وجود

... loading ...

وجود

پیاسے کوہستان کی بیٹیاں نازک نہیں !

جمعه 13 اکتوبر 2017 پیاسے کوہستان کی بیٹیاں نازک نہیں !

21ویں صدی کا 17واں سال گزر رہا ہے، دنیا نے ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈال دی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے تصوراتی طلسم تک کو سچ کر دکھایا ہے، اِس جدید دور میں ہماری جہتیں کیا ہیں اِس کا اندازہ اخباروں کی سرخیاں اور ٹی وی چینلوں کی لال پٹیاں خوب بتاتی ہیں۔
آبادی کے ساتھ پسماندگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، کراچی سے صرف چند کلومیٹر دور (کینجھر اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان) اِسی طرح کے کچھ ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں زندگی نے شاید 21ویں صدی میں قدم ہی نہیں رکھا بلکہ وہاں لوگ اب بھی 19ویں صدی میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ وہاں آج بھی لوگ کچی جھگیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں کی عورت کو آج بھی پانی کے دو مٹکوں کے لیے چلچلاتی دھوپ میں تین سے پانچ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے، اور دن میں ایک بار نہیں بلکہ کم از کم تین بار اْسے پانی بھرنے کے لیے جانا پڑتا ہے تاکہ وہ اور اْس کے اہلِ خانہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
یہاں اب بھی پانی بھرنے کی یہ ذمے داری روایتی اور ثقافتی طور پر عورت پر عائد ہے اور 8 سال کی بچی سے لے کر 50 سالہ عورت تک یہ ذمے داری صرف ’صنفِ نازک’ ادا کرتی ہے۔ ستم دیکھیے کہ معاشرے نے عورتوں کو صنف نازک کا نام دیا اور ایسے کٹھن کام بھی ‘نازک’ انسانی وجود سے لیتا ہے۔ اب چاہے کسی خاتون یا بچی کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آجائے، مہرے جگہ سے بے جگہ ہوجائیں یا کسی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہوجائے یہ کام تو بس اْسے ہی کرنا ہوتا ہے۔ مرد روایتی اور ثقافتی طور پر اِس ذمے داری سے آزاد ہیں۔ عورت کی زندگی کے اِس منظر کو دیکھ کر حبیب جالب یاد آجاتے ہیں جنہوں نے شاید ایسے ہی حالات دیکھ کر کہا ہوگا کہ
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
وہ نیا سورج تو جانے کب نکلے لیکن عورت کی زندگی کا یہ منظرنامہ پاکستان کے تقریباً ہر گاؤں اور خصوصاً صوبہ سندھ کے ہر گاؤں میں یکساں نظر آئے گا، سوائے چند ایسے علاقوں کے جہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی سعی سے حالات کو بدلنے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے۔ ہم بھی کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے اِن 34 گاؤں کی بات کررہے ہیں جہاں کام کرنے والی ایک تنظیم انڈس ارتھ ٹرسٹ اور کوکا کولا فاؤنڈیشن نے کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔
اِن تنظیموں نے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے 34 گاؤں میں پانی کا پائیدار اور فطری طریقوں پر انتظام بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس آبی انتظام نے گھریلو اور زرعی سطح پر لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ تحفظ ماحول یا تحفظ فطرت کے لیے جو بھی قدم اْٹھاتے ہیں اْس کا بہتر اثر انسانی زندگیوں پر ہی پڑتا ہے۔
وہ 16ستمبر 2017 کا ایک گرم دن تھا اور سفر تھا کوہستان کا جہاں گرمی مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہم ملنے جا رہے تھے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے ایک گاؤں حاجی شفیع محمد کی خواتین سے۔ہمیں بتایا گیا کہ روایتی طور پر کوہستان کی لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اْن سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ “پھر پانی کون لائے گا۔” اِس گاؤں میں 8 یا 9 سال کی عمر سے لڑکیاں پانی لانا شروع کر دیتی ہیں۔ بچی کی کم عمری کا جب احساس دلایا تو ساتھ جانے والی اْس کی ماں نے کہا کہ یہ کم از کم اپنی ضرورت کا پانی تو بھر لائے گی۔پانی بھرنے کی ذمے داری عورتوں کی ہے اور اِس علاقے کی 92 فیصد عورتیں اِس کام کو انجام دیتی ہیں جبکہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 8 فیصد ہے اور وہ بھی پیدل یا مٹکے اْٹھا کر نہیں لاتے بلکہ گدھا گاڑی پر لاد کر پانی لے آتے ہیں لیکن یہ مثالیں خال خال ہی ہیں۔ عورت ہی ہے جو ازل سے یہ بوجھ اٹھارہی ہے۔
یہاں کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگا جو دھیرے دھیرے اِس علاقے کی خواتین کی زندگی بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جب سماجی تنظیم نے پانی عورت کے لیے ‘واٹر فار وومین’ نامی اپنے پروجیکٹ کے تحت اِن 34 گاؤں میں پانی کا انتظام کیا ہے تو اْنہیں لوگوں کا یہ اعتراض بھی سننا پڑا کہ کیا پانی صرف عورتوں کی ضرورت ہے؟ مردوں کو پانی نہیں چاہیے؟ لیکن اْن کا کہنا تھا کہ جب پانی مہیا کرنا عورتوں ہی کی ذمے داری ہے تو پھر یہ پروجیکٹ بھی عورتوں ہی کے لیے ہے۔کہتے ہیں کہ پانی زندگی کی علامت بھی ہے اور ضمانت بھی، آب ہے تو حیات ہے، جہاں آب نہیں ہوتا وہاں سے حیات بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ حیات کے سارے تانے بانے پانی کے کنارے ہی بنے جاتے ہیں۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہاں ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے نقل نکانی کرچکے تھے لیکن یہاں پانی آنے کے بعد وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔
آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اْسے پانی میسر ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال خاصی خراب ہے۔ گاؤں دیہات کی تو بات ہی کیا، کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی پینے کے لیے سنکھیا آلود پانی میسر ہے۔
سماجی تنظیم نے اِن 34 گاؤں میں کام کرنے سے قبل جنوری 2017 میں ٹھٹھہ یونین کونسل کوہستان میں ایک سروے کیا تھا۔ سروے میں لوگوں نے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم موجودگی کو بتایا۔ تحقیق کے مطابق دیہات میں 92 فیصد خواتین اپنے گھروں کے لیے پانی لاتی ہیں، وہ دن میں تین مرتبہ لگ بھگ تین سے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دو مٹکے یا کین لے کر آتی ہیں جن میں بمشکل 15 سے 20 لیٹر پانی بھرا جاسکتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں کا درجہ ِ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔
پانی لانے کی اِس ذمے داری سے حاملہ خواتین کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، اْنہیں بھی یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزن اْٹھا کر لانے سے انہیں کئی امراض لاحق ہوجاتے ہیں مثلاً، پٹھوں میں درد، سر کے بال گرنے لگتے ہیں، وزن میں کمی، مدافعتی نظام میں کمزوری، ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف اور مہروں کے سرک جانے کی تکالیف عام ہیں۔ خواتین پانی لانے جاتی ہیں تو بچے گھر پر چھوڑ جاتی ہیں، ایسے میں اکثر حادثات بھی پیش آتے ہیں، جیسے بچوں کو کوئی کیڑا وغیرہ کاٹ جاتا ہے یا پھر بچوں کو چوٹیں لگ جاتی ہیں۔
سروے کے مطابق تقریباً 15 برس سے کم عمر 71 فیصد بچیاں پانی لانے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرد پانی لانے میں خواتین کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ مردوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم پانی لانے لے جانے میں مصروف ہوگئے تو پھر کام دھندے پر کون جائے گا؟ اِس لیے دیہات میں مرد پانی لانے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ اگرچہ یہ بات سچ نظر نہیں آتی کیونکہ بیشتر مرد بے روزگار ہوتے ہیں اور وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ ہماری بات کی تصدیق اِردگرد کے ہوٹلوں میں موجود مردوں کی تعداد کو دیکھ کر ہورہی تھی۔
اِن دیہات میں پانی کی آمد کا واحد ذریعہ بارش ہے۔ اِسی پانی سے ہی یہاں کے لیے کچھ بہتری ہوسکتی تھی۔ اِسی خیال کے تحت مارچ 2017 میں کوکا کولا فاؤنڈیشن آگے آئی اور اْس نے ٹھٹھہ کی یونین کونسل کوہستان میں پانی کی منظم انداز سے فراہمی کے لیے تقریباً 19 ملین روپے (ایک کروڑ 90 لاکھ روپے) کا فنڈ مختص کیا۔ اِس منصوبے سے تقریباً 34 دیہات کے 15 ہزار افراد پر مشتمل 2200 گھرانے مستفید ہوں گے۔
اِس منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر ریزروائر (ذخیرہ گاہ یا بڑے تالاب) کی تیاری کا آغاز ہوا۔ اِس حوالے سے قدرتی گزرگاہوں کو مدِنظر رکھا گیا یعنی جن راستوں سے پانی کا بہاؤ ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے پہلے سے موجود 18 ریزروائر (بڑے تالاب) جو خشک ہوچکے تھے، اْنہیں گہرا کیا گیا، جبکہ 10 نئے ریزروائرز بھی تیار کیے گئے۔ جب مون سون کا موسم آیا اور بھرپور بارشیں ہوئیں تو کیرتھر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی اْن 28 ریزروائرز میں جمع ہوگیا۔ اْن ذخیرہ گاہوں کو تقریباً 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے اور اْن کے قریب کئی مقامات پر واٹر پمپ لگائے گئے ہیں تاکہ صاف پانی حاصل کیا جاسکے۔ اِس منصوبے کی تکمیل سے کوہستان یونین کونسل میں پورا سال پانی دستیاب رہے گا۔
اِس کے علاوہ کیرتھر کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید اقدام کے طور پر چھوٹے عارضی ڈیم (چیک ڈیم) کی تعمیر پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ لوگ پْراْمید ہیں کہ اِس سے کھیتی باڑی میں بہتری آئے گی اور تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی زیرِ کاشت آجائے گی۔ اِس ضمن میں چار مقامات کا تعین کرلیا گیا ہے جہاں چیک ڈیم بنائے جائیں گے۔
اِسی طرح 20 مقامات پر کنویں بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اِس پروجیکٹ کے تحت مختلف مقامات پر ریزروائر کے قریبی مقامات پر ہینڈ پمپ بھی لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف خواتین کے وقت کی بچت ہوگی بلکہ وہ دیگر کاموں پر زیادہ توجہ بھی دے سکیں گی۔اِس علاقے میں کوئی اسکول نہیں، پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔ کوہستان میں حکومت نے آر او پلانٹ لگانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے لیکن 8 سال گزر جانے کے باوجود پینے کے صاف پانی کا پلانٹ تاحال فعال نہیں ہوسکا ہے۔یہاں کی عورت روایتی اور ثقافتی طور پر سلائی کڑھائی نہیں کرتی نہ ہی اْنہیں بیچتی ہیں بلکہ وہ صرف رلیاں اور بہت خوبصورت گوٹا اور شیشے لگے چمکیلے تکیے تیار کرتی ہے۔ اِن تکیوں پر تقریباً 5 ہزار روپے کی لاگت آتی ہے، یہ تکیے وہ بیٹی کو جہیز میں دیتی ہے۔روایتی طور پر ایسے 40 سے 45 تکیے جہیز میں دیے جاتے ہیں جبکہ 10 سے 15 رلیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب اْن سے کہا گیا کہ وہ یہ اشیاء شہر میں بیچ کر پیسے بھی کماسکتی ہیں تو اْن کے چہروں پر حیرانی تھی۔ لیکن حیرانی کو فوراً افسوس کے اظہار میں تبدیل کرتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ یہ کام تو صرف مرد کرسکتے ہیں اور اْن کے مردوں کو اِس قسم کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ یہاں کا رواج بھی نہیں ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہاں حکومت کہیں نظر نہیں آتی، اِسی لیے شاید اِس خلا کو سماجی تنظیمیں ہی پْر کررہی ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ کراچی کی ایک مخیر شخصیت نے منفرد قسم کے واٹر وہیلز تیار کرکے بھیجے ہیں جن سے علاقے کی خواتین کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اب اْنہیں پانی کا برتن سر پر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ اِسے ہینڈل سے پکڑ کر پانی کھینچ کر لاسکیں گی۔ ایسے ہر واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے۔
یہ علاقے زیادہ تر بنجر ہیں اور دور دور تک کوئی سایہ دار درخت بھی نظر نہیں آتا، لیکن اب اْمید ہے کہ یہ لوگ پانی آنے کے بعد پھل دار درخت بھی لگا سکیں گے۔ اِن علاقوں میں مویشیوں کی تعداد بھی کم ہے کیونکہ نہ پانی میسر تھا اور نہ جانوروں کے لیے چارا، کیونکہ صرف ایک گدھا ہی 200 کا چارا کھا جاتا ہے اور وہ بھی قریبی شہر جنگ شاہی سے لانا پڑتا ہے۔
اب چیک ڈیم بننے کے بعد پانی بھی میسر ہوگا اور اِس کے ساتھ سماجی تنظیم کی یہ بھی کوشش ہے کہ اعلیٰ قسم کا چارا اگایا جائے جو سال بھر کام آئے۔ لوگ تو یہاں تک پْرامید ہیں کہ چیک ڈیم بننے کے بعد وہ گندم بھی اْگا سکیں گے یوں وہ اپنی غذائی ضروریات میں بھی خود کفیل ہوجائیں گے۔
شبینہ فراز


متعلقہ خبریں


دفاعی قوت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ،فضل الرحمان وجود - منگل 23 دسمبر 2025

سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہونا عوام اور سیاست دانوں کا حق ہے، فلسطین فوج بھیجنے کی غلطی ہرگز نہ کی جائے،نہ 2018 نہ 2024 کے الیکشن آئینی تھے، انتخابات دوبارہ ہونے چاہئیں کوئی بھی افغان حکومت پاکستان کی دوست نہیں رہی،افغانی اگر بینکوں سے پیسہ نکال لیں تو کئی بینک دیوالیہ ہوجائیں،...

دفاعی قوت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ،فضل الرحمان

نئے مالی سال 2026-27، بجٹ کی تیاریاں شروع ،ٹیکس تجاویز مانگ لیں وجود - منگل 23 دسمبر 2025

ایف بی آر نے کسٹمز قوانین میں ترامیم کیلئے 10فروری تک سفارشات طلب کرلی فیلڈ فارمیشن کا نام، تجاویز، ترامیم کا جواز، ریونیو پر ممکنہ اثرات شامل ،ہدایت جاری نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی گئیں، ایف بی آر نے نئے بجٹ کے حوالے سے ٹیکس تجاویز مانگ لیں۔ایف بی آر کے مطابق...

نئے مالی سال 2026-27، بجٹ کی تیاریاں شروع ،ٹیکس تجاویز مانگ لیں

عمران اور بشریٰ کیسزاؤں کیخلاف سندھ بھر میں احتجاج وجود - منگل 23 دسمبر 2025

کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، شہید بینظیر آباد اور لاڑکانہ میں مظاہرے بانی کی ہدایت پر اسٹریٹ موومنٹ کا آغاز،پوری قوم سڑکوں پر نکلے گی،حلیم عادل شیخ پاکستان تحریک انصاف کے سرپرستِ اعلی عمران خان، ان کی اہلیہ بشری بی بی، اور اس سے قبل ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں ...

عمران اور بشریٰ کیسزاؤں کیخلاف سندھ بھر میں احتجاج

پاکستان مضبوط ، پرعزم اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا جانتا ہے، بلاول بھٹو وجود - منگل 23 دسمبر 2025

عوام متحد رہے تو پاکستان کبھی ناکام نہیں ہوگا،ہماری آرمڈ فورسز نے دوبارہ ثابت کیا کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں قوم کی اصل طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہوتی ہے، کیڈٹ کالج پٹارو میں تقریب سے خطاب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیڈٹ کالج پٹارو م...

پاکستان مضبوط ، پرعزم اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا جانتا ہے، بلاول بھٹو

مذاکرات کی بات کرنیوالے عمران کے ساتھی نہیں،علیمہ خانم وجود - منگل 23 دسمبر 2025

تحریک تحفظ کانفرنس کے اعلامیے کا علم نہیں،غلط فیصلے دینے والے ججز کے نام یاد رکھے جائیں گے عمران کو قید مگر مریم نواز نے توشہ خانہ سے گاڑی لی اس پر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ مذاکر...

مذاکرات کی بات کرنیوالے عمران کے ساتھی نہیں،علیمہ خانم

پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیئر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا وجود - منگل 23 دسمبر 2025

  پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے تحت کراچی ایکسپو سینٹر میں جاری پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیٔر علم و آگاہی کی پیا س بجھا تا ہو ا کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ کراچی ورلڈ بک فیٔر نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 5لاکھ افراد نے پانچ روز...

پانچ روزہ کراچی ورلڈ بک فیئر کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا

حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...

حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی

مضامین
امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت وجود بدھ 24 دسمبر 2025
امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت

مسلم خاتون کا نقاب نوچنا بیمارذہنیت وجود بدھ 24 دسمبر 2025
مسلم خاتون کا نقاب نوچنا بیمارذہنیت

قوموں کی اصل پہچان آسائش یا آزمائش میں؟ وجود بدھ 24 دسمبر 2025
قوموں کی اصل پہچان آسائش یا آزمائش میں؟

پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں وجود منگل 23 دسمبر 2025
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں

طاقت اور جہالت وجود منگل 23 دسمبر 2025
طاقت اور جہالت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر