وجود

... loading ...

وجود
وجود

دریائے اسپرے کے کنارے واقع برلن جرمنی کی عظیم تاریخ اور ماضی کا گواہ

اتوار 24 ستمبر 2017 دریائے اسپرے کے کنارے واقع برلن جرمنی کی عظیم تاریخ اور ماضی کا گواہ

جرمنی کا دارالحکومت برلن 35 لاکھ کی آبادی والا سب سے بڑا شہر ہے جو قدیم و جدید دونوں انداز کے ساتھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اِس شہر کی سیاحت کے لیے ہم نے زمینی راستہ اختیار کیا اور سوئیڈن کے دارالحکومت سے تقریباً1400 کلومیٹر کا سفر کرکے یہاں پہنچے۔ کار کے ذریعے زمینی سفر کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے جس سے راستہ میں گزرتے ہوئے پورے خطّے کی سیاحت ہوجاتی ہے۔ کوپن ہیگن پہنچنے کے لیے ہمیں ڈنمارک اور سوئیڈن کے درمیان بحیرہ بالٹک پر 16 کلومیٹر طویل پل بھی عبور کرنا پڑا جس کا چار کلومیٹر حصہ زیرِ آب یعنی سمندر کے اندر ایک سرنگ (ٹنل) کی صورت میں ہے۔ کوپن پیگن سے 170 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے ڈنمارک کے ساحلی قصبہ روڈ بائے ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ اگلے روز وہاں سے فیری لی تاکہ جرمنی کے ساحلی شہر پْٹ گارڈن پہنچ سکیں۔ اٹھارہ کلومیٹر فاصلہ کوئی پون گھنٹے میں طے ہوا اور دورانِ سفر فیری میں مسافروں کی تفریح اور خریداری کے لیے ہر طرح کی سہولتیں موجود تھیں
پٹ گارڈن سے ہمیں چارسو کلومیٹر سفر طے کرکے جرمنی کے شہر برلن پہنچنا تھا۔ جرمنی میں کشادہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہاں کی موٹر وے کو ’’آٹوبان‘‘ کہتے ہیں۔ پورے ملک میں ایک جال کی طرح پھیلی ہوئی اِس موٹر وے کے بہت سے حصوں میں کوئی حدِ رفتار نہیں۔ تیز رفتار گاڑی چلانے والے یہاں اپنا شوق جی بھر کر پورا کرتے ہیں۔ سویڈن میں موٹر وے پر 120 کلومیٹر فی گھنٹے سے زیادہ رفتار پر گاڑی نہیں چلائی جاسکتی اس لیے میری اہلیہ نے جرمن آٹوبان پر تیز رفتار گاڑی چلانے کا شوق پورا کیا اور 190 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتارتک گاڑی چلائی۔ میری درخواست پر انہوں نے اِس سے زیادہ رفتار نہ بڑھائی۔ برلن جاتے ہوئے لہلہاتے کھیت بھی دیکھنے کو ملے جن میں پنجاب اور سندھ کی جھلک نظر آئی۔ ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کی ضروریات بھی زیادہ ہیں اور جرمنی جیسے صنعتی ملک میں اور بھی زیادہ توانائی چاہیے، اِس لیے جابجا ہمیں بجلی پیدا کرنے والی چکیاں نظر آئیں جو ماحول دوست بھی ہیں۔
دریائے اسپرے کے کنارے واقع برلن شہر جرمنی کی عظیم تاریخ اور ماضی کا گواہ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد فاتح چار ملکی اتحادی افواج یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سویت یونین نے اسے چار زونز (علاقوں) میں تقسیم کرکے بانٹ لیا۔ امریکا، برطانیا اور فرانس پر مشتمل حصہ مغربی جرمنی (Federal Republic of Germany) جبکہ سویت یونین کے ماتحت حصہ مشرقی جرمنی (German Democratic Republic) کہلایا۔ اسی طرح برلن شہر کو بھی مغربی اور مشرقی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ مشرقی جرمنی اور مشرقی برلن سے بہت سے لوگ کیمونسٹ طرز حکومت کی سختی اور دیگر جبری قوانین سے بچنے کیلیے مغربی جرمنی اور مغربی برلن کی جانب نقل مکانی کرنے لگے۔
مشرقی جرمنی کی حکومت نے یہ سلسلہ روکنے کے لیے مغربی جرمنی کے ساتھ اپنی 1400 کلومیٹر طویل سرحد کو ناقابل عبور بنادیا۔ مشرقی برلن سے مغربی برلن سرحد پار کرنے کی کوششوں کو ختم کرنے کے لیے 1961ء میں مشرقی جرمنی کی پولیس نے 155 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کردی، جس کا 43 کلومیٹر حصہ مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان تھا۔ دیوار برلن میں 302 واچ ٹاور تھے، گیارہ ہزار مسلح سپاہی دن رات اِس کی نگرانی کرتے تھے اور بلا اجازت عبور کرنے والوںکے لیے سزائے موت مقرر کردی۔ اِس جبری بندش کو مشرقی برلن کے باشندوں نے قبول نہ کیا اور دس ہزار سے زائد لوگوں نے اسے عبور کرنے کی کوشش کی لیکن نصف تعداد ہی اْس میں کامیاب ہوسکی جبکہ دو سو سے زائد افراد جان سے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی جرمنی کے گارڈ جو اسے عبور کرنے والوں کو روکنے کے لیے تعینات تھے، اْن میں سے 6 سو کے قریب خود مغربی جرمنی فرار ہوگئے۔
یہ جبری بند اور جرمن عوام کو تقسیم کرنے والی دیوار 9 نومبر 1989ء میں عوامی ریلے کے آگے منہدم ہوگئی اور دونوں حصے آپس میں پھر سے مل گئے۔ یہ اِن غاصب قوتوںکے لیے بھی پیغام ہے جنہوں نے جموں و کشمیر اور دنیا کے کچھ اور علاقوں میں عوام کو دیوارِ برلن جیسی رکاوٹوں اور جبر کی دیواروں سے منقسم کر رکھا ہے؛ اور وہ پیغام یہ ہے کہ زیادہ عرصہ لوگوں کو غیر فطری طور پر ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی شہر میں اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ربع صدی سے ایک تنظیم ’’بزم ادب قائم‘‘ ہے جس کے جنرل سیکریٹری سرور غزالی ہیں۔ وہ صاحب طرز ادیب اور منفرد اسلوب کے حامل افسانہ نگار بھی ہیں جن کی کتب ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیوار برلن کے انہدام والے دن سب جرمن باشندے گھروں سے نکلے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑا یا توڑنے والی کوئی چیز تھی۔ اس طرح عوامی ریلے کے آگے وہ دیوار زیادہ دیر نہیں ٹھہرسکی۔
اب دیوار برلن کا تھوڑا سا حصہ باقی رہنے دیا گیا ہے جسے ’’ایسٹ گیلری‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جس پر دنیا بھر کے مصوروں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ مصوروں نے بہت دلچسپ انداز میں اپنے فن کا اظہار کیا ہے اور دیوار پر نقوش ونگار بنا کر اسے ایک آرٹ گیلری میں تبدیل کردیا ہے۔ زیادہ تر مصوروں نے امن، بھائی چارے اور جبری تقسیم کے خلاف تصاویر بنائی ہیں۔ ایسٹ گیلری کا یہ علاقہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے اور ساتھ ہی دریا کے کنارے کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہتی ہے۔ برلن کے ریلوے اسٹیشن کی عمارت بہت شاندار ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ منقسم برلن میں یہ ریلوے اسٹیشن سرحد کا کام دیتا تھا۔
برانڈنبرگ گیٹ اِس شہر کی پہچان ہے اور یہاں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہ بابِ فتح اٹھارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ اسے شہر کے مرکزی دروازے کی حیثیت حاصل تھی۔ یونانی فن تعمیر کا یہ شاہکار تین محرابوں پر مشتمل گیٹ ہے جس پر فتح کی دیوی ایک ہاتھ میں چار ببر شیروں کی لگامیں تھامے کھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ میں صلیب کا نشان جس کے اوپر عقاب ایک شان سے بیٹھا ہوا ہے۔ نپولین نے جب برلن پر حملہ کیا تھا تو وہ اس مجسمے کو اٹھا کر لے گیا تھا لیکن بعد میں اسے دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کردیا گیا۔
منقسم جرمنی کے دور میں یہ علاقہ غیر تھا اور یہاں کسی کو پر مارنے کی بھی جرات نہ تھی لیکن اب یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ جب دیوار برلن تعمیر ہوئی تو یہ گیٹ اْس کی ایک راہداری کا حصہ بن گیا لیکن اب یہ جرمنی کے اتحاد اور وقار کی علامت ہے۔ یہاں کی کشادہ سڑکیں اور وسیع علاقہ جرمنی کی قدیم و جدید تاریخ کا گواہ ہے۔ اِس دروازے کے ساتھ ہی بہت سی اور تاریخی عمارتیں بھی ہیں جو قابلِ دید اور فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
دیوار برلن اور برانڈنبرگ گیٹ کے علاوہ یہاں ٹی وی ٹاور، آرٹ اکیڈمی، برلن کیتھیڈرل، ہٹلر کا آخری بنکر، پارلیمنٹ ہاؤس اور دوسری اہم تاریخی عمارتیں ہیں۔ جرمنی کی تاریخ خصوصاََ جنگ عظیم دوم کے دور میں ہونے والے اہم واقعات کی یاد میں شہر میں بہت سی یادگاریں اورمجسمے ہیں۔ برلن وکٹری کالم بھی شہر کی سیاحت کرنے والوں کا ایک اہم مرکز ہے۔ اہم سڑکوں کے درمیان ایک گول چکر کے اندر77 میٹر اونچے مینار پر وکٹوریا کا سنہری مجسمہ یہاں سے ہر گزرنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے۔ یہ مینار انیسویں صدی میں بریشیا (قدیم جرمنی) کی فرانس، آسٹریا اور ڈنمارک سے ہونے ہونے والی جنگوں میں فتح کی یاد میں بنایا گیا ہے اور دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے کوئی نقصان نہ پہنچا۔ ساتھ ہی سڑک کی ایک جانب اْس دور کے فیلڈ مارشل ہیلمتھ بیرن ہارڈ مولتکے کا مجسمہ ہے۔اگر وقت ہو تو شہر کے میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جو عہدِ ماضی کو اس انداز سے دکھا رہے ہیں کہ جیسے ہم خود اْس دور کا حصہ ہوں۔ کئی سیاح مادام تساؤ کے مومی مجسمہ گھر کا بھی رخ کرتے ہیں۔
(واضح رہے کہ مادام تساؤ کے مومی عجائب گھر کی شاخیں مختلف یورپی شہروں میں قائم ہیں۔) خواتین اور بچے ساتھ ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی خریداری مرکز کا دورہ نہ کیا جائے۔ برلن کے نواح میں واقع آؤٹ لیٹ میں سب نے جی بھر کر خریداری کی، جہاں اشیاکی قیمتیں بہت مناسب اور سویڈن سے خاصی کم تھیں۔ ان طویل مصروفیات کے بعد ہوٹل میں وہ نیند آئی کہ بمشکل ناشتے سے پہلے اٹھ سکے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر