب کے کس بل نکال دیتا ہے۔چراغ جل جل کر بھی آخر گُل ہو ہی جاتے ہیں ۔چند ا شعار کلام میںایسے موجود ضرور ہیں۔
زمانے نے ہر ایک کے خم نکالے
ہوئے کتنے رستم یا سہراب کتنے
ہم غمِ دوراں کے ہیں مارے ہوئے
بازی عشق و وفا ہارے ہوئے
ظاہر ہے اُن کا کلام اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اُن کا رجحان عصر رواںکی کلی ترجمانی نہیں کرتا۔تنوع زیادہ نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی اس بات کا دعوی کرہی نہیں سکتا کہ اُس نے زندگی کی ہر فصل بہاراںاور پت جھڑ کا بغور مشاہدہ کر لیا ہے اور ساری گہرائیوں اور پہنائیوں کو اشعار میں سمو لیا ہے۔ایک شخص کتنا بھی وقت کا ارسطو کیوں نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ۔وہ بس اپنی زندگی، اس کے متعلقات اور گرد و پیش کا بساط بھر احاطہ کرتا ہے اور ایسی شاعری گہری فکر کی منت کش بھی نہیں ہوتی۔خالد قیصر کے کلام کی اہمیت اُن کی سادہ کاری، غنائیت ، شعریت اور بالکل راست انداز میں تصنع اور بناوٹ سے مبرا اسلوب کی وجہ سے ہے۔اُن کی شاعری آرزو اور شکست آرزو سے عبارت ہے۔ شکستہ خوابوں کی کرچیوں نے دیدۂ خوش خواب کو چشمِ پُرنم کر دیا ہے۔بے شک وہ میر کی سادگی اور سپردگی کے قائل تو ہیں۔ اُن کے ہاں دوری اور مہجوری بھی ہے ۔اُن کے کلام میں کچھ روایتی علامتیں اور مضامین بھی دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کلام میں اپنے احساسات، جذبات، خیالات، اپنی عقیدت، محبت، سوچ ،اپنا کرب اور عشق پیش کیا ہے۔ وہ میر ہیں نہ درد، وہ مومن ہیں نہ غالب۔وہ ــ’’خالد قیصر‘‘ ہیں اور انہوں نے خود کو اپنے قاری کے سامنے’’ خالد قیصر‘‘ ہی کے طور پر پیش کیا ہے۔
٭ ٭ ٭
3 سال تک ڈائیلاگ کی کوشش کرتا رہا، بات چیت سیاسی مسائل کے حل اور جمہوریت کیلئے ہونی چاہیے، ہماری پارٹی میں کوئی تقسیم نہیں ہے، پارٹی قائدین اور کارکنوں کو سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کیلئے ہدایت ہمارا فیصلہ اٹل ہے استعفے واپس نہیں لیںگے، ارکان اسمبلیگاڑیاں، ڈرائیور ...
حملے کے بعد سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان کئی گھنٹے تک شدید فائرنگ کا تبادلہ ،علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں سے قریبی آبادی شدید متاثر، کئی گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں،آئی جی خیبر پختونخوا ایف سی لائن بنوں پر دہشت گردوں کے ایک ...
پی ٹی آئی اراکین حاضری لگانے کے بعد واک آؤٹ کرگئے، رہا کرو رہا کرو، عمران خان کو رہا کرو کے نعرے لگائے عوامی اسمبلی کا اگلا اجلاس جمعہ کے روز ہوگا(بیرسٹر گوہر) اسمبلی میں غیر منتخب لوگ بیٹھے ہیں ، اسد قیصر،ملک عامر ڈوگر پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ ک...
جعلی انتخابات کا حصہ نہیں بنوں گی، پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ دوٹوک پیغام ہے،اہلیہ سلمیٰ اعجاز سینیٹ میں اعجاز چوہدری کی خالی نشست کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا جائے گا،پی ٹی آئی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ کے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعل...
دیگر صوبے بھی حصہ ڈالیں تاکہ منصوبہ ممکن ہوسکے، ڈیم نہ بننے کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب سے اتنی زیادہ تباہی ہوئی ہے کالا باغ ڈیم ریاست کیلئے ضروری ہے ، جن کو تحفظات ہیں اُن سے بات کی جائے،پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ک...
صو بائی اور وفاقی حکومتیںادویات اور دیگر ضروری طبی سامان فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں روانہ کریں زلزلے میں جاں بحق افراد کیلئے دعائے مغفرت، پاکستان اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری نبھائے، قرارداد خیبرپختونخوا اسمبلی نے افغانستان میں زلزلے سے ہونے والے زخمیوں کو طبی امداد فراہم ک...
بھارت نے سلال ڈیم کے تمام گیٹ کھول دیے ،پانی چھوڑنے کی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی، پنجاب ہیڈ مرالہ کے مقام پر بڑے سیلاب کا خدشہ ، تریموں ہیڈ ورکس کے مقام پر پانی کی آمد میں مسلسل اضافہ سلال ڈیم کے گیٹ کھولنے سے 8لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا پاکستان پہنچے گا، پنجاب کے تین...
9 لاکھ کیوسک کا ریلا بھی آیا تو کچے کا پورا علاقہ ڈوب جائے گا، لوگوں کا انخلا کریں گے ، انسانی زندگی اور لائیواسٹاک کا تحفظ ہماری ترجیح ہے ، کچے کے لوگوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے 8لاکھ سے 11لاکھ کیوسک پانی آئے گا ، اگر 9لاکھ کیوسک کا ریلا آیا تو شاہی بند کو خطرہ ہے ، ...
انٹرنیشنل میڈیکل سینٹر ، پاک چین جوائنٹ لیب منصوبوں کومزید فعال بنایا جائے، شہباز شریف وزیراعظم کی نیشنل ارتھ کوئیک سمیولیشن سینٹر میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریسکیو ٹیکنالوجیز پر بریفنگ وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے قومی...
چنیوٹ، وزیرآباد، گجرات، ننکانہ صاحب ، نارووال میں صورت حال مزید خراب دریاؤں میں طغیانی برقرار،پاکپتن، اوکاڑہ، وہاڑی، ملتان میں بھی بارش ریکارڈ پنجاب کے مختلف شہروں میں کئی گھنٹوں سے جاری موسلادھار بارش نے سیلاب میں ڈوبے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کر دیا، متعدد علاقے بجلی س...
پنجاب کو 4دہائیوں کے تباہ کن سیلاب کا سامنا، سیکڑوں دیہات کو تہس نہس کر دیا اور اناج کی فصلیں ڈبو دیں،چناب سے بڑا سیلابی ریلہ جھنگ میں داخل، رواز برج کے قریب شگاف لگا دیا گیا،پی ڈی ایم اے ہر متاثرہ خاندان کو 10 لاکھ معاوضہ ملے گا،گھوٹکی میں سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی گنا،کپ...
سیلاب سے متاثرہ تمام مذہبی مقامات کو اصل حالت میں بحال کیا جائیگا، سیالکوٹ سیکٹر، شکرگڑھ، نارووال اوردربار صاحب کرتارپور کے علاقوں کا جائزہ لیا،سید عاصم منیر کی متاثرہ سکھ برداری سے ملاقات اقلیتوں اور ان کے مذہبی مقامات کا تحفظ ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ، پا...