وجود

... loading ...

وجود

نواز شریف کے4سالہ دورکے اربوں ڈالر قرض کی رقم کہاں گئی؟

هفته 16 ستمبر 2017 نواز شریف کے4سالہ دورکے اربوں ڈالر قرض کی رقم کہاں گئی؟

ملک پربڑھتے ہوئے گردشی یاسرکلر قرضوں، درآمدات میں بے انتہا اضافے اور برآمدات میں کمی کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں ملازم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں کمی کی وجہ سے ملک کی معیشت سنگین صورت حال کاشکار ہوکر رہ گئی ہے اور ملکی حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ہماری معیشت بری طرح گرداب میں پھنسی نظر آرہی ہے ، اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے زرمبادلے کے ذخائر غیر ضروری طورپر بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے قومی ادارے گروی رکھ کر دنیا کے کم وبیش تمام مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرلیا ہے اور اب ان قرضوں پر سود اور منافع کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہاںتک اطلاعات ملی ہیں کہ عالمی بینک نے پاکستان کو مزید قرض دینے سے انکار کردیاہے،اور اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف عوام کاایک بڑا طبقہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے اور دوسری طرف حکمراں ہرطرف سے آنکھیں بندکرکے ، شاہانہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیںلیکن اس کے باوجود ان کی لالچ اور اقتدار کی بھوک اپنے انجام تک نہیں پہنچ رہی ، حقیقی معنوں میں اس وقت ملک کے اندرونی و بیرونی حالات اپنی سمت تبدیل کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میںہر طرف افراتفری کاسماں نظر آرہا ہے۔
بیرونی سطح پر پاکستان کو گوناگوںچیلنجوں کاسامنا ہے ،سابق وزیر اعظم کی انا کی وجہ سے ملک میں 4سال تک کوئی کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سطح پر بھارت امریکا کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف ایک محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کررہاہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی پوری مشینری سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے جانے والے عالیٰ جاہ کی امیج بلڈنگ اور ان کو نااہل قرار دینے والی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج صاحبان کی کردار کشی کی مہم پر لگادیا ہے۔نااہل قرار دئے گئے عالی جاہ کے نورتنوں اور ان کے سیاسی جانشین اب عوام کو یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کے 20کروڑ عوام نے ان کو ووٹ دیکر اسمبلی میں بھیجا تھا ، اوراعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے انھیں فارغ کردیا ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ن کو پاکستان کے20کروڑ نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ عوام نے ووٹ دیکر اقتدار کے ایوان میں بھیجا تھااور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ انھیں ووٹ دینے والے ان ڈیڑھ کروڑ عوام کی آشائیں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور اقتدار کے نشے میں خود کو شہنشاہ اعظم تصور کرنے لگے، اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت وہ کسر شان سمجھتے تھے یہاں تک کہ شبانہ روز محنت کے بعد منتخب ہوکراسمبلی میں اکثریت بنا کر انھیں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے لیے بھی ان کے پاس وقت نہیں تھا ۔ کرپشن اور اقرباپروری کی سیاست میں لت پت حکمران ہمیشہ سے ہی اپنے “جاہ و جلال “اور بڑے محلات میں بادشاہت کی طرز پررہنا پسند کرتے ہیں آج ملک میں جس سیاسی لیڈرشپ کے فقدان کی باتیں ہو رہی ہیں اللہ جانتا ہے کہ پاکستان میں “کرپشن “اور “معیشت “ کی تباہی کو پروان چڑھانے میں ان سیاستدانوںکا اول دن سے ہاتھ رہا ہے ، اگرماضی کی تلخ حقیقتوں کو کھنگال کر دیکھاجائے تو ایسے ایسے تماشے اور کرپشن کی کہانیاں سننے کو ملیں گی جو رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہوں گی۔ملک کے اربوں روپے لوٹنے والوں کو چند ٹکوں کے عوض چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ پاکستان میں کرپشن کو ختم کرنے ، اداروں کو مضبوط اور “کشکول “ توڑنے کے حوالے سے جس طرح کے دعوے کیے گئے تھے۔ آج سے چار سال قبل اگر ان پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا جاتا توشاید ان کو آج دربدر نہ ہونا پڑتا ، مگر یہاں کرپشن کی گنگا آج تک بہہ رہی ہے پاکستان کا غریب طبقہ مصائب اور مشکلات کے لاتعداد مسائل میں جکڑاہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہی “کرپشن “کا ناسور ہے جو ملک کی بنیادوں کومضبوط نہیں ہونے دے رہا۔
پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس کی ذمہ داری کسی ایک حکمران یا فرد پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں ایڈمنسٹریٹر سے لیکر چپڑاسی تک کرپشن کرنا اپنا قانونی اور جائز حق سمجھتا ہے اور اپنے جائز کام کرانے کے لیے بھی رشوت دینا ایک ضرورت بن چکا ہے۔ کرپشن کی لعنت نے جس قدر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت “دہشت گردی سے بڑا مسئلہ پاکستان میںکرپشن کاخاتمہ ہے “ مگر ایسا کون اورکیسے کرے گا یہ ایک تلخ سوال ہے جس کاجواب حاصل کر نااگرچہ پاکستان کے ہر فرد کا حق ہے ، لیکن اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نظر نہیں آتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کا پورا نظام اس وقت سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہے جن کا مقصد پاکستان میں حکومت کرنا اور یہاں سے مال و دولت اکٹھا کرکے بیرون ملک محلات کھڑے کرناہے،تاکہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد پوری زندگی عیش وآرام سے گزار سکیں اور چین کی بانسری بجائیں ۔ آپ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کر دیکھیں اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ،اسے فلاحی ریاست بنانے کے لیے قائد محمد علی جناح جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے جو افکار و نظریات ہمیں دئیے آج اس کا عشر عشیر بھی اگر پاکستان کو مکمل فلاحی ریاست بنانے کے لیے وقف کر دیاجاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔سابقہ ادوار سے لیکر موجودہ حکومت تک سب نے کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اگر یہ نہیں مانتے تو یہ پاکستان کے عوام کو خود سمجھنا ہوگا ، پاناما اسیکنڈل اس کی ایک کڑی تھا۔اسی کیس کے حوالہ سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں سابق حکمرانوں کی مزید ایسی کمپنیوں کا انکشاف ہوا جس نے پاکستان کے 20کروڑ عوام کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ جبکہ اس کیس کے بعد سے آج تک موجودہ حکومت کے نورتن اور سابق حکمران ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ “مجھے کیوں نکالا“ہمیں“کرپشن “کی وجہ سے نااہل نہیں کیا گیا بلکہ اپنے ننھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی صورت میں نااہل کر دیا گیا ، یہ وہ شرمناک فعل ہے جو پاکستان کے عوام کو ایک مرتبہ پھر لالی پاپ دینے کی کوشش ہے ، اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میںگزشتہ چار سال کے دوران کیا گل چھرے اڑاے گئے۔کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے مگر انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اربوں ڈالر قرض لیکر ملک کا نظام چلانے کی کوششیں کی گئیں جو شاید ماضی کی کرپٹ ترین حکومت نے نہ کی ہوں۔ ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق پاکستان کا ہر فرد 95ہزار روپے کا مقروض ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ میں بھی حقائق چھپائے گئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر پاکستانی ایک لاکھ 16ہزار روپے کا مقروض ہے۔پاکستان پرواجب الادا قرضوں کے بارے میں جو حقائق قومی اسمبلی میںپیش کیے گئے اس سے قطع نظر اگر باریک بینی سے ان قرضوں کابغور جائزہ لیاجائے اور دیکھاجائے تو پاکستان کی اس حکومت نے جو خود کو پاکستان کی کامیاب ترین حکومت کہتے ہوئے نہیں تھکتی قرضوں کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اور انتہائی ظالمانہ شرائط پر ملکی وغیر ملکی اوربھاری سود پر قرضے لے کر پوری قوم کو مقروض بنا دیا ہے۔موجودہ حکومت نے ملک کے بچے بچے کوقرضوںمیں توجکڑ دیاہے لیکن صحت اور تعلیم جیسے اہم ترین شعبوں پر رتی برابر کام نہیں کیا گیا بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کو اگر ایماندار ی سے خرچ کیاجاتا تو پاکستان میں تعلیم اورصحت جیسے شعبوں کوخاطر خواہ ترقی دی جاسکتی تھی اور پاکستان میںعام شہریوں کوبھی علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔
آج پاکستان کے 20کروڑ عوام گزشتہ 4سال تک حکمرانی کرنے والوںسے یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ “ہمارے مسائل ختم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے ہی کیوں جارہے ہیںاور بھاری شرح سود پر حاصل کئے جانے والے قرضوں کی بھاری رقم کہاں غائب ہو جاتی ہے کس کے اکائونٹس میں منتقل ہورہی ہے “ پاکستان کا ہر شہری لاکھوں روپے کا مقروض ہے مگر ان کی حالت بہتر کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔
ملکی معیشت کو دیکھاجائے تو آج ہماری برآمد اور درآمدات میں زمین آسمان کا فرق حائل ہے 20سال قبل پاکستان کی برآمدات کا حجم آج کی درآمدات سے زیادہ تھا مگر آج ہماری برآمدات تشویش ناک حد تک نیچے آچکی ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے قرضوں کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اس حکومت نے اپنے چار سال کے دوران تقریبا36ارب ڈالر قرضہ لیا ان بے تحاشہ قرضوں میں انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر مالیاتی اداروں سے لی گئی 18ارب ڈالر کی رقم پہلے لیے گئے قرضوں کی ادائیگیوںکے لیے تھی جبکہ اس میں 18ارب ڈالرکا وہ نیا قرضہ شامل ہے جو کہاں خرچ کیا گیا آج تک اس کا کسی کو علم نہیں ۔ موجودہ حکومت نے9ماہ کے دوران 819ارب روپے مزید مقامی قرضے لیے ، 31دسمبر 2016تک مجموعی قومی قرضوں کی مالیت 12ہزار 310ارب روپے تھی جو آج 20ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ یکم جولائی 2016سے لیکر 31مارچ 2017کے دوران موجودہ حکومت نے 819ارب روپے اندرونی قرضے لیے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور تجارتی بینکوں سے حاصل کیے گئے حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 735ارب روپے جبکہ تجارتی بینکوں سے 84ارب روپے قرضے لیے ان قرضوں کابھی کچھ اتاپتہ نہیں اس حکومت نے یہ رقم کہاں خرچ کی ، ان تمام تر حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ ہمارے حکمران پروٹوکول اور شاہانہ زندگیاں گزارنے کے لیے ہی حکومت میں آتے ہیںا ور اقتداربے دخل ہوتے ہی وہ موسمی پنچھی کی طرح اڑکر لندن ،امریکا یا دبئی میں آشیانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،اس صورتحال کاتقاضہ ہے ہمیںاب یہ سوچنا ہوگا کہ اگر آج ہم نے اپنے مستقبل کا نہ سوچا تو کبھی بھی ہم ان مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔


متعلقہ خبریں


ایک شخص قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ،ترجمان پاک فوج وجود - هفته 06 دسمبر 2025

تم کیا سمجھتے ہو خود کو؟ وہ سمجھتا ہے میں نہیں تو کچھ نہیں،آپ کو جو سیاست کرنی ہے کریں فوج کو اس سے دور رکھیں،پاکستان کے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے نہیں دیں گے، ڈی جی آئی ایس پی آر ذہنی مریض کے ٹویٹ کو افغان اور بھارتی میڈیا نے منٹوں میں وائرل کیا،اپنے بیٹوں کو تو تم نے باہر...

ایک شخص قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکا ،ترجمان پاک فوج

بلاول بھٹو کا وفاق سے صوبوں کو مزید اختیارات دینے کا مطالبہ وجود - هفته 06 دسمبر 2025

سندھ کو جی ایس ٹی کی ذمہ داری دے تو ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع کرسکتے ہیں،جب ہم ہدف سے زیادہ پیسے جمع کریں گے تو پھر اضافے کی رقم کو سندھ کے عوام پر خرچ کریں گے،چیئرمین کی پیشکش وفاقی ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکے،بحران اور مشکلات سے ہم سب کو ملکر لڑنا ہوگا،وفاق کے بحران کو بنی...

بلاول بھٹو کا وفاق سے صوبوں کو مزید اختیارات دینے کا مطالبہ

اجرک ڈے کا احترام، ملک دشمن نعرے قبول نہیں، آفاق احمد وجود - هفته 06 دسمبر 2025

سندھی ہمارے بھائی اور ہم پاکستان میں آباد تمام قومتوں اور انکی ثقافت کا احترام کرتے ہیں ضرورت پڑی تو ثابت کرینگے یہ شہر بانیانِ پاکستان کا ہے، چیئرمین کی وکلاء وفدسے ملاقات مہاجر قومی موومنٹ(پاکستان) کے چیئرمین آفاق احمد سے خرم ایڈووکیٹ کی قیادت میں وکلاء کے ایک وفد نے ملاق...

اجرک ڈے کا احترام، ملک دشمن نعرے قبول نہیں، آفاق احمد

سیاسی بیان بازی ، عمران خان سے علیمہ اور عظمیٰ کی ملاقاتیں بند وجود - هفته 06 دسمبر 2025

قانون میں واضح ہے ملاقات میں سیاست پربات ہوسکتی نہ ملاقات پر سیاست اڈیالہ جیل کے باہر امن و امان کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی حکومت نے سیاسی بیان بازی پر بانی سے بہنوں کی ملاقاتیں بند کردیں، قانون میں واضح ہے ملاقات میں سیاست پربات ہوسکتی نہ ملاقات پر سیاست۔ قا...

سیاسی بیان بازی ، عمران خان سے علیمہ اور عظمیٰ کی ملاقاتیں بند

سہیل آفریدی مشکل میں،پی ٹی آئی کیلئے بری خبر وجود - جمعه 05 دسمبر 2025

وزیر اعلیٰ پختونخوا کیخلاف عدالت میں حاضر نہ ہونے پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع مینا آفریدی اور ڈاکٹر امجدبھی شامل ، انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات نے سماعت کی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کیخلاف عدالت میں حاضر نہ ہونے پر اشتہاری قرار دینے کی کارر...

سہیل آفریدی مشکل میں،پی ٹی آئی کیلئے بری خبر

امن معاہدہ کے باوجود صیہونی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری،غزہ میں مزید 7فلسطینی شہید وجود - جمعه 05 دسمبر 2025

المواسی کیمپ میںمتعدد زخمی ، اسرائیلی فوج کا رفح کراسنگ جزوی طور پر کھولنے کا اعلان جنوبی رفح کے علاقے میں صیہونیوں نے بارود برسا دیا،متعدد خیموں میں آگ بھڑک اُٹھی امن معاہدہ کے باوجود صیہونی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری، گزشتہ 24 گھنٹے میں غزہ میں مزید 7فلسطینی شہید اور متعدد زخ...

امن معاہدہ کے باوجود صیہونی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری،غزہ میں مزید 7فلسطینی شہید

آئی ایم ایف کرپشن رپورٹ، ذمہ داربچ نکلے، سینیٹ کمیٹی حکومت پر برہم وجود - جمعرات 04 دسمبر 2025

اراکین کی ایس آئی ایف سی کی کارکردگی، معاہدوں کے فقدان اور ملکی معاشی صورتحال پر بھی سخت تنقید، وزارت خزانہ، ایف بی آر افسران کی رشوت پر لڑائی ہوتی ہے، سینیٹر دلاور رپورٹ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری ، وزات خزانہ کیا حکومت رپورٹ اور 5300 ارب کی کرپشن کو تسلیم کرتی ہے؟ متعلق...

آئی ایم ایف کرپشن رپورٹ، ذمہ داربچ نکلے، سینیٹ کمیٹی حکومت پر برہم

جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھربھی مداخلت کررہے ہیں، سہیل آفریدی وجود - جمعرات 04 دسمبر 2025

صوبے میں ہرحال میں امن بحال کریں گے، بند کمروں کے فیصلے اب مزید قبول نہیں،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ہم نے عمران خان کے وژن کے مطابق عوام کو ریلیف دینا ہے، ان کیلئے ہی فیصلہ سازی کرنی ہے، خطاب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں ہے، و...

جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں، وہ پھربھی مداخلت کررہے ہیں، سہیل آفریدی

آزادی کیلئے اٹھنا ہو گا لڑناہوگا،عمران خان کا قوم کو پیغام وجود - بدھ 03 دسمبر 2025

عمران خان سے 29 روز بعد بہن کی ملاقات، انہیں سارا دن کمرے میں بند رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھی باہر نکالتے ہیں، ذہنی ٹارچر کا الزام، سہیل آفریدی فرنٹ فٹ پر کھیلیں، شاہد خٹک پارلیمانی لیڈر نامزد بانی بہت غصے میں تھے کہا کہ یہ مجھے ذہنی ٹارچر کر رہے ہیں، کہا جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ...

آزادی کیلئے اٹھنا ہو گا لڑناہوگا،عمران خان کا قوم کو پیغام

پی ٹی آئی کاہائیکورٹ کے باہر احتجاج، عمران کی رہائی کا مطالبہ وجود - بدھ 03 دسمبر 2025

پشاور و صوابی انٹرچینج میں احتجاج جاری، پارٹی قیادت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے سہیل آفریدی کا صوابی احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ،احمد نیازی کی میڈیا سے گفتگو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے حوالے سے پشاور اور صوابی میں پی ٹی آئی کا احتجاج جاری ہے جبکہ احتجاج...

پی ٹی آئی کاہائیکورٹ کے باہر احتجاج، عمران کی رہائی کا مطالبہ

مضبوط معیشت ہی سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا،وزیراعظم وجود - بدھ 03 دسمبر 2025

معاشی ترقی کیلئے عملی اقدامات اُٹھا رہے ہیںکاروباری شخصیات اور سرمایہ کار قابل احترام ہیں مختلف ورکنگ گروپس کی تجاویز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا،شہباز شریف کا اجلاس سے خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ برآمدات میں اضافے پر مبنی ملکی معاشی ترقی کیلئے عملی اقدامات اُ...

مضبوط معیشت ہی سے ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوگا،وزیراعظم

افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ وجود - منگل 02 دسمبر 2025

سوشل میڈیا پر 90 فیصد فیک نیوز ہیں، جلد کریک ڈاؤن ہوگا،کوئی لندن میں بیٹھ کر بکواس کررہا ہے اداروں میں مسئلہ چل رہا ہے ،بہت جلد آپ یہاں آئیں گے اور ساری باتوں کا جواب دینا ہوگا، محسن نقوی تینوں صوبوں میں افغان باشندوں کیخلاف کارروائی جاری ، پختونخوا میں تحفّظ دیا جا رہا ہے، ج...

افغان ہمارے مہمان نہیں، واپس چلے جائیں،دھماکے برداشت نہیں کر سکتے ، وزیر داخلہ

مضامین
بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی وجود هفته 06 دسمبر 2025
بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا وجود جمعه 05 دسمبر 2025
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر وجود جمعه 05 دسمبر 2025
پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست وجود جمعه 05 دسمبر 2025
آسام میں نیلی کا قتل عام اور کشمیر کی سیاست

صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں! وجود جمعه 05 دسمبر 2025
صرف رجسٹرڈ وی پی اینز کا استعمال کریں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر