وجود

... loading ...

وجود

سپر پاور امریکا کے 20فیصد بچے غذا سے محروم ‘بھارت میں غربت کی سطح تشویشناک

منگل 17 اکتوبر 2017 سپر پاور امریکا کے 20فیصد بچے غذا سے محروم ‘بھارت میں غربت کی سطح تشویشناک

امریکا خود دنیا کی سب سے بڑی یعنی سپر پاور قرار دیتاہے اور امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار کا اتنا نشہ چڑھا ہے کہ وہ اب خود کو پوری دنیا کاپالن ہار تصور کرنے لگے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس ملک کو امریکی امداد بندکرنے کی دھمکی دی جائے گی ہمارے سامنے اوندھے منہ گر جائیں گے اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوجائیں گے جو ہم چاہیں گے ،لیکن دولت کی ریل پیل کا دعویٰ کرنے والے اس ملک امریکا کا یہ عالم ہے کہ اس ملک کے کم وبیش 25 فیصد بچوں کو مناسب خوراک میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی پرورش درست طریقے سے نہیں ہوپاتی ،بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے فنڈ اقتصادی اور سماجی پالیسی کے شعبے کے سربراہ ہوزے کویسٹا کا کہناہے کہ تمام 41 امیر ملکوں کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں بچوں کی فلاح وبہبود کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں بھوک صرف غریب ملکوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ دنیا کے 41 امیر ملکوں تک پھیلا ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امیر ملکوں میں ہر5 میں سے ایک بچہ یعنی20فیصد بچے غربت کی زندگی گذار رہے ہیں، جب کہ ہر آٹھویں بچے کو پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں مل رہا۔
یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ زیادہ مالی وسائل اور آمدنی کے بچوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ اکثر ہوتا یہ ہے کہ اس سے امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے۔ بچوں کی بہتری کے لیے یونیسیف کے مقرر کردہ معیاروں کے مطابق 41 ملکوں کی فہرست میں دنیا کے پہلے سات ملکوں میں ناروے، ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ، آئی لینڈ، جرمنی اور سوٹزرلینڈ شامل ہیں جب کہ اس فہرست کے آخری سات ملک چلی، میکسیکو، امریکا، بلغاریہ ، رومانیہ، اسرائیل اور ترکی ہیں۔ہوزے نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ اس فہرست میں امریکا کا نمبر 37 واں ہے۔ وہ غربت، بھوک، اچھی صحت، اچھی پرورش اور اچھی تعلیم کے لیے بہت کچھ نہیں کررہا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف دولت اور اقتصادی ترقی ہی بچوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ میں امیر ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بچوں کی ضروریات کو اپنی پالیسی کے ایجنڈے کی ترجیحی بنائے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے دنیا میں خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 میں دنیا بھر میں 81 کروڑ 50 لا کھ افراد کو مناسب غذا میسر نہیں تھی اور یہ تعداد 2015کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار ایک گمبھیر صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ ایک دہائی تک غذائی قلت سے متاثرہ افراد کی شرح کم سطح پر رہنے کے بعد ایک بار پھر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ غذائیت کی کمی دنیا بھر میں کروڑوں افراد کی صحت اور مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔رپورٹ کے مطابق 15 کروڑ 50 لاکھ بچے ایسے ہیں جن کی جسمانی و ذہنی نشونما پر غذائیت کی کمی کی وجہ سے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے باعث وہ باقی کی زندگی میں بھی ان اثرات سے دوچار رہیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتھونی لیک کا کہنا ہے کہ غذائیت کی قلت کی وجہ سے لاتعداد بچوں کی زندگیاں اور مستقبل مخدوش ہو سکتا ہے اور ان میں سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار وہ ہیں جو تنازعات کے شکار علاقوں میں مقیم ہیں۔لیک نے کہا کہ “نائیجیریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جو طویل عرصے سے جاری تنازعات کی وجہ سے نشانہ بن رہے ہیں۔”اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خواتین میں انیمیا یعنی خون کی کمی اورموٹاپے کا شکار بڑوں اور بچوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔یہ مطالعاتی رپورٹ 2030تک بھوک اور غذائیت کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے بارے میں کوئی امید افزا تاثر کا اظہار نہیں کرتی ہے۔اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں کو غذائیت کی کمی کی سطح کو نیچے لانے اور صحت مند زندگی کے لیے کھانے پینے کی صحت مند عادات کے فروغ کے لیے اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔دنیا کے 118 ترقی پذیر ممالک میں بھوک کی صورتحال سے متعلق ترتیب دی گئی فہرست میںدنیا کے 119 ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں بھارت 100ویں مقام پر ہے؛ نیپال 72ویں، میانمار 77 ویں، بنگلہ دیش 88 ویں، سری لنکا 84 ویں اور چین 29 ویں مقام پر ہے۔ ہمسایہ ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں کے حالات بھارت سے خراب ہیں۔ وہ 106 ویں مقام پر ہے غذائی پالیسی سے متعلق واشنگٹن کے ایک ادارے ’انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، بھارت غذائی قلت اور بھوک کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ یہاں کے حالات کی ابتری کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا اور عراق کی صورت حال بھی بھارت سے بہتر ہے۔دنیا کے 119 ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں بھارت 100ویں مقام پر ہے۔ یہاں تک کہ ہمسایہ ملکوں کی کارکردگی بھی اس سے اچھی ہے۔ گزشتوں برسوں میں بھارت کی حالت میں کچھ سدھار ہوا ہے۔ 2008 میں اس کی ریٹنگ 35.6 تھی جو کہ رواں سال میں 31.4 پر آگئی ہے۔ لیکن بھارت جیسے ملک کے لیے جو کہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بننے والا ہے، خوشی کا کوئی مقام نہیں؛ کیونکہ جبوتی اور یوگنڈا جیسے افریقی ممالک کے حالات بھی اس سے اچھے ہیں۔مذکورہ ادارے کے مطالعے سے بھارت میں بچوں کی انتہائی ابتر صورت حال سامنے آتی ہے۔ یہاں پانچ سال تک کے 21 فیصد بچے کم وزن اور ناقص غذائیت کے شکار ہیں۔ ان کے قد کے تناسب میں ان کا وزن نہیں ہے۔ ایک تہائی آبادی یا 38.4 فیصد بچے ایسے ہیں جن کا جسمانی فروغ عمر کے تناسب میں نہیں ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھوک سے متاثر ملکوں کی عالمی فہرست میں بھارت اس مقام پر ہے جسے سنگین قرار دیا گیا ہے۔تاہم، بھارت نے دو قومی پروگراموں کے ساتھ کچھ پیش رفت کی ہے۔ یہ پروگرام ہیں ’انٹگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز‘ اور ’نیشنل ہیلتھ مشن‘۔ حکومت نے 2022 تک ملک کو ناقص غذائیت سے نجات دلانے کا ایک ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ پاکستان 107 نمبر پر ہے جب کہ افغانستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک میں صورتحال پاکستان سے بہتر بتائی گئی ہے۔امریکا میں قائم “انٹرنیشنل فوڈ ریسرچا انسٹیٹیوٹ” کی طرف سے گزشتہ روز “گلوبل ہنگر انڈیکس 2016جاری کیا گیا، جس کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو صفر سے 100 کے درمیان پوائنٹس دیتے ہوئے فہرست میں ان کی درجہ بندی کو ظاہر کیا گیا۔انڈیکس کے مطابق پاکستان 33.4 پوائنٹس حاصل کر سکا ہے جو کہ 9سال قبل کی شرح سے کچھ بہتر ہے۔خطے کے دیگر ممالک میں افغانستان 111، بھارت 97 اور چین 27 نمبر پر ہے۔ انڈیکس میں یہ بتایا گیا کہ عوام کو درپیش خوراک کی کمی اور بھوک کے خاتمے کی موجودہ شرح کے تناظر میں بھارت، پاکستان اور افغانستان دنیا کے ان 45 ممالک میں شامل ہیں جہاں بھوک کی صورتحال 2030 میں معتدل سے پریشان کن سطح تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے اقدام کیے گئے ہیں جن کے ثمرات معاشرے کے نچلے طبقے کو بھی پہنچیں گے۔تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہی سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تفریق کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔غربت کی شرح جانچنے کے لیے ایک نئے فارمولے کے تحت حکومت نے رواں سال کہا تھا کہ پاکستان کی 38.8 فیصد آبادی شدید غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔معاشی و سماجی امور کے ماہر عابد سلہری کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر امیر اور غریب طبقے میں بڑھتا ہوا فرق دیکھا جا رہا ہے ۔ لیکن پاکستان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی اقدام غربت کی لکیر پر زندگی گزارنے والوں کے معیار زندگی کو تو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن شدید بھوک و افلاس کے شکار طبقے کے لیے اسے مزید ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ملکوں کو بھوک کے خاتمے کے لیے اقدام کی رفتار تیز کرنا ہو گی جس میں حکومتی و نجی اداوں کے علاوہ سماجی شعبے کو بھی اپنا سرمایہ اور وقت صرف کرنا ہوگا۔سابق مشیر خزانہ اور اقتصادی امور کے ماہر سلمان شاہ نے حال ہی میںوائس آف امریکا سے گفتگو میں کہا کہ یہ اعدادوشمار باعث تشویش ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے ہی لوگوں میں خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جس کے لیے اقتصادی ترقی بہت اہم ہے۔پاکستان کی آبادی کا 38.8 فیصد حصہ شدید غربت کی زندگی گزار رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر10میں سے4 یعنی 40فیصد افراد اس زمرے میں آتے ہیں۔یہ بات سرکاری طور پر پہلی مرتبہ غربت سے متعلق کثیر الجہت رپورٹ میں بتائی گئی جس کے اجراکے موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اس کی تیاری میں صرف آمدنی کو ہی نہیں بلکہ صحت اور تعلیم تک عدم رسائی جیسے عوامل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
جون 2013میں اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے، اقتصادی ترقی کی شرح کو بڑھانے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سمیت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے اقدام کیے گئے ہیں۔لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی غربت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔سابق مشیر خزانہ اور اقتصادی امور کے ماہر سلمان شاہ کاکہناہے کہ یہ اعدادوشمار باعث تشویش ہیں اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے ہی لوگوں میں خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔جس کے لیے اقتصادی ترقی بہت اہم ہے۔”اصل چیز تو لوگوں کی خوشحالی ہے جب وہ نہ آئے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کا کیا فائدہ۔ اکنامک سروے میں اور بجٹ میں بھی بتایا گیا کہ اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوئے۔ جب تک اقتصادی ترقی نہیں ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے اور غربت براہ راست روزگار کے مواقع سے جڑی ہوئی ہے اگر آپ کے پاس پائیدار نوکری ہے یا کوئی مہارت ہے جس سے آپ اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں تب ہی غربت میں کمی آتی ہے۔”وفاقی وزیر احسن اقبال نے صحافیوں سے گفتگو میں رپورٹ کے اعدادو شمار کو پالیسی سازی کے لیے معاون قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں تمام علاقوں میں وسائل اور ترقی کو مساوی طور پر تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔”جس سے تحفظ اور وقار پیدا ہوتا ہے وہ تمام اشاریے اس رپورٹ میں ہیں اس کے ذریعے پاکستان کے ہر ضلع کا غربت کا اسکور کارڈ سامنے آ رہا ہے جس سے ہمیں یہ پتہ لگانے میں مدد ملے گی کہ پاکستان کے کون سے اضلاع ہیں جو پسماندہ ترین ہیں لہذا ہم صوبوں کے اندر فیصلہ کرنے والے جو ہیں ان کی ذمہ داری ہوگی ان کا احتساب ہو گا کہ وہ ان علاقوں پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ ترقی ناہمواری کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔”اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے جس کے بعد شمال مغرب میں قبائلی علاقوں کا نمبر ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنیادی تعلیم اور صحت تک رسائی غربت میں کمی کے لیے بہت ضروری ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان دونوں شعبوں میں مجموعی قومی پیداوار کا بہت ہی کم حصہ مختص کیا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان میں ماضی کی نسبت بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں


جنگ مسلط کرنیوالوں کو مئی جیسا جواب ملے گا، فیلڈ مارشل وجود - پیر 17 نومبر 2025

پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی طرح جواب دیں گے جیسے مئی میں دیا تھا،بھارت کیخلاف جنگ میں جذبہ ایمانی سے فتح ملی ، اللہ کے حکم کے مطابق فرائض کی انجام دہی کرتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺکو اللہ نے کامیابی دی، اسی طرح ہمارے لوگوں کو کامیابی دی، جنرل عاصم منیر کا ایوان ص...

جنگ مسلط کرنیوالوں کو مئی جیسا جواب ملے گا، فیلڈ مارشل

بشریٰ بی بی کے بیٹے موسیٰ مانیکا کوگرفتار کرنے کا حکم وجود - پیر 17 نومبر 2025

معمولی تنازع کے دوران گھریلو ملازم پر تشدد کے کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری موسیٰ مانیکا کو 19 نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے،جج کا پاکپتن صدر پولیس کو حکم خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے چھوٹے بیٹے موسیٰ مانیکا کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔رپورٹ کے مطابق موسیٰ مانیکا 17 جول...

بشریٰ بی بی کے بیٹے موسیٰ مانیکا کوگرفتار کرنے کا حکم

سرچ آپریشن، 76 غیر قانونی مقیم افغان باشندے گرفتار وجود - پیر 17 نومبر 2025

مجموعی طور پر 1375 گھروں، 412 دکانوں، 28 ہوٹلوں کی تلاشی لی گئی 1709 سے زائد افراد کے کوائف چیک ،21 افراد کیخلاف مقدمات درج راولپنڈی پولیس نے شہر کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مضبوط بنانے اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیے،آ...

سرچ آپریشن، 76 غیر قانونی مقیم افغان باشندے گرفتار

تاریخی مسجدِ ابراہیمی یہودی عبادت میں تبدیل، الخلیل میں سخت کرفیو وجود - پیر 17 نومبر 2025

جنوبی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن،مسجد عبادت کیلئے بند کردی تمام داخلی راستے، چوکیاں اور گلیاں سیل،یہودی آباد کاروں کا اشتعال انگیز مارچ قابض اسرائیلی فورسز نے جنوبی مغربی کنارے کے شہر الخلیل (حیبرون) کے قدیم علاقے میں سخت کرفیو نافذ کر دیا ہے اور مسجدِ ابراہیمی...

تاریخی مسجدِ ابراہیمی یہودی عبادت میں تبدیل، الخلیل میں سخت کرفیو

سرحد پار سے دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیر داخلہ وجود - اتوار 16 نومبر 2025

کیڈٹ کالج پر حملہ کرنے والے درندے ہیں، ان کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم ٹی ٹی پی کو نہیں مانتے، ملک میں امن تباہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی، محسن نقوی کا واضح پیغام ہمارے مقامی شہری حملوں اور دھماکوں میں ملوث نہیں ، ناراضگی ہوسکتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ملک کیخلاف...

سرحد پار سے دہشت گردی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیر داخلہ

غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا،پاکستان اور اردن کا اتفاق وجود - اتوار 16 نومبر 2025

شاہ عبداللہ دوم وزیراعظم ہاؤس پہنچے،شہباز شریف نے استقبال کیا، گارڈ آف آنر پیش ملاقات کے دوران بات چیت میں دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ اردن اور پاکستان نے غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے اور غزہ جنگ بندی پر کام کرنے والے 8 ممالک سے مزید ر...

غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا،پاکستان اور اردن کا اتفاق

بنوں اورلکی مروت میں آپریشن، 7 دہشت گرد ہلاک وجود - اتوار 16 نومبر 2025

تختی خیل؍ ہوید میں خوارج کی تشکیل کی موجودگی پر پولیس اور سی ٹی ڈی کیمشترکہ کارروائیاں آپریشن کے دوران پولیس اہلکار محفوظ رہے،آئی جی پی خیبر پختونخوا کی پولیس اہلکاروں کو شاباش خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں اور لکی مروت میں پولیس اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ کامیاب کارروائیوں میں 5دہ...

بنوں اورلکی مروت میں آپریشن، 7 دہشت گرد ہلاک

لطیف آباد: آتش بازی کے کارخانے میں خوفناک دھماکا وجود - اتوار 16 نومبر 2025

5افراد جاں بحق، متعدد مزدورزخمی، لغاری گوٹھ میں کارخانہ تباہ ، خوفناک آگ بھڑک اٹھی دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی، شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، وزیر اعلیٰ کا نوٹس حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں آتش بازی کے کارخانے میں خوفناک دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں...

لطیف آباد: آتش بازی کے کارخانے میں خوفناک دھماکا

سربراہی سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کو سونپ دی،ہر تھانے کے 4 ممبران ہوں گے وجود - اتوار 16 نومبر 2025

ٹاسک فورس کو تھانوں کی سطح پر سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ اسٹاف کی معاونت حاصل ہوگی پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری اور واپس بھیجنے کے معاملے پر 13تھانوں میں ٹاسک فورس قائم کر دیا اور غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔پولیس نے...

سربراہی سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کو سونپ دی،ہر تھانے کے 4 ممبران ہوں گے

غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری کا حکم،ٹاسک فورس قائم وجود - اتوار 16 نومبر 2025

سربراہی سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کو سونپ دی،ہر تھانے کے 4 ممبران ہوں گے ٹاسک فورس کو تھانوں کی سطح پر سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ اسٹاف کی معاونت حاصل ہوگی پولیس نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری اور واپس بھیجنے کے معاملے پر 13تھانوں میں ٹاسک فورس قائم کر دیا...

غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری کا حکم،ٹاسک فورس قائم

27 ویں ترمیم غیر آئینی ،اپوزیشن اتحاد کا یوم سیاہ منانے کااعلان وجود - هفته 15 نومبر 2025

ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ پر حملہ ہیں، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں،شخصی بنیاد پر ترامیم کی گئیں،اپوزیشن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے پر خراج تحسین، جمہوری مزاحمت جاری رہے ...

27 ویں ترمیم غیر آئینی ،اپوزیشن اتحاد کا یوم سیاہ منانے کااعلان

افغان طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کریں ،پاکستان کا افغانستان سے تجارت بند رکھنے کا اعلان وجود - هفته 15 نومبر 2025

ہم نے تجارت پر افغان رہنماؤں کے بیانات دیکھے، تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے؟ یہ ملک کا انفرادی معاملہ ہے،ٹرانزٹ ٹریڈ دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے، دفتر خارجہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پاکستان کے دشمن ہیں مذاکرات نہیں کریں گے،دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے وا...

افغان طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کریں ،پاکستان کا افغانستان سے تجارت بند رکھنے کا اعلان

مضامین
بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں وجود پیر 17 نومبر 2025
بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں

بہار نتائج:الٹی ہوگئی سب تدبیریں وجود پیر 17 نومبر 2025
بہار نتائج:الٹی ہوگئی سب تدبیریں

بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر وجود پیر 17 نومبر 2025
بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر

دہلی دھماکہ :تمہاری بے حسی تم کو کہاں تک لے کے جائے گی؟ وجود هفته 15 نومبر 2025
دہلی دھماکہ :تمہاری بے حسی تم کو کہاں تک لے کے جائے گی؟

مسلمان بھارت میں درانداز قرار؟ وجود هفته 15 نومبر 2025
مسلمان بھارت میں درانداز قرار؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر