... loading ...
پرانی دہلی کی پیچیدہ گلیوں کے نام قدیم دستکاریوں اور تجارت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں ۔ جیسے سوئی والاں یعنی درزیوں کی گلی، پھاٹک تیلیاں یعنی تیل نکالنے والوں کی گلی، کناری بازار یعنی کنارا یا کڑھائی بازار، گلی جوتے والی یعنی موچیوں کی گلی، چوڑی والاں یعنی چوڑی بنانے والوں کے گھر، اور قصاب پورہ یعنی وہ جگہ جہاں قصائی اپنا کاروبار کرتے ہیں ۔ کاریگر، تاجر اور محنت کش یہاں رہے، کام کیا اور کمایا۔
ایک وقت تھا کہ جب یہ گلیاں اردو کی ایک بڑی ہی مزیدار اور محاوراتی بولی سے گونج رہی ہوتی تھیں ، اس زبان کو کرخنداری کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کارخانوں میں کام کرنے والوں کی بولی تھی، لیکن کئی دیگر مزدور برادریوں نے بھی اس بولی کو اختیار کر لیا تھا۔
کرخنداری زبان پر سماجی و زبانی اعتبار سے سب سے پہلی تحقیق سینئر اردو دانشور گوپی چند نارنگ نے 1961 میں پیش کی۔ ان کے اندازے کے مطابق یہ زبان علاقے کے چاروں طرف، چاندنی چوک، فیض بازار، آصف علی روڈ اور لاہوری گیٹ میں 50 ہزار کے قریب لوگ استعمال کرتے ہیں ۔لیکن نارنگ کی تحقیق کے دنوں سے اب تک پرانی دہلی میں زبردست تبدیلی رونما ہو چکی ہے ۔ کئی اقسام کی دستکاریاں اور پیشے دم توڑ چکے ہیں اور پرانے وقتوں کے رہائشی دہلی کے نئے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں ۔ وہ لوگ جو یہیں پر رہے اور اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ گئے ان کی زبان اتنی خالص نہیں رہ پائی کہ خود کو قائم رکھ پاتی۔
پرانے لہجوں کی تلاش
فوزیہ ایک اداکارہ اور د استان گو ہیں ، جو اسی علاقے میں پلی بڑھی ہیں ، انہوں نے اس زبان کو خاتمے کی دہلیز تک آتے دیکھا ہے۔ ان کا خاندان چار نسلوں سے ترکمان گیٹ کے قریب پہاڑی بھوجلا کے علاقے میں قیام پزیر ہے جہاں کرخنداری کا استعمال کسی دور میں کافی عام تھا۔جب تک ان کی دادی زندہ تھیں اور جب تک معیاری اردو یا ہندی نے اس زبان کی جگہ لینا شروع نہیں کی تھی، تب تک ان کے گھر میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس زبان کے چند نقوش روز مرہ کے استعمال میں رچ بس گئے ہیں ۔
کرخنداری زبان کے مانوس لہجوں اور دوستانہ خوش نوائی کی تلاش میں داستان گو نے دو سال قبل ترکمان گیٹ کی گلیوں کو چھان مارا۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ “کرخنداری بولنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گننے جتنی بچی ہے۔ اس زبان کو بے سلیقہ اردو تصور کیا جاتا ہے اس لیے لوگ جب آپ سے ملتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میرا تعلق دِلی 6 سے ہے تو وہ کہتے ہیں کہ “ارے، لیکن آپ وہ مزاحیہ اردو تو نہیں بولتے۔”داستان گو اب گوپی چند نارنگ کی تحقیق، اپنی یادوں اور تاریخ دان و سماجی کارکن سہیل ہاشمی کے شہر کے بارے میں علمی خزانے کی مدد سے کرخنداری زبان یا لہجے میں ڈرامائی مضامین ترتیب دیتی ہیں ، جنہیں وہ مختلف فورمز پر پیش کرتی رہتی ہیں ۔
گزشتہ سال انڈیا ہیبیٹیٹ سینٹر میں منعقد ہونے والے ہندوستانی زبانوں کے فیسٹیول ‘سمانوے’ کے موقع پر فوزیہ نے ’دلی کے دھوبیوں کی زبان’ اور ’دلی کے نائیوں کی زبان’ پر بات کی۔کرخنداری زبان میں ‘اتنے میں ‘ چھوٹا ہو کر ‘اتے میں ‘ ہو جاتا ہے، نیچے، نیچو بن جاتا ہے، لونڈا یا لڑکا، لمڈا بن جاتا ہے، وہاں ، واں بن جاتا ہے، اس نے وسنے اور اچانک، اچانچک بن جاتا ہے اور کبھی، کبھوں ۔ہاشمی، جو قلعہ بند شہر میں مشہور ثقافتی چہل قدمیوں کی سربراہی کرتے ہیں ، نے بتایا کہ یہ پتہ لگانا تو بہت ہی کٹھن کام ہے کہ کرخنداری زبان شروع کہاں سے ہوئی لیکن لگتا ہے کہ جب 17 ویں صدی کے دوران شاہجہاں آباد—جو اب دہلی 6 ہے۔ وجود میں آ رہا تھا، شاید تب ہی اس کی ابتدا ہوئی ہو۔ شہر میں جب مختلف کاروبار ترقی پانا شروع ہوئے، تب ہر ایک نے ایک بڑی ہی منفرد لغت اختیار کر لی۔ ہاشمی نے بتایا کہ “دنیا کے تمام پرانے شہروں میں ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہے اور ایک ساتھ کام کیا۔ دہلی میں بھی ایسا ہوا ہے۔ مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کے پاس اپنے مخصوص کاروباری لفظوں کے لیے اپنی ایک مخصوص لغت تھی۔ مثلاً، پرانی دہلی میں قصائی جس لکڑی کے ٹکڑے پر گوشت کاٹتے ہیں اس کے لیے مڈی لفظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ قصاب پورہ میں اس لفظ کا استعمال کافی عام رہا ہوگا۔ نانبائیوں اور کبابیوں کی بھی اپنی اپنی ایک خاص بول چال ہوا کرتی تھی۔”ان کے نزدیک جو کاروباری لفظ اور اظہار کے طریقے عام تھے، انہوں نے آپس میں مل کر کرخنداری زبان کو تشکیل دیا۔ ہاشمی کہتے ہیں کہ 19 ویں صدی کے اوائل سے 20 ویں صدی کے اواخر تک مصنفین کے درمیان دہلی کی گلیوں کا لہجہ دلچسپی کا موضوع رہا۔نہ صرف شہر کی زبان بلکہ یہاں کی روایتی طرز زندگی کی جھلک بھی اردو ادب میں نظر آنا شروع ہوئی۔1857میں شہر میں ہونے والی تباہی کے بعد، شہر کی کھوتی ہوئی طرز زندگی کے لیے شہر کے مصنفین کے درمیان یاد ماضی کا شدید احساس پایا گیا۔ اس کھونے کے احساس نے ہی انہیں دہلی کی ثقافت، بشمول اس شہر کے مختلف کاروباروں سے جڑی زبان، کو قلمبند کرنے پر آمادہ کیا۔”
ان میں سے ایک مزاح نگار اشرف صبوحی بھی تھے۔ ان کا تخلیق کردہ گھمی کبابی نامی ایک کردار تھا جو ایک بڑی انوکھی طبعیت کا حامل کباب بنانے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ قلعہ بند شہر کی زبان بولتا ہے اور اسے اپنے گاہکوں ، جن میں بڑی نامور شخصیات شامل ہوتی ہیں ، کے کہنے پر جلدی کام کرنا پسند نہیں اور نہ ہی ان کا رعب کرنا اچھا لگتا ہے۔ یہ کہانی اکثر داستان کی صورت میں داستان گو سناتے ہیں ۔صبوحی کے دیگر خاکوں مثلاً دلی کی چند عجیب ہستیاں اور غبارِ کارواں میں پرانی دہلی کی انوکھی خصوصیات، وہاں کے رہائشیوں اور وہاں کی زبان کو قلمبند کیا ہے۔مہیشور دیال نے ‘عالم میں انتخاب دہلی’ میں شہر کی گلیوں کی انوکھی روایات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب کے موضوعات کچھ یوں ہیں ، دلی کی بولی ٹھولی، پھیری والوں کی آوازیں ، دلی کے بانکے۔ اسی طرح کا یاد ماضی کی پیاس بجھانے والا تحریری کام لکھنؤ میں اودھی ثقافت پر بھی ہوا۔
خواتین کی زبان
فوزیہ کہتی ہیں کہ اردو کے مختلف لہجے اس لیے بھی دم توڑتے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں ادبی یا خالص تصور نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری دادی کی اردو بہت ثقافتی محسوس ہوتی تھی، ان کی زبان میری اردو سے تو کافی بہتر تھی کیونکہ ان کی زبان بہت ہی عمدہ اور محاروں سے بھرپور ہوا کرتی تھی۔ان کا ہر جملہ مسکراہٹ سے لبریز ہوتا اور اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی ثقافتی حوالہ ضرور شامل ہوتا۔مجھے کبھی نہیں یاد کہ انہوں نے کوئی جملہ بغیر کسی محاورے کے کہا ہو۔ وہ کہا کرتیں کہ ‘تم نے تو اپنا حدادہ کھو دیا ہے۔’ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ تم بہت بے شرم ہو۔ وہ الفاظ جو ہمارے لیے غیر روایتی ہوا کرتے تھے وہ ان کا عام استعمال کیا کرتی تھیں ۔”
اداکارہ نے بتایا کہ، ان کی والدہ کی نسل تک کسی شخص کی اردو سن کر اس کے گاؤں یا شہر کا اندازاہو جاتا تھا — بریلی سے سہارنپور، اور پھر بھوپال تک۔ اس خاص قسم کی اردو کی باقیات نے فلموں میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے جہاں صرف مزاحیہ کردار ہی لوگوں کو ہنسانے کے لیے ‘آریا، جاریا’ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔
دلچسپ طور پر، جہاں گلیوں کی ایک خاص زبان کی جگہ جدید اردو لے رہی تھی وہاں وہ خواتین تھیں جنہوں نے گھروں کے اندر اپنی زبان کے ایک دوسرے رسیلے اور رنگیلے لہجے کو برقرار رکھا، جسے بیگماتی زبان پکارا جاتا ہے۔ یہ بیگمات اور ان کی دنیا — جن میں ان کے ملازم، ان کے دست نگر، پھوپھیوں ، چچیوں اور کزنز کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک، اور دھوبن و نائن وغیرہ شامل تھیں — کی زبان تھی. اس کا استعمال ہمیشہ صرف خواتین کے درمیان رہا، جس کی وجہ سے انہیں عاجزی اور شائستگی کا خیال نہیں رکھنا پڑتا تھا۔
بیگماتی زبان پر ایک سب سے زبردست کام امریکی دانشور گیل مینالٹ کے مضمون میں ملتا ہے۔ جس کا عنوان ہے بیگماتی زبان: خواتین کی زبان اور 19 ویں صدی کے دہلی کی ثقافت۔ اس مضمون میں 19 ویں صدی میں مسلمان خواتین کی خانقاہی زندگی کا بڑی ہی گہرائی سے جائزہ پیش کیا گیا ہے، جس میں پریشانیاں ہیں اور گھروں تک محصوری ہے، مگر یہ ساتھ ساتھ زندہ دل اور شاہانہ بھی ہے۔ یہ زبان اس لیے بھی کافی مشہور ہے کیونکہ اس کا استعمال بے باک مصنفہ عصمت چغتائی کی تحاریر میں کہیں کہیں پڑھنے کو مل جاتا ہے۔
مینالٹ نے چاؤ چونچلے (خوبصورت نخرے)، تیری جان سے دور (خدا کی پناہ)، دو جی سے ہونا (حاملہ ہونا) جیسے لفظوں اور طرز اظہار کی نشاندہی کی ہے جو کہ خونی رشتہ داروں ، عورتوں کے آپسی تعلقات، زچگی کی باتوں ، رومانس، جنسی تعلقات اور شادی کے گرد گھومتی دنیا میں استعمال کیے جاتے تھے۔بیگماتی اور کرخنداری زبان کے درمیان اس کھو چکے زمانے کی اردو ضرور بہت ہی پرلطف رہی ہوگی اور رہنے کے لیے ایک مختلف رنگا رنگ دنیا ہوگی۔
مالینی نائر
حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...
جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...
پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...
پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...
ترقی کیلئے عوام، حکومت اور افواج کے درمیان مضبوط تعلقات ناگزیر ہیں، بھارت اپنی فوجی طاقت، قوم پرستی اور جعلی اسٹریٹجک اہمیت سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے بھارت کا غرور خاک میں مل گیا، ہمارا مستقبل روشن ہے،معرکہ حق اور اس میں ہونے والی شکست کو کبھی بھول نہیں سکے گا، پاکستان ن...
مذاکرات ہی تمام چیزوں کا حل ہے، بیٹھ کر بات کریں، پہلے بھی آپ کو کہا ہے کہ بیٹھ کر بات کر لیںشہباز شریف انشااللہ‘ بیرسٹر گوہر کا وزیر اعظم کو جواب شہباز شریف اور بیرسٹر گوہر کے درمیان مکالمہ مخصوص نشستوں کے فیصلے سے قبل ہوا، قومی اسمبلی میں وزیراعظم اٹھ کر بیرسٹر گوہر سے مصافحہ...
سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمیں مایوس ہوئی،اُمید تھی کہ مخصوص نشستیں ہمیں مل جائیں گی 39 امیدواروں کے نوٹیفکیشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کی میڈیا سے گفتگو پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے چیٔرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمی...
شہباز شریف کا سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر مستقل ثالثی عدالت کی طرف سے دیے گئے ضمنی ایوارڈ کا خیرمقدم عدالتی فیصلے سے پاکستانی بیانیہ کو تقویت ملی ، آبی وسائل پر کام کر رہے ہیں، اعظم نذیر تارڑ اور منصور اعوان کی کاوشوں کی تعریف وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ طاس معاہدے کی...
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم بھارتی فیصلے کی بین الاقومی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سندھو پر حملہ نامنظور،ایکس پر بیان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ طاس معاہدے پر عالمی ثالثی عدالت کے فیصل...
ہلاکتیں ٹریفک حادثات، کرنٹ لگنے، دیوار گرنے اور ندی میں ڈوبنے کے باعث ہوئیں سپرہائی وے ،لانڈھی ،جناح کارڈیو ،سائٹ ایریا ،سرجانی، لیاری میں حادثات پیش آئے شہر قائد میں مون سون کی پہلی بارش جہاں موسم کی خوشگواری کا پیغام لائی، وہیں مختلف حادثات و واقعات میں 7 افراد زندگی کی با...
بھارت ہم سے7گنا بڑا ملک اوروسائل میں بھی زیادہ ہے، تاریخی شکست ہوئی اسلام آباد پریس کلب دعوت پرشکرگزارہوں، میٹ دی پریس میں میڈیا سے گفتگو چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ ہم جنگ جیتنے کے باوجود امن کی بات کرتے ہیں۔اسلام آباد پریس کلب میں ’میٹ دی پریس...
(کوہستان میگاکرپشن اسکینڈل) اسیکنڈل کس وقت کا ہے،کرپشن کے اصل ذمے دار کون ہیں؟،عوام کے سامنے اصل حقائق لائے جائیں اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ایک روز قبل بیرسٹر سیف کی ہونیوالی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی کوہستان میگاکرپشن سکینڈل میں ہماری حکومت کا تاثر غلط جا...