... loading ...
دنیا بھر میں خشک سالی کا شمار سب سے زیادہ پیچیدہ اور تباہ کن قدرتی آفات میں کیا جاتا ہے خاص طور پر ان علاقوں کے لیے جہاں کے باشندوں کا ذریعہ معاش زراعت ہو۔ پاکستان میں صوبہ بلوچستان کو ‘ڈراٹ پرون ایریا’ یعنی (خشک سالی کے خطرے میں گھرا علاقہ) کہا جاتا ہے جہاں ہر 8 سے 20 سال کے دوران ایک دفعہ خشک سالی کا دور لوٹ کر ضرور آتا ہے، البتہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اب اس میں شدت آتی جارہی ہے۔ عارضی یا مستقل خشک سالی کا براہ ِراست تعلق مٹی و ہوا میں نمی اور بارشوں کی اوسط سے ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں ہوا کا زیادہ دباؤ والا سسٹم چند ہفتوں یا مہینوں تک ٹہرا رہے تو وہاں آبی بخارات بننے کا عمل رک جاتا ہے کیونکہ آبی بخارات شدید دباؤ کے باعث متعلقہ بلندی تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جتنے عرصے تک یہ سسٹم اس علاقے میں ٹھہرا رہے گا، وہاں بارش یا برف باری کا سلسلہ بند اور شدید گرم و خشک موسم غالب رہے گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں میں ایک اہم کردار ‘ایل نینو’ کے اثرات نے بھی ادا کیا ہے، یہ نام بحرالکاہل کے پانیوں کے درجہء ِ حرارت میں غیر معمولی اضافے کو دیا گیا ہے۔ یہ عمل سالوں میں کبھی رونما ہوتا ہے ،جب پانی آخری حد تک گرم ہوکر بہت زیادہ توانائی ماحول میں خارج کر کے دنیا بھر میں موسمیاتی بگاڑ لاتا ہے۔ ہواؤں کا رخ الٹ کر، بادل اور طوفانِ باد و باراں کے سسٹم مشرق کی طرف منتقل کر دیتا ہے جس سے وہاں طوفانوں کی شرح بڑھ جاتی ہے ، جبکہ مغربی علاقے بارشوں کی قلت کے باعث خشک سالی کی زد پر رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ کاربن جذب کرنے والے قدرتی ذرائع مثلاً جنگلات، نباتات اور سمندروں پر منفی اثرات ڈال کر ان کی کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتا ہے جس سے متعلقہ علاقوں میں آلودگی اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔پاکستان کو اس وقت پانی کی شدید قلت کی صورت حال کاسامنا ہے ، اورماہرین کے ایک اندازے کے مطابق رواں سال ملک کو ربیع کی فصل کے دوران پانی کی شدید کمی کاسامنا کرناپڑے گا ،ملک کے دیگر علاقوں کے برعکس پانی کی قلت کاسب سے زیادہ شکار بلوچستان نظر آتا ہے، بنیادی طور پر بلوچستان کا وسیع علاقہ خشک اور بنجر پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ زراعت کے بعد یہاں کے با شندوں کا دوسرا بڑا پیشہ گلہ بانی ہے مگر قدرتی چراگاہوں میں کثرت سے مویشی چرانے کے باعث نباتات ختم ہوتے جارہے ہیں جو پودوں کے ذریعے پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے (ٹرانسپائیریشن)، اور نتیجتاً مٹی و ہوا میں نمی بر قرار رکھنے کا قدرتی ذریعہ تھے۔
بلوچستان کاعلاقہ نوشکی جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں واقع ہے جہاں 58 فیصد بارش موسم سرما میں ہوتی ہے۔ اس خطے کی حدود شمال میں خاران، مغرب میں چاغی، مشرق میں مستونگ، اور جنوب میں افغانستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک عشرے قبل تک یہاں سردیوں میں 250 سے 300 ملی لیٹر بارش ریکارڈ کی جاتی تھی جو اب مختلف موسمیاتی اور ماحولیاتی عوامل کی بدولت گھٹ کر 50 سے 125 ملی لیٹر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے جنوب مغربی بلوچستان کے متعدد علاقے صحراؤں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔مگر یہ خشک سالی بلوچستان کے ان علاقوں کے لیے نئی نہیں ہے۔ یہاں اس سے قبل بھی ایسے کئی خشک سالی کے دور آتے رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ طویل اور تباہ کن 1997 سے 2002 کا دور رہا، جس سے تقریباَََ 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور اس کی وجہ سے نہصرف فصلوں کی پیداوار 60 سے 80 فیصد تک کم ہوئی بلکہ لاکھوں مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ اس بدترین صورتحال کے باعث ہزاروں کی تعداد میں لوگ عارضی ریلیف کیمپوں اور دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
زیارت میں صنوبر کے جنگلات کبھی عالمی شہرت رکھتے تھے لیکن لکڑی کے حصول کے لیے بے دریغ کاٹنے سے خطے کا مسلسل بڑھتا درجہ حرارت زمینوں کو بنجر اور تھور زدہ کرتا گیا۔ یہاں آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے جنہیں یہ شعور و آگاہی نہیں کہ پانی کی کمی کے باعث متبادل فصلیں کاشت کرنی چاہئیں جس سے نہ صرف پانی کی بچت ہوتی بلکہ ٹرانسپائریشن کا رکا ہوا عمل دوبارہ شروع کیا جاسکتا تھا۔ موسمیاتی نقظہ نظر سے بلوچستان میں خشک سالی کو چار موسموں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سب سے زیادہ مہلک ربیع و خریف کے سیزن میں رونما ہونے والی صورتحال ہے جو یہاں کے باشندوں کی زندگی اور صوبائی و ملکی معیشت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔
کسی علاقے میں اگر ایک یا دو سیزن تک بارشیں بند رہیں یا اوسط سالانہ بارشوں سے کم برسات ہو تو وہاں کی مٹی میں نمی کی کمی سے قابلِ کاشت زمینیں بتدریج بنجر ہونے لگتی ہیں اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسے ‘میٹرولوجیکل ڈراٹ’ یا موسمیاتی خشک سالی کہا جاتا ہے، جس کا براہِ راست تعلق اوسط سالانہ بارش سے ہے۔ بلوچستان کے شمال مشرقی علاقوں میں 200 سے 500 ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہے جو مغربی علاقوں نوکنڈی، خاران اور دالبندین کی طرف بتدریج کم ہو کر 25 سے 50 ملی میٹر رہ جاتی ہے۔ گذشتہ سات آٹھ ماہ سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت شمال مشرقی
علاقے موسمیاتی خشک سالی کی زد پر ہیں کیونکہ جنوری میں سرما کی شدید برف باری کے بعد یہاں بشمکل 2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
کسی علاقے میں لمبے عرصے تک بارشیں اوسط سالانہ مقدار سے کمہوں تو وہاں کے دریاؤں، جھیلوں، ڈیمز اور پانی کے دیگر ذخائر میں پانی کا لیول بتدریج گرنے لگتا ہے۔ یہ ‘ہائیڈرولوجیکل ڈراٹ’ کہلاتا ہے جس کا تعلق پانی کے ذخائر کی شماریاتی اوسط سے ہے۔ اس کا شکار عموماََ بلوچستان کے دیہی علاقے رہتے ہیں جہاں موسم گرما میں روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے۔ چوں کہ پانی کا لیول گرنے سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی لہذٰا زراعت، صنعت اور سیاحت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ایسے علاقے جہاں فصلوں کو عموماً بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے وہاں اگر ایک یا دو سیزن تک بارشیں نہ ہوں تو فصلیں براہ ِراست متاثر ہوتی ہیں جسے مختصر المدت یا ‘شارٹ ٹرم ایگری کلچرل ڈراٹ’ کہا جاتا ہے اور اس کا مشاہدہ اکثر اوقات میٹرولوجیکل ڈراٹ کے بعد کیا جاتا ہے۔بلوچستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد میں پانی کے کفایت شعاری سے استعمال کے متعلق شعور و آگاہی کی کمی ہے۔ لہٰذا مسلسل غفلت اور حکومت کی جانب سے پانی کے ذخائر کی غیر معیاری مانیٹرنگ کے باعث صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ یہاں 2002-1997 کی طرح ایک طویل المدت خشک سالی کا دور آنے والا ہے جب قلات، چاغی، نوکنڈی اور نوشکی سمیت 22 اضلاع میں اشیائے خورد و نوش سے لے کر پینے کے پانی تک ہر شے کی قیمت آسمان پر پہنچتے ہی معاشی طور پر دیوالیہ یہاں کے باشندوں کو بھوک و قحط سے فرار کے لیے عارضی ریلیف کیمپوں اور دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔اس صورتحال کو “سوشیو اکنامک ڈراٹ” سماجی-معاشی خشک سالی کہا جاتا ہے۔ اسے خشک سالی کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت بلوچستان کے مختلف علاقوں کو میٹرولوجیکل، ہائیڈرولوجیکل، ایگری کلچرل تینوں طرح کی خشک سالی کا سامنا ہے جس سے نا صرف ایکو سسٹم کو خطرات لاحق ہیں بلکہ پانی اور بجلی کے شدید بحران کے باعث صنعتیں بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔اگرچہ ماضی کی نسبت اب حکومتِ بلوچستان نے ان سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ پیمانے پر سائنسی تحقیقات کا آغاز کیا جس میں ڈراٹ کرائسز کنٹرول سینٹر اور پروونشل ڈراٹ مینجمنٹ کمیٹی بھرپور معاونت کر رہی ہیں۔ زراعت کے پرانے کاریز، سیلابہ، خشک خابہ اور ٹیوب ویل سسٹم کو بتدریج ختم کر دیا گیا ہے جو زیر زمین پانی کے ذخائر کم کرنے کا ایک بڑا سبب تھا۔ دیہی علاقے میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کچھ عرصے پہلے تک کوئلہ یا پیٹرول بطور ایندھن استعمال ہوتا تھا جو نا صرف مہنگے ذرائع تھے بلکہ آلودگی میں بے پناہ اضافے کا سبب بھی بنتے تھے۔اس مسئلے کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا گیا اور کویت کی “انرکون کمپنی” کے اشتراک سے فروری 2017 میں ایک منصوبے کا آغاز کیا گیا جس کے تحت دیہی علاقوں میں دو سال کی مختصر مدت میں اندازاً 30 ہزار ٹیوب ویلز سولر پینلز پر منتقل کر دیئے جائیں گے۔ اس منصوبے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ٹریکنگ سسٹم کو موبائل فون کے ذریعے استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ عرصے قبل غیر ملکی ‘مورگن کمپنی’ نے حکومتِ بلوچستان کے تعاون سے شمسی توانائی کے 51 کلو واٹ بجلی کے منصوبے کا آغاز کیا تھا جس سے 100 فٹ گہرے کنوؤں سے پانی نکال کر تالابوں میں ذخیرہ کیا گیا۔ یہ طریقہ کار چاغی، خاران اور نوکنڈی کے علاقوں میں کافی کار آمد ثابت ہوسکتا ہے جہاں زیادہ گہرائی میں پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیںلیکن اس کے حصول کے لیے جدید تکنیکس اور مناسب منصوبہ بندی نا گزیر ہے۔علاوہ ازیں ورلڈ بینک کے تعاون سے بلوچستان کے مختلف مقامات پر دو لاکھ ایکڑ اراضی کو سیلابی پانی سے سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس پر20 ارب روپے لاگت آئے گی اور بلوچستان کے کئی اضلاع سبی، کچھی، لسبیلہ، لورالائی اور خضدار کے موزوں مقامات پر دریائے ناڑی اور پورالی سے سیلابی پانی کا رخ بنجر زمینوں کی طرف موڑ دیا جائے گا۔
اس منصوبے کے پہلے مرحلے کچھی کینال ضلع ڈیرہ بگٹی’ کا افتتاح ستمبر میں وزیرِ اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کرچکے ہیں جس پر 80 کروڑ روپے لاگت آئی اور پنجاب سے ڈیرہ غازی خان، کشمور اور ڈیرہ بگٹی تک کینال کے ذریعے سیلابی پانی ان علاقوں تک پہنچایا گیا ہے اور اگلے مرحلے میں جھل مگسی، سنی شوران اور پھر بولان کے مخصوص مقامات تک کینال کو آگے بڑھا کر یہاں کی بنجر زمینوں کو سیلابی پانی سے سیراب کیا جائے گا۔لیکن یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ 1998 سے زیر غور کچھی کینال کا منصوبہ طویل عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد بھی حکومتی غفلت اور کرپشن کا شکار ہے۔ ناقص میٹریل اور غیر معیاری اسکیم کے باعث کچھی کینال کے پانچ نمبر ایریا میں ڈیرہ بگٹی سے آگے جانے والی واٹر لائن کا تقریباً 100 فٹ کا حصہ افتتاح کے فوراً بعد ہی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور یہاں سے آگے پانی کی سپلائی بند ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم نوعیت کا منصوبہ ہے، جس سے بلوچستان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے، تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف کچھی کینال اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو شفاف بنا کر جلد از جلد مکمل کیا جائے بلکہ خشک سالی سے متاثرہ ان علاقوں میں جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ کی تکنیک پر مشتمل پیشگی خبردار کرنے والا نظام بنایا جائے جس کے ذریعے یہاں ہونے والی ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کا سیٹلائٹ سیمعائنہ کرکے خشک سالی کے لوٹنے کے وقت کے بارے میں مصدقہ اور درست معلومات بر وقت فراہم کی جائیں۔عموماً مشرقی بلوچستان میں معتدل خشک سالی کا دور 8 سال بعد، سخت خشک سالی 20 سال اور شدید ترین صورتحال 60 سال کے بعد لوٹ کر آتی ہے جبکہ شمال مشرقی بلوچستان میں یہ دورانیہ معتدل خشک سالی کے لیے 8 سال، سخت خشک سالی 22 سال اور شدید خشک سالی کے لیے 65 سال ہے مگر بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ اور ایل نینو کے اثرات کے باعث اب کسی بھی وقت غیر ممکنہ صورتحال کا رونما ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔چونکہ خشک سالی دیگر قدرتی آفات کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور مہلک ہے، جو سالوں بلکہ بعض اوقات عشروں میں اثر انداز ہوتے ہوئے کسی بھی علاقے کی معاشرتی و معاشی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے ، لہذاٰ حالات کو مسلسل مانیٹر کرتے ہوئے حکومتی اداروں کی معاونت سے ایک ہفتہ وار یا ماہانہ بلیٹن جاری کیا جائے جس میں صوبائی اور قومی محکمہ موسمیات کی رپورٹ، فوڈ مانیٹر کرنے والے اداروں کا تجزیہ اور مقامی دریاؤں، جھیلوں، ڈیمز، تالابوں اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی آپریشنل ماڈلنگ سے پانی کے لیول کی ہفتہ وار رپورٹ شامل کی جائے۔اس سے میٹرولوجیکل اور ہائیڈرولوجیکل ڈراٹ کے فوری یا دیرپا منفی اثرات کے بارے میں اندازہ لگا کر مستقبل کے لیے ایک حکمتِ عملی با آسانی تیار کی جا سکتی ہے۔ ہائیڈرولوجیکل ڈراٹ کی سٹیلائٹ کے ذریعے نگرانی اس لیے بھی اشد ضروری ہے کہ اس سے متعلقہ علاقوں پر اثر انداز ہونے والے ماحولیاتی عوامل جیسے مٹی و ہوا میں نمی، آبی بخارات بننے کا عمل، ویجی ٹیشن اور نباتات میں ٹرانسپائریشن کے تناسب کے متعلق مسلسل معلومات حاصل ہونگی۔ ریموٹ سینسنگ کا طریقہ کار بروقت فیصلے کرنے میں حکومتِ بلوچستان کا بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے جہاں فوری اقدامات میں بھی6 ماہ لگ جاتے ہیں اور سرکاری مشینری کی غفلت کے باعث صورتحال کشیدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس طرح کی تکنیکیں جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، چاڈ، نائجر، سوڈان اور مالی وغیرہ میں طویل خشک سالی سے نمٹنے میں کافی کارآمد ثابت ہوچکی ہیں۔ بلوچستان اور ان افریقی ممالک میں ایک مشابہت یہ بھی ہے وہاں بھی مقامی افراد کی اکثریت ناخواندہ ہے اور آفات سے از خود نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ہائیڈرولوجیکل ڈراٹ کو بگاڑنے میں ایک بڑا ہاتھ مقامی باشندوں کا بھی ہے؛ بارشوں کے موسم میں پانی کو مستقبل کی بدترین صورتحال کے لیے ذخیرہ کرنے کے بجائے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ خشک سالی عارضی ہو یا طویل المدت، بہرحال ایک نہ ایک دن ختم ہو ہی جاتی ہے اور موسلادھار بارشوں کے ہوتے ہی ان علاقوں کے رہائشی اپنی زمینوں اور گھروں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں۔مگر سالہا سال کی مشقت، اور کھٹن اور جان لیوا حالات سے گزرنے کے باوجود پرانی عادتیں بھی ساتھ لوٹ آتی ہیں اور اسی وجہ سے عموماً حکومتی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اگر کمیونٹی کی سطح پر کوششیں جاری رکھتے ہوئے قابلِ کاشت رقبے کو کم کر کے سیب، خوبانی وغیرہ کی جگہ انار اور کم پانی استعمال کرنے والی فصلیں کاشت کی جائیں، زمینوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ برفباری زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو بڑھانے کا سبب بنے، جنگلات کے کٹاؤ کو روک کر زیادہ سے زیادہ پودے اگائے جائیں اور لکڑی کی جگہ متبادل بہتر ایندھن استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں حالات کو ابتدائی مرحلے پر ہی بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ اگر بلوچستان کے ہر ضلع میں ایک ‘ڈیزاسٹر مینیجمنٹ سینٹر’ قائم کر دیا جائے جو ارلی وارننگ اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم سے براہ ِراست منسلک ہو، تو مقامی چنیدہ پڑھے لکھے افراد یا غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے خشک سالی کے خلاف آگاہی مہم شروع کی جا سکتی ہے تاکہ عوام کو قدرتی آفات سے جدید تکنیکوں کے ذریعے از خود نمٹنے کی تربیت دی جا سکے۔
مغربی ممالک میں یہ تصور کافی کارگر ثابت ہوچکا ہے اور اب اسے ایشیائی ممالک بھی اختیار کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال کیلیفورنیا کا 2011 سے 2017 تک کا چھے سالہ تاریخی خشک سالی کا دور ہے جس کا اختتام حال ہی میں موسمِ بہار کی موسلا دھار بارشوں کی صورت میں ہوا ہے، مگر حکومت کی جانب سے تربیت و آگا ہی مہم شروع کرنے کے بعد عوام کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ آج نہیں تو کل، دو، چار یا آٹھ سال بعد یہ کٹھن وقت لوٹ کر آنا ہے، اس لیے وہ جدید ارلی وارننگ اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کی مدد سے حکومت کے فراہم کردہ بارش، درجہ حرارت کے ہفتہ وار ڈیٹا اور پانی کے ذخائر کی صورتحال کے بارے میں پوری طرح آگاہ رہتے ہوئے پانی کو کفایت کے ساتھ استعمال کرنا سیکھ گئے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...
اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...
چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...
وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...
تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...
غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...
سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...