وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسٹولا : پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ

اتوار 17 دسمبر 2017 اسٹولا : پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ

ظریف بلوچ
مکران کے ساحلی علاقے قدرتی حسن سے مالا مال ہیں اور یہاں سمندری معدنیات کے وسیع ذخائر زمانہ قدیم سے موجود ہیں جبکہ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکران کے سمندر میں تیل اور گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ جیوانی سے گڈانی تک پھیلا ہوا سمندر تاریخی، جغرافیائی اور عسکری حوالے سے ایک اہم خطہ ہے۔ ساحلِ مکران کے دیدہ زیب حسن میں ایک جزیرہ ’’اسٹولا‘‘ بھی شامل ہے۔ اسٹولا جزیرہ تاریخی، جغرافیائی اور عسکری حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ جزیرہ نہ صرف قدرتی حسن کے دلفریب مناظر کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہاں نایاب نسل کی سمندری مخلوقات پائی جاتی ہیں اور اسٹولا کو مونگے کی چٹانوں (coral reef) کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کئی اقسام کے کورل ریف موجود ہیں۔
بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے 39 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف واقع اسٹولا جزیرہ پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ ماہرین اسے ایک درمیانے درجے کا جزیرہ کہتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے ’’ہفت تلار‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہفت تلار بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ایسی ’’سات چوٹیاں‘‘ ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اس نام کے بارے میں مقامی لوگوں کی مختلف آراء ہیں اور جب میں نے مقامی لوگوں سے پوچھا تو اْن کا کہنا تھا کہ یہ نام ان سے کئی نسلوں پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یعنی ہفت تلار کا نام کئی نسل پہلے کے لوگوں نے رکھا تھا۔
ماضی بعید میں یہ ساحلی علاقہ نہ صرف ایک تجارتی مرکز تھا بلکہ تجارتی گزرگاہ کا درجہ بھی رکھتا تھا۔ یہاں زیادہ تر ہندو اور اسماعیلی لوگ کاروبار اور تجارت کیا کرتے تھے۔ مکران کے ساحلی شہر پسنی سے اسٹولا کا سفر کشتیوں سے تین سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے جبکہ اسپیڈ بوٹ پر اسٹولا کا سفر ایک گھنٹے سے کم کی مسافت پر ہے۔ اسٹولا جانے والے سیاحوں کو اسپیڈ بوٹ کی بکنگ پسنی ہی سے کروانی پڑتی ہے۔ کراچی سے سیاحوں کی بڑی تعداد اسٹولا کی سفر کو آتی ہے۔
اسٹولا جزیرہ 6.7 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جس کی لمبائی 6.7 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 2.3 کلومیٹر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 246 فٹ تک بلند ہے۔ اسٹولا کی قدیم تواریخ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے انسانوں کی آمدورفت تھی۔ اسٹولا کی دریافت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ 325 قبل مسیح کے یونانی دور میں یہ جزیرہ دریافت ہوا لیکن اس کی تصدیق میں تاریخی دستاویز دستیاب نہیں۔ مکران کے ساحلی علاقوں میں آنے والے زلزلوں سے اسٹولا کا پچھلا حصہ سمندر برد ہوتا جارہا ہے اور سمندر کی تیز لہروں کے بھی جزیرے کے عقبی حصے سے ٹکرانے کی وجہ سے اس کا ایک حصہ سمندر کی نذر ہوتا جارہا ہے جس کے باعث جزیرے پر پڑنے والی بڑی دراڑیں بھی نمایاں نظر آنے لگی ہیں۔
پانچویں صدی عیسوی کے معروف یونانی مؤرخ ’ہیروڈوٹس‘ نے اپنی مرتب کردہ تواریخ میں مکران کا ذکر کرتے ہوئے اس ساحل کے قریب جن چار جزیروں کی نشاندہی کی ہے ان میں ایک اسٹولا بھی تھا۔ یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جن چار جزیروں کی ہیروڈوٹس نے نشاندہی کی تھی، ان میں سے تین سمندر برد ہو چکے ہیں جبکہ اسٹولا چوتھا جزیرہ ہے، جو آج بھی موجود ہے۔
یونانی تاریخ میں غالباً مکران کے جس جزیرے کو ’’نوسالا‘‘ کہا گیا ہے، وہ آج کا اسٹولا ہے۔ یونانیوں کے مطابق اس جزیرے پر دیوی ’افریدس‘ کا گھر تھا اور جب بھی کوئی کشتی جزیرے کے قریب سے گزرتی تو افریدس، کشتی پر موجود لوگوں کو مچھلی بنا کر سمندر میں چھوڑ دیتی تھی۔
تاریخ میں ایک اور روایت یہ ہے کہ سکندرِاعظم کی مقدونیائی بحری فوج جب یہاں پہنچی تو اس فوج کے سربراہ کے مطابق اس جزیرے میں بیش بہا قیمتی ہیرے اور جواہرات موجود تھے۔ اس کے بعد مصر اور یونان سے بڑی تعداد میں بیوپاریوں نے جزیرہ اسٹولا کا رخ کرلیا لیکن وہ ناکام ہوکر واپس چلے گئے۔ اگرچہ ہیرے جواہرات کا قیاس ناقص سہی، مگر آج کے دور میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے سمندر میں تیل و گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں جو مکران کے ساحل سے لے کر خلیج فارس تک جاتے ہیں۔ سمندر میں لاوا اْبلنے اور جزیرے نمودار ہونے کی ایک وجہ یہ ذخائر بھی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مکران کے ساحلی علاقوں میں میتھین گیس کے ذخائر موجود ہیں جن کے اچانک پھٹ پڑنے سے سمندر کی تہہ سے جزیرے نکلتے ہیں جو کچھ عرصے کے بعد واپس سمندر برد ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں گوادر کے قریب ایک جزیرہ برآمد ہوا ہے جبکہ ہنگول کے علاقے میں آتش فشاں پہاڑ بھی موجود ہیں جن پر ہر وقت لاوا ابلتا رہتا ہے۔
اسٹولا جزیرے کے بارے میں بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ یہ ایک زمانے میں باقاعدہ خشکی کا حصہ تھا جو ایک طاقت ور زلزلے کے بعد جدا ہو کر سمندر میں جا پہنچا۔ اس روایت سے ملحقہ اپنی رائے کی مضبوطی کے لیے وہ پسنی کے شمال میں سمندر کے کنارے پر موجود ’’ذرین‘‘ نامی پہاڑ کو اسٹولا کا بچھڑا ہوا حصہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب اسٹولا جزیرے کی قدیم تواریخ پر محدود تحقیق کی وجہ سے بعض آراء کی دستاویزی تصدیق ممکن نہیں۔ مقامی لوگ تعلیم اور تحقیق سے کم واقفیت کی وجہ سے اسٹولا کی تاریخ کے حوالے سے صرف روایت پر یقین رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں قدیم ادوار میں اسٹولا پر کی گئی تحقیق کا بیشتر حصہ غیرملکی مؤرخین اور محققین کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس کے برعکس اسٹولا کے بارے میں مقامی افراد یا تو سینہ بہ سینہ تواریخ پر انحصار کرتے ہیں یا روایات پر جو وہ نسل درنسل اپنے بزرگوں سے سنتے آرہے ہیں۔ ایسے میں اسٹولا کی درست تاریخ کا تعین خاصا مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔البتہ غالب امکان ہے کہ پسنی کی حالیہ آبادی دو سو سے تین سو سال سے یہاں موجود ہے جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پسنی سے ملحقہ علاقہ کلمت ماضی میں تجارتی حوالے سے اہم علاقہ تھا اور سولہویں صدی کے حمل جہند اور پرتگیزیوں کی جنگ سے اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔
عرب اسٹولا جزیرے کو ’’استالو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ہندو روایات میں اس کا نام ’ستادیپ‘ ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا عقیدہ ہے کہ ’’مہاکالی‘‘ المعروف ’’بھوانی‘‘ کا مندر اس جزیرے پر تھا اور مہاکالی ہر روز نہانے کیلیے یہاں سے ہنگلاج جایا کرتی تھی۔ اس وقت بھی اسٹولا جزیرے پر ہندوؤں کا ایک مندر موجود ہے جبکہ اس کے علاوہ پسنی شہر میں ہندوؤں کا کوئی بھی مندر موجود نہیں۔ (ہنگلاج میں ہندوؤں کا مندر ’نانی پیر‘ ہے جو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے ہنگول میں واقع ہے۔ یہاں ہنگول دریا بھی بہتا ہے۔ ہنگلاج میں ہر سال ہزاروں ہندو یاتری زیارت کے لیے آتے ہیں۔ ہندوؤں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ مہاکالی دراصل نانی پیر نامی عبادت گزار خاتون کو دیکھنے کیلیے جزیرہ اسٹولا سے ہنگلاج جاتی تھی۔)
اس جزیرے پر ساحل کے راستے داخل ہوتے ہی سامنے حضرت خضر سے منسوب ایک مزار آج بھی موجود ہے جس کے بارے میں مقامی روایت یہ ہے کہ وہ علاقے کو ناگہانی طوفانوں سے بچاتا ہے۔ اسٹولا کے علاوہ پسنی شہر کے دیگر مقامات پر بھی حضرت خضر کے مبینہ ٹھکانے موجود ہیں اور علاقے میں اس روایت کے ماننے والے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ حضرت خضر زندہ پیر ہیں۔
حکومت پاکستان نے 1982 میں جزیرے پر لائٹ ہاؤس سسٹم بھی نصب کیا تھا اور 1987 میں اس سسٹم کو شمسی توانائی سے منسلک کیا؛ آج جزیرے پر اس کی باقیات ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس سسٹم کی تنصیب کا مقصد یہاں سے گزرنے والے بحری جہازوں کا تحفظ تھا کہ وہ رات کے اوقات میں جزیرے سے ٹکرا نہ جائیں۔ مقامی ماہی گیر کہتے ہیں کہ ماضی میں راستہ تلاش کرنے میں یہ سسٹم کارآمد ثابت ہوا۔ اس وقت ماہی گیروں کے پاس جدید آلات کی کمی تھی اور یہ ساحل ایک اہم بین الاقوامی آبی گزرگاہ بھی ہے۔
اسٹولا جزیرے پر آبی پرندے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جبکہ اس جزیرے کا ساحل بعض آبی پرندوں کا قدرتی مسکن بھی ہے۔ سائبیریا سے ہر سال نقل مکانی کرکے مکران کے ساحل کا رخ کرنے والے آبی پرندے بھی اسٹولا کے ساحل کو اپنا عارضی ٹھکانہ بناتے ہیں جبکہ سردیوں کے موسم میں یہاں نایاب ہجرتی پرندے (مائیگریٹری برڈز) بھی آتے ہیں۔
اسٹولا جزیرے کے ساحل پر سبز کچھوے اور ہاک بل کچھوے بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ سبز کچھووں اور ہاک بل کچھووں کے بِل بھی ساحل کے قریب موجود ہیں جبکہ وہ انڈے بھی اسٹولا کے ساحل پر دیتے ہیں۔ حیاتیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ساحل سبز کچھووں کی افزائشِ نسل کا علاقہ (نیسٹگ ایریا) ہے کیونکہ یہ مکران کے دیگر ساحلوں کی نسبت خاصا محفوظ ہے۔ اسٹولا کے ساحل پر جا بجا سبز کچھووں کے بِل (نیسٹ) نظر آتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سبز کچھووں کی نسل دنیا بھر سے معدوم ہوتی جارہی ہے اور اس تناظر میں اسٹولا کے ساحل پر آبادی نہ ہونے کی وجہ سے یہ جگہ سبز کچھووں کو افزائشِ نسل کے لیے بہترین پناہ گاہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات پر شدید تشویش بھی ہے کہ یہاں آنے والے سیاح بحری حیات (میرین لائف) کے بارے میں آگہی نہ ہونے کے باعث سبز کچھووں کیلیے خطرہ بن رہے ہیں۔
اسٹولا کے ساحل کے قریب ماہی گیر بھی شکار کرتے ہیں اور وقتا فوقتاً ساحل پر کیمپ لگاتے ہیں جس سے سمندری مخلوق کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سبز کچھوے کی مادہ اس وقت انڈے دیتی ہے جب روشنی اور شور نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹولا کے جزیرے کو ماہرین سبز کچھووں کی بقاکیلیے بہترین مقام تصور کرتے ہیں۔ البتہ ماہرین اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ ماہی گیروں کے جالوں میں کچھوے پھنس جاتے ہیں اور امدادی انتظام نہ ہونے کے باعث ان میں سے بیشتر کچھوے مرجاتے ہیں۔ حال ہی میں حکومت پاکستان نے جون 2017 میں اسٹولا کو ’’میرین لائف پروٹیکٹڈ ایریا‘‘ قرار دیا ہے جہاں ہر اس عمل کی ممانعت ہے جس سے بحری حیات (میرین لائف) کو خطرہ ہو۔ اس ضمن میں اسٹولا پاکستان کا واحد میرین لائف پروٹیکٹڈ ایریا ہے۔
ماہرِینِ حیاتیات کا کہنا ہے کہ اسٹولا جزیرہ مونگے کی چٹانوں (Coral reefs) کا گھر اور مختلف الاقسام آبی حیات کیلیے بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ساحل بہت سی اقسام کے آبی پرندوں اور جانوروں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے جو مختلف اقسام کی آبی حیات کیلیے بہت ضروری ہے۔جزیرے کے قریب ماہی گیر اکثر شکار کرکے رات اسٹولا کے ساحل پر گزارتے ہیں مگر بعض ماہرین کی اس بارے میں رائے یہ ہے کہ جزیرے کے قریب ماہی گیروں کے جال کچھووں کیلیے نقصان دہ ہیں جو اْن کی نسل خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ کچھووں کی محفوظ افزائش نسل یقینی بنانے کیلیے ضروری ہے کہ جزیرے کے قریب شکار نہ کیا جائے اور جزیرے کے قریب سے جال کے ٹکڑے صاف کیے جاتے رہیں۔
اسٹولا جزیرہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں سیاح سیر کرنے اور ماہرین تحقیق کرنے آتے رہتے ہیں۔ تاہم سیاحوں کے کم تعداد میں یہاں آنے کی اہم وجوہ میں یہ باتیں بھی شامل ہیں کہ اسٹولا جانے والوں کو اپنی کیمپنگ خود کرنا پڑتی ہے اور بوٹ کی بکنگ بھی خود ہی کروانی ہوتی ہے۔ اسٹولا جزیرے پر میٹھے پانی کے ذخائر موجود نہیں اس لیے وہاں جانے والوں کو اپنے ساتھ میٹھا پانی بھی وافر مقدار میں لے جانا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جزیرے پر سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کیلیے اقدامات کرے مگر سیاحت یا کسی اور قسم کی سرگرمی کا انتظام کرتے ہوئے اس چیز کا خیال بھی رکھا جائے کہ جزیرے کے قدرتی حسن اور یہاں موجود آبی حیات بشمول پرندوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔


متعلقہ خبریں


بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

متحدہ عرب امارات میں طوفانی ہواں کے ساتھ کئی گھنٹے کی بارشوں نے 75 سالہ ریکارڈ توڑدیا۔دبئی کی شاہراہیں اور شاپنگ مالز کئی کئی فٹ پانی میں ڈوب گئے۔۔شیخ زید روڈ پرگاڑیاں تیرنے لگیں۔دنیا کامصروف ترین دبئی ایئرپورٹ دریا کا منظر پیش کرنے لگا۔شارجہ میں طوفانی بارشوں سیانفرا اسٹرکچر شدی...

بارش کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،دبئی، شارجہ، ابوظہبی تالاب کا روپ دھار گئے

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

کراچی میں بچوں کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں بیڈز ۔ ڈرپ اسٹینڈ اور دیگر طبی لوازمات کی کمی نے صورتحال سنگین کردی۔ ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا۔قومی ادارہ برائے صحت اطفال میں بیمار بچوں کے لیے بیڈز کی قلت کے سبب ایک ہی بیڈ پر ایمرجنسی اور وارڈز میں 4 او...

قومی ادارہ برائے صحت اطفال، ایک ہی بیڈ پر بیک وقت چار بچوں کا علاج کیا جانے لگا

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

سندھ حکومت کاصوبے بھرمیں کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ، مشیرکچی آبادی سندھ نجمی عالم کیمطابقمیپنگ سے کچی آبادیوں کی حد بندی کی جاسکے گی، میپنگ سے کچی آبادیوں کا مزید پھیلا روکا جاسکے گا،سندھ حکومت نے وفاق سے کورنگی فش ہاربر کا انتظامی کنٹرول بھی مانگ لیا مشیر کچی آبادی نجمی ...

سندھ حکومت کا کچی آبادیوں کی گوگل میپنگ کا فیصلہ

کراچی ، ڈاکو راج کیخلاف ایس ایس پی آفس کے گھیراؤ کا اعلان وجود - جمعرات 18 اپریل 2024

جماعت اسلامی نے شہر میں جاری ڈاکو راج کیخلاف ہفتہ 20اپریل کو تمام ایس ایس پی آفسز کے گھیراو کا اعلان کردیا۔نومنتخب امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی ہدایت پر کراچی میں اسٹریٹ کرائم بڑھتی واردتوں اور ان میں قیمتی جانی نقصان کیخلاف بدھ کو کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ...

کراچی ، ڈاکو راج کیخلاف ایس ایس پی آفس کے گھیراؤ کا اعلان

فوج اورعوام میں دراڑ ڈالنے نہیں دیں گے، آرمی چیف وجود - بدھ 17 اپریل 2024

کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے بشام میں چینی شہریوں پر بزدلانہ دہشتگردانہ حملے اور بلوچستان میں معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل ،غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جنگی جرائم اور نسل کشی کی مذمت ،مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر فریقین...

فوج اورعوام میں دراڑ ڈالنے نہیں دیں گے، آرمی چیف

ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے، لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے، عمران خان وجود - بدھ 17 اپریل 2024

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ایسے کمرے میں کروائی گئی جہاں درمیان میں شیشے لگائے گئے تھے۔ رکاوٹیں حائل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے کہا لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے۔ عمران خان نے بہاولنگر واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئ...

ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے، لگ رہا ہے ملک ٹوٹ رہا ہے، عمران خان

رمضان اور عید میں مرغن کھانوں کا استعمال، کراچی میں ڈائریا کے مرض میں خوفناک اضافہ وجود - بدھ 17 اپریل 2024

رمضان المبارک میں تیل میں پکے پکوان اور عید کی دعوتوں میں مرغن عذا کے سبب کراچی میں ڈائریا کے کیسز میں اضافہ ہوگیا۔ جناح اسپتال میں عید سے اب تک ڈائریا کے تین سو سے زائد مریض رپورٹ ہوچکے ہیں کراچی میں رمضان کے بعد سے ڈائریا کے کیسز میں معمول سے 10فیصد اضافہ ہوگیا ڈاکٹروں نے آلودہ...

رمضان اور عید میں مرغن کھانوں کا استعمال، کراچی میں ڈائریا کے مرض میں خوفناک اضافہ

نیا تجربہ کرنیوالے ایک دن بے نقاب ہوں گے، علی امین گنڈا پور وجود - بدھ 17 اپریل 2024

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ نیا تجربہ کرنے والے ایک دن بے نقاب ہوں گے، بانی پی ٹی آئی کے کیسز جعلی ہیں اور یہ نظام آئے روز بے نقاب ہورہا ہے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے راولپنڈی میں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدلیہ کا...

نیا تجربہ کرنیوالے ایک دن بے نقاب ہوں گے، علی امین گنڈا پور

سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ،امریکا، اسرائیل کی ایران کو دھمکیاں وجود - منگل 16 اپریل 2024

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل اور امریکا کے مندوبین نے تلخ تقاریر کیں اور ایران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں جس کے جواب میں ایران نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سلام...

سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ،امریکا، اسرائیل کی ایران کو دھمکیاں

جی-7اجلاس میں تہران پر پابندیوں کا فیصلہ وجود - منگل 16 اپریل 2024

جی-7ممالک کے ہنگامی اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان نے ایران کے حملے کے جواب میں اسرائیل کو اپنی مکمل حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد جی-7 ممالک امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس، بر...

جی-7اجلاس میں تہران پر پابندیوں کا فیصلہ

حکومت نے پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا وجود - منگل 16 اپریل 2024

حکومت نے ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 8روپے 14پیسے فی لیٹر تک اضافہ کردیا، پٹرول 4.53روپے فی لیٹر جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل 8.14روپے فی لیٹر مہنگا کیا گیا ہے۔قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول کی قیمت 289.41روپے سے بڑھ...

حکومت نے پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا

نئے قرض کے حصول کیلئے درخواست تیار،آئی ایم ایف کی پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی وجود - منگل 16 اپریل 2024

پاکستانی وفد آئی ایم ایف سے نئے قرض کے حصول کے لئے واشنگٹن پہنچ گیا ۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ پاکستان کیلئے نئے قرض کیلئے مذاکرات طویل اور مشکل ہوسکتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلینا جارجیوا نے اپنے بیان میں کہ...

نئے قرض کے حصول کیلئے درخواست تیار،آئی ایم ایف کی پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی

مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر