وجود

... loading ...

وجود
وجود

ملک میں مہنگائی کانیا طوفان آنے کا خدشہ‘ قیمتوں میں 6 فیصد تک مزید اضافہ ہوسکتاہے

جمعه 06 اکتوبر 2017 ملک میں مہنگائی کانیا طوفان آنے کا خدشہ‘ قیمتوں میں 6 فیصد تک مزید اضافہ ہوسکتاہے

حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ جس سے ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان کے آنے کاامکان مزید بڑھ گیا ہے۔پیڑولیم کی قیمتوں میں اس اضافے سے صرف ٹرانسپورٹ کاشعبہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں تمام اشیائے صرف کی قیمتوں اور خدمات کی اجرتوں میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر دو ڈھائی روپے کا یہ اضافہ ملک کے 2 سے5 فیصد متمول گھرانوں کے لیے تو معمولی بات ہوگی اور ان گھرانوں میں شایداس اضافے کا نوٹس بھی نہ لیاجائے لیکن پیٹرول اورمٹی کے تیل کی قیمتوں میں یہ اضافہ ملک کے ہر گھر کے بجٹ کو بری طرح متاثر کرے گا اور بڑی تگ ودو کے بعد اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والے اس ملک کے 90 فیصد غریب لوگوں کو یاتو جسم وجان کاناطہ برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑے گی یا پھر ہفتہ میں ایک آدھ دن فاقہ کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کی جانب سے کئے گئے ایک حالیہ سروے کی رپورٹ کے مطابق عوام کی اکثریت ذہنی طورپر اس حقیقت کو قبول کرچکی ہے کہ اگلے 6 ماہ ان کے لیے زیادہ کٹھن ثابت ہوں گے کیونکہ اس دوران مہنگائی کی شرح میں کم وبیش 6 فیصد تک اضافے کاخدشہ ہے۔اس سروے جس کو کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس کانام دیاجاتا ہے کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اسٹیٹ بینک اس سروے کی بنیادپر ہی ہر دوماہ بعد بینکوں میں سود کی شرح کاتعین کرتاہے،اس سروے رپورٹ کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کمیٹی نے ملک میں نئی شرح سود کااعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کے اشتراک سے کئے گئے سروے سے ظاہرہوتاہے کہ عوام اگلے 6 ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافے کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود مہنگائی کی یہ شرح 6 فیصد سے کم رہے گی۔
جولائی اور اگست کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ یعنی جولائی اور اگست کے دوران مہنگائی کی شرح میں 3.2 فیصد کااضافہ ہواتھا جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران مہنگائی میں اضافے کی شرح 3.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اس طرح ہمارے ماہرین اس کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ وہ مہنگائی میں اضافے کو گزشتہ سال کی نسب کچھ کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔افراط زر چونکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے ماہرین معاشیات کاخیال ہے کہ اگلے 6 ماہ کے دوران مہنگائی میں کمی ہونے کاکوئی امکان نظر نہیں آتا اور اس کے برعکس قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
گزشتہ سال کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس کی شرح 165.43 پوائنٹس ریکارڈ کی گئی تھی جس میں تیزی سے اضافہ ہواہے جبکہ جولائی 2017 میں کئے گئے سروے کی رپورٹ میں اس کی شرح 173.81 پوائنٹ بتائی گئی ہے۔کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس متوقع اقتصادی صورت حال کی بنیادپر تیار کیاجاتاہے جس میں اگلے 6ماہ کے دوران اقتصادی صورت حال کے بارے میں گھرانوں کی توقعات اور گزشتہ 6 ماہ کی اقتصادی صورت حال کے تناظر میں رواں اقتصادی صورت حال یعنی سی ای سی انڈیکس کاجائزہ لیاجاتاہے۔کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس اور رواں اقتصادی صورت حال دونوں کاموازنہ کیاجائے تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ دونوں ہی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگلے 6 ماہ کے دوران شرح نمو میں اضافہ ہوگا ۔
ٍاس سروے سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ اس ملک کے عوام رواں اور مستقبل کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں کیاسوچتے ہیں،اور افراط زر ،شرح سود اور بیروزگاری کی صورت حال کے حوالے سے ان کے خیالات یاسوچ کیاہے اورخود اپنی آمدنی میں اضافے یا کمی کے بارے میں ان کے اندازے یا توقعات کیاہیں۔
کنزیومر کنفیڈنس سروے میںپورے پاکستان میں مختلف علاقوںمیں ٹیلی فون کے ذریعے مختلف علاقوں کے عوام سے ان کی رائے حاصل کی جاتی ہے،اس سروے کاآغاز جنوری2012 میں کیا گیاتھا اور ہر دوماہ کے وقفے سے یہ سروے کرایاجاتاہے۔حالیہ سروے اسٹیٹ بینک پاکستان اور آئی بی اے کے اشتراک اور تعاون سے مکمل کیاگیاہے۔
اطلاعات کے مطابق اس سروے کے دوران ملک کے مختلف علاقوں اور شہروںکے 1773 گھرانوں کی رائے معلوم کی گئی جس کے بعد اس کو مرتب کیاگیا اس سروے میں 33 فیصد ان لوگوں کو شامل کیاگیا تھا مارچ میں کئے گئے سروے کے دوران جن کی رائے لی گئی تھی جبکہ 67 فیصد نئے لوگوں کوسروے میں شامل کیاگیاتھا ،اس سروے رپورٹ سے مندرجہ حقائق اخذ کئے گئے ۔جس کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک نے اپنی پالیسی کی دیوار کھڑی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی دوماہی رپورٹ میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے امکانات تو ظاہرکردئے ہیں لیکن ان کے اثرات زائل کرنے اور ان کی وجہ سے عام آدمی کو پیش آنے والی مشکلات میں کمی کرنے کے اقدامات تجویز کرنے سے گریز کیاگیاہے اور یہ کام وزارت خزانہ کے ماہرین کے لیے چھوڑ دیاہے جن کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاہے ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وزیر خزانہ خود اس وقت احتساب کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوچلا ہو کہ اب ان کابچ نکلنا ممکن نہیں ہے اور اگر ان پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد انھیں سزا سنادی جاتی ہے تو وزارت خزانہ سے ان کاکوئی تعلق ہی نہیں رہے اس لیے کسی ایسے محکمے کی پالیسی سازی میں دماغ کھپانے کاکیا فائدہ جس سے ان کاتعلق ہی ٹوٹنے والا ہو۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے دیگر اعلیٰ افسران اور ماہرین معاشیات عوام کو افرط زر کی شرح میں ممکنہ اضافے سے بچنے کے لیے کیا ترکیب بتاتے ہیں یا ان کوریلیف فراہم کرنے کے لیے کیاطریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر