وجود

... loading ...

وجود
وجود

نواز شریف کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیوں یاد آیا؟

جمعرات 10 اگست 2017 نواز شریف کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کیوں یاد آیا؟

ایوب خان کے دور میں تاشقند سے واپسی کے بعد بھٹو نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ ’’تاشقند میں جو ہوا قوم کو بتائیں گے‘‘۔ دہائیاں گزر چکی ہیں قوم کو آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ ’’تاشقند میں کیا ہواتھا‘‘ بعد میں یہی ثابت ہوا کہ جو ہوا تھا وہ سامنے آچکا تھا باقی یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جو بھٹو نے ایوب خان کو قوم میں بدنام کرنے کے لیے لگایا تاکہ انہیں اقتدار سے باہر کیا جائے اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔اب یہی رویہ میاں نواز شریف اختیار کیے ہوئے ہیںان کا کہنا ہے کہ’’ ان کے خلاف سازش ہوئی‘‘ اور وہ اس سازش سے پردہ اٹھا کر رہیں گے ان کے پاس بہت سے راز ہیں جنہیں وہ وقت آنے پر افشا کریں گے وغیرہ وغیرہ وہ وقت کب آئے گا تاحال کسی کو نہیں معلوم ۔۔ لیکن قوم ذہنی طور پر تیار رہے کہ بھٹو کے بیان ’’تاشقند میں جو ہوا قوم کو بتائوں گا‘‘ کی طرح ’’میرے سینے میں راز ہیں وقت آنے پر افشا کروں گا‘‘ نواز شریف بھی قوم کو انتظار کی سولی پر لٹکا سکتے ہیں۔ کیونکہ جو کچھ تاشقند میں قوم کے سامنے آیا تھا بعد میں ثابت ہوا کہ بس یہی کچھ ہوا تھاباقی سب کچھ سیاسی کھیل تھا اسی طرح میاں صاحب کے راز بھی آگے جاکر ایسے ثابت ہوں گے کہ قوم ان سے پہلے سے ہی آگاہ تھی۔واللہ اعلم
میاں صاحب جس وقت مری سے اتر کر اسلام آباد آئے تو وہ جنگی موڈ میں تھے ذرائع کا کہنا ہے کہ ساری پلاننگ مریم نواز کی خواہش کے تحت ہورہی ہے۔ اب جبکہ سابق وزیر اعظم اپنی نااہلی کے بعد مری سے نیچے اتر کرپہلے اسلام آباد آئے اور یہاں سے لاہور جانے کے پروگرام کا اعلان کیا اور ان سطور کے شائع ہونے تک میاں صاحب ’’پاور شو‘‘ کے لیے عازم لاہور ہوچکے ہوں گے مگر لاہور جانے سے پہلے انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کرلیا ہے ان روابط کے حوالے سے اسلام آباد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ بھی مریم نواز کے کہنے پر ہوا ہے جس میں جمہوریت بچانے کے نام پر ان سے مدد کی اپیل کی گئی ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ زرداری صاحب نے ’’مشروط طور پر‘‘ میاں صاحب کی درخواست مان لی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں میاں صاحب کو ایک مرتبہ پھر ’’میثاق جمہورت‘‘ یاد آگیا تھا جو حالیہ نواز زرداری رابطے کی ایک ابتدائی تمہید ہے لاہور پہنچتے ہی یہ معاملہ مزید کھل جائے گا۔۔۔پلان کے مطابق قومی اسمبلی میںپیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ارکان کی دو تھائی اکثریت کی مدد سے آئین کی 62-63 شقیں ختم کردی جائیں اوردیگر ایسی شقوں کو بھی ختم کیا جائے جس کے تحت دونوں جماعتوں پر حکمران افراد قانون کی زد میں آتے ہوںیہ معاملات کہاں تک پورے ہوں گے اس کی طرف تو بعد میںدیکھیں گے کیونکہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے قانون بننے کے بعد یہ معاملات سپریم کورٹ میں جاتے ہیں جنہیں اعلی عدالت رد بھی کرسکتی ہے۔۔ ۔اول تو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں ہی نہیں آ سکے گا۔۔۔ زرداری کی ’’مشروط حمایت‘‘ کے بعد ہی نواز شریف کی جانب سے سب سے پہلے چوہدری نثار کو قربانی کا بکرا بنایا گیا،سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے حلقے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’وہ پھر کسی وقت بتائیں گے کہ وہ کابینہ میں کیوں شامل نہیں ہوئے‘‘ وہ تو شاہد بعد میں بتائیں گے ہم پہلے بتا دیتے ہیں کہ زرداری کی خواہش کے احترام میں چوہدری صاحب کو کابینہ میں نہیں لیا گیا۔۔۔لیکن اس صورتحال میں پنجاب میں سیاسی کھیل مزید دلچسپ ہوجائے گاکیونکہ اس کھیل میں آصف زرداری نے صرف قومی اسمبلی تک نہیں روکنا بلکہ وہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی سیاسی پوزیشن دوبارہ بحال کرنے لیے بھی مزید مطالبہ کرسکتے ہیں۔لیکن کیا یہ سب کچھ شہباز شریف اینڈ سنزکو منظور ہوگا؟ جن کے پاس کھونے کے لیے صرف پنجاب ہی بچا ہے۔۔۔!!
اس صورتحال میں ذرائع کے مطابق نواز لیگ اس وقت دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس میں ایک طرف نواز گروپ ہے اور دوسرا شہباز گروپ ۔میاں صاحب نے خاقان عباسی کے نام کے بعد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان تو کیا تھا لیکن مریم نواز صاحبہ کی وجہ سے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ذرائع اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ میاں شہباز شریف کی خواہش تھی کہ حمزہ شہباز کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا کر انہیں صوبے کا وزیر اعلی بنا دیا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ اگلے وزیر اعظم بننے کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی کو خیرباد کہہ دیں گے لیکن پھر محترمہ مریم نواز صاحبہ آڑے آئیں اوربڑے میاں صاحب نے اس بات کو ماننے سے صاف انکار کردیا جس کے بعد شریف خاندان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دونوں بھائیوں کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب عباسی کابینہ میں جو وزیر مقرر کیے گئے ہیں ان کے درمیان بھی پھوٹ پڑنے کی رپورٹیں ہیں مثلا وزیر داخلہ احسان اقبال کسی طور بھی طلال چوہدری کو اپنے ساتھ لینے کے لیے تیار نہیں دوسری جانب دانیال عزیز اپنی وزارت سے خوش نہیں۔ سب سے تشویش ناک امر ہے کہ سیاسی سطح پر ’’جنگی کابینہ‘‘ تو بنا دی گئی لیکن تاحال پاکستان کے ’’قومی سلامتی کے مشیر‘‘ کی تعیناتی نہیں کی گئی ہے ۔۔ جو خطے کے حالات سے واقف ہیں وہ جانتے کہ یہ انتہائی خطرناک غلطی ہے۔
۔ اسلام آباد میں میاں صاحب کی آمد پر جو کچھ ہوا کیا اس وقت شہر میں دفعہ 144نہیں لگی ہوئی تھی؟ تو پھر قانون کون توڑ رہا ہے؟ اب جنکہ پلان کے مطابق میاں نواز شریف اپنے قافلے کے ساتھ روالپنڈی اور اس کے بعد لاہورکے لیے روانہ ہوچکے ۔ ذرائع یہ خبر بھی دے رہے ہیں میاں صاحب کی خود بھی یہ خواہش ہے اور ان کے ’’نابغہ مشیروں‘‘بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ سفر تین دن پر محیط ہو تاکہ عوام کی بھرپور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی پر مجبورکیا جائے لیکن ایسا بھی نہیں ہونے جارہا مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ یہ سفر خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے معاملے کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ وزیر اعظم خاقان عباسی کا کہیں کچھ پتا نہیں نہ ہی دیگر وزیر ان کی کوئی بات سننے کو تیار ہیںکیونکہ ’’جنگی کابینہ‘‘ کا تعین مری میں کیا گیا تھا نہ کہ اسلام آباد میں۔داخلی طور پر ملکی سیکورٹی کے ذمہ دار وزیر داخلہ احسن اقبال راستے میں امن وامان کی صورتحال پیدا ہوجانے کی صورت میںکہاں کھڑے ہوں گے ؟کچھ پتا نہیں۔ لیکن یہ بات عیاں ہے کہ جن جن افراد نے حکومت، صحافت اور سیاسی جماعتوں میں سے میاں صاحب کو اس آگ میں کودنے کا مشورہ دیا ہے وہ سب ریاستی اداروں کی نظر میں ہیں۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا معاملہ ہے تمام جماعتیں اس وقت عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہیں اس لیے حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کی سابق رکن اسمبلی عائشہ گولالئی کو استعمال کیا گیا یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ریاستی ادروں تک یہ حقیقت پہنچ چکی ہے کہ اس خاتون کو کس طرح اور کس قیمت پر عمران کے مقابل لایا گیا تھاہم یہاں عمران خان کی حمایت نہیں کررہے ، پی ٹی آئی کی بہت سی پالیسیاں ہمارے نزدیک انتہائی نقصان دہ ہیں اور جہاں تک عمران خان کے ماضی کا تعلق ہے وہ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے جس رنگین دور سے گزرا ہے، اس سے بھی انکار نہیں لیکن جب معاملات سیاسی کھیل تک آئیںگے تو اس کی واضح تصور قارئین کے سامنے لائی جائے گی۔ نون لیگ کے اس وار کا جواب پی ٹی آئی نے حمزہ شہباز کی مبینہ اہلیہ عائشہ احد کو سامنے لاکر دیا لیکن اس کا فائدہ نون لیگ کے نواز گروپ کو ہواجبکہ نون لیگ کے شہباز گروپ کواس سے دھچکہ لگالیکن سوقیانہ الزامات کا یہ گندہ کھیل جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچا۔
بہرحال اوپر بیان کردہ تمام نکات میں سب سے دلچسپ نکتہ زرداری کی اس کھیل میں دوبارہ آمد ہے۔ جس وقت آصف زرداری نے اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرکے ’’اینٹوں سے اینٹیںبجانے‘‘ کی بات کرکے پیچھے دیکھا تھا تو نواز شریف غائب تھے جس کے بعد انہیں فورا کراچی سے دبئی بھاگنا پڑا تھا بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ دبئی بھی زیادہ محفوظ نہیں ہے تو انہوں نے اپنا تانگہ لندن کی جانب بڑھا دیا۔ اس کے بعد وہ وہاں سے پیار بھرے پیغامات اسٹیبلشمنٹ کو بھیجتے رہے کہ انہیں آزادی کے ساتھ پاکستان میں داخلے کی اجازت مل جائے لیکن دوسری جانب سے سرد خاموشی تھی اس کے بعد وہ اپنے رسک پر پاکستان آئے لیکن ’’کسی‘‘ نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا اس خاموشی کو انہوں نے کسی طوفان کا پیش خیمہ سمجھا اور دوبارہ ملک سے باہر چلے گئے۔ذرائع کے مطابق اب ان کی ’’خاموش زندگی‘‘ میں میاں نواز شریف کی رابطہ کال نے پھر ارتعاش پیدا کردیاتو انہوں نے کافی شکوہ شکایات کیے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز پر دہائیوں سے مسلط غیر منصفانہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے اور پاکستانی قوم بھی اس سے تنگ آچکی ہے اس نظام سے مفاد حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان پر مسلط خاندانوں کی زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اچکزی ہو یا فضل الرحمن یا اسفندیار ولی یا ایم کیو ایم اور دیگر سب کے پاس نواز شریف کی شکل میں آخری ترپ کا پتا بچا ہے جسے وہ سیاسی بساط پر کھیل کر قوم کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنے مفاد میں اس نظام کا دوام چاہتے ہیں جو کہ ہونے نہیں جارہا۔امید کی جارہی ہے کہ ممکن ہے کہ اگست کے آخیر میں ۔۔۔ ۔ ۔ حالات معمول پر آجائیں ۔ آخر میں ہماری دعا ہے کہ میاں نواز شریف کا لاہور کی جانب سفر خیریت سے اپنے انجام کو پہنچے کیونکہ اپنے پیچھے وہ جو عبوری سیٹ اپ بناکر گئے ہیں وہ ایک بے سمت سیٹ اپ ہے اس میں کچھ لوگوں کی ذاتی خواہشات تو ہوسکتی ہیں لیکن ملک اور قوم کے لیے اس میں کوئی نفع نہیں۔ اس مرحلے پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ کیا نواز شریف اور ان کے ’’نابغہ مشیروں‘‘کو اندازہ ہے کہ عالمی قوتوں کی جانب سے ان کی نااہلی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اس کی ترجیح پاکستان ہے نہ کہ نواز شریف، امریکیوں کو وائٹ ہاوس سے لیک ہونے والی خبروں کا معمہ سلجھانے سے فرصت نہیں، جدہ اور دوحہ کے دروازے ویسے ہی بند ہوچکے ۔۔۔جس نہج پر عالمی اور خطے کے حالات جاچکے ہیں ان میں 2018ء کے عام انتخابات۔۔۔ ہنوذ دہلی دور است۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر