وجود

... loading ...

وجود
وجود

الزامات کی سیاست

پیر 25 ستمبر 2017 الزامات کی سیاست

پاکستان کا گلاسٹرا سیاسی نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے نااہلی اور ناکارہ حکمران اور سیاستدان گزشتہ 70 سال سے ملک میں سیوریج کا نظام تک درست نہیں کرسکے۔ کراچی کچرے اور گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ حالیہ بارشوں نے حکمرانوں کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ میئر کراچی اپنے انتخاب کے بعد سات ماہ تک تو جیل میں بند رہے۔ اب کہتے ہیں کہ ان کے پاس مالیاتی اور بلدیاتی اختیارات نہیں ہیں‘ سب کچھ سندھ حکومت نے چھین کر قبضہ کرلیا ہے۔ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی بدبو مار رہا ہے۔ مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین چراگاہ بن گیا ہے۔ ڈینگی اور چکن گونیا جیسے امراض نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے۔ سندھ فتح کرنے والے انگریز فاتح سرچارلس نیئپر نے کراچی کو’’مشرق کا موتی‘‘ قرار دیا تھا۔ آزادی کے بعد دیسی حکمرانوں کی نااہلی‘ کرپشن ‘قبضہ گیری اور بد عنوانیوں سے یہ چمکتا موتی ناکارہ پتھر بن گیا ہے۔
دبئی کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ یہاں سیوریج ‘صفائی اور ٹریفک کا نظام مثالی ہے۔ رات گئے بھی گاڑیاں چلانے والے ٹریفک سگنل کا اس وقت بھی پورا خیال رکھتے ہیں جب سڑک دور دور تک بالکل خالی پڑی ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ دونوں شعبے تباہی کا شکار ہیں ۔کسی دانا نے کہا تھا کہ کسی قوم کا مزاج جاننا ہوتو وہاں کا ٹریفک اور سیوریج کا نظام دیکھ لو پاکستان میں یہ دونوں شعبے برباد ہوچکے ہیں۔ دبئی میں جگہ جگہ مردوں اور مستورات کے لیے ’’واش روم‘‘ کی سہولت موجود ہے۔ پاکستان میں یہ شے عنقا ہے۔ بالخصوص خواتین تو اس معاملے میں بالکل ہی محروم ہیں‘ بڑے بڑے بازاروں اور مارکیٹوں میں انہیں یہ سہولت دسیتاب نہیں ہے۔ حکومتوں نے غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرضوں پر قرضے حاصل کئے۔ موجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو آئی ایم ایف سے قرضے کی ہر نئی قسط پر پھولے نہیں سماتے تھے اور اسے اپنا کارنامہ گنواتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے غریب قوم پر 38 ارب ڈالر قرضے کا مزید بوجھ چڑھا دیا۔ غیر ملکی قرضوں پر کمیشن تو حکمرانوں نے کھایا اور ادا پوری قوم کرے گی۔ ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے 2008 کے پرویز مشرف دور کے اختتام تک جو قرضہ 36 ارب ڈالر تھا وہ 83 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خطیر قرضے کے باوجود ملک اور بالخصوص کراچی میں سیوریج کا نظام تک درست نہیں کیا گیا ہے چاروں طرف پھیلی اس گندگی نے ذہنوں کو بھی پرا گندہ کردیا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔ لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان چور اور ڈاکو کا شور مچاکر تھک گئے‘ 29 ہزار ووٹوں کو مسترد کرنے کا معاملہ بھی آیا لیکن ووٹرز نے اسحاق ڈار کی سمدھن بیگم کلثوم نواز کو منتخب کرلیا۔ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا قوم کے لیے برے بھلے کی تفریق مشکل ہوگئی ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں پھیلی گندگی سیاست میں گھس آئی ہے۔ کسی صحافی نے چین کے صدر سے پوچھا کہ آپ کی ترقی کا کیا راز ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین سال کے دوران 300 کرپٹ وزیروں کو پھانسی دی ہے۔ یہی راز ہے۔
پاکستان کے دو سابق صدور ایک دوسرے کو قاتل قرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کرپشن کے الزام میں نااہل ہوچکے ہیں۔ قومی احتساب بیورو اور عدالتیں ان کا تعاقب کررہی ہیں ۔ سیاستدان ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور قاتل قرار دے رہے ہیں۔ سابق صدر پاکستانی جنرل(ر) پرویز مشرف اقتدار سے علیحدگی کے بعد دس سال تو خاموش رہے‘ پھر اچانک انہیں خیال آیا کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو آصف علی زرداری نے قتل کرایا ہے۔اس کے لیے انہوں نے ایک بڑی خوبصورت سے کہانی بھی پیش کی۔ پہلے ان کا ویڈیو بیان وائرل ہوا۔ پھر پاکستانی میڈیا کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت میں طالبان لیڈر بیت اﷲ محمود کا ہاتھ بتایا جنہوں نے کابل میں بیٹھ کر اپنے آدمیوں سے یہ واردات کرائی۔ ان5 افراد کو گزشتہ دنوں جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے ذہن میں قتل کا سلسلہ کابل سے جوڑتے وقت شاید پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل بھی تھا۔ جن کے قتل کے لیے کابل سے کرائے کا قاتل سید اکبر درآمد کیا گیا تھا۔ اتفاق ہے کہ قتل کی یہ واردات بھی راولپنڈی میں انجام پائی۔ لیاقت علی خان بھی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے کہ دوران تقریر سید اکبر نے گولی چلادی اس کے گولی چلاتے ہی اس کے ساتھ بیٹھے سیکورٹی افسر نے سید اکبر کو گولی مارکر ہلاک کردیا جو ڈی آئی جی اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات پر مامور ہوا اس کا جہاز تحقیقاتی رپورٹ سمیت راولپنڈی سے کراچی آتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوگیا۔ یوں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا قتل تاریخ کے قبرستان میںدفن ہوگیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنی کہانی میں دونام جوڑے ہیں‘ ایک خالد شہنشاہ جو کراچی کا گینگسٹر تھا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت ان کی جیپ میں سوار تھا اور بعدازاں پر اسرار طور پر مارا گیا ۔دوسرا نام بلال شیخ کا ہے جو گرومندر کراچی سے گزرتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ۔پرویز مشرف نے اپنی کہانی میں جو تانے بانے بنے ہیں۔ ان کی بنیاد پر آصف علی زرداری کو ذمہ دار ٹھرایا ہے لیکن دوسرے ہی دن آصف علی زرداری اور ان کو صاحبزادی آصفہ بھٹو نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے انہیں آڑے ہاتھوں لیا ان کا اشارہ ملنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو سے لے کر دیگر رہنماؤں تک سب نے پرویز مشرف کی سمت منہ کرکے ’’قاتل قاتل‘‘ کا شور مچانا شروع کردیا۔ پرویز مشرف کی پارٹی ابھی بہت چھوٹی اور نو زائیدہ ہے۔ ان کے پاس پیپلز پارٹی جتنے منہ اور زبانیں نہیں ہیں لہٰذا پروپیگنڈے کی جنگ میں وہ کمزور پڑرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں تین درخواستیں دائر کی ہیں اور انہیں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے وقت وہ فوج میں بریگیڈیئر تھے سیاست میں نہیں تھے ورنہ یہ الزام بھی ان کے سر آسکتا تھا۔الزامات کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تو سیاستدانوں کا یہ محبوب مشخلہ ہے۔
ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین کو سیاست سے الگ کرکے لندن بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا تو وہ پاکستان اور اس کے اداروں ہی کے خلاف ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر ان کی پاکستان مخالف تقاریر عام ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہمیں تباہی کی سمت لے جارہی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کل تھے آج نہیں ہیں لیکن پاکستان کے 22 کروڑ عوام ایک زندہ حقیقت ہیں۔ انہیں روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ روزگار‘ سکون‘ تحفظ‘ سلامتی اور تعلیم درکار ہے۔ پرویز مشررف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں لیکن جانے والے چلے گئے اور لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے عوام آج کے دن موجود ہیں۔ ان کے لیے ملک کو ایک اچھا اور کار آمد نظام مملکت درکار ہے جس سے ان کی ترقی وخوشحالی کی راہیں کھل سکیں۔ ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی تفتیش اور تحقیقات کرے اور آپس میں دست وگریباں سیاستدانوں کو گھر بٹھا دے اور ملک میں ایک اچھے نظام کی بنیاد رکھ دے۔ فوج کی طاقت سے یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے پاکستان میں صنعتی اور زرعی ترقی کے بانی صدر جنرل ایوب خان مرحوم نے پرا وڈا اور ایبڈو کے ذریعے باہم برسرپیکار سیاستدانوں کو گھر بٹھایا تھا اور دس سال بعد 1970 میں عام انتخابات ہوئے تو ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر ایسے ہی سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2018 کے انتخابات قریب ہیں۔ لٹیرے سیاستدان للچائی ہوئی نظروں سے پاکستان کے با قیماندہ وسائل بھی لوٹنے کے چکر میں ہیں۔ کیا اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل اسی طرح سے جاری رہے گا؟


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر