وجود

... loading ...

وجود
وجود

ذمہ دار کون؟

بدھ 26 جولائی 2017 ذمہ دار کون؟

لاہور ایک مرتبہ پھر دھماکوں سے گونج اُٹھا اور حسب سابق طالبان نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ان دھماکوں میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے 26افرادجاں بحق 50سے زائدزخمی ہوئے ان میں 30 سے زائد افراد ایسے ہیں جو شدید زخمی ہیں یوں تو بدامنی کی لہر دنیا کے تقریباً ہر حصہ میں موجود ہے لیکن پاکستان ان دہشت گردوں کا خصوصی نشانہ ہے اب یہ دھماکہ کس نے کئے اس تحقیق کا باب طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد بند ہو گیا لیکن کیا فی الواقع یہ دھماکہ طالبان نے کئے ہیں یا کوئی ایسا گروہ موجود ہے جو تحقیق کا باب بند کرنے کے لیے طالبان کا نام استعمال کر رہا ہے اطلاعات ہیں کہ وفاقی وزارت داخلہ نے کئی دن قبل اس حوالے سے ریڈالرٹ جاری کیا تھا لیکن حکمرانوں کی بے حسی اور صرف اپنی جان کو مقدم سمجھنا ان دھماکوں کی بنیادی وجہ بن گیا جس مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ ناتو غیرمحفوظ علاقہ ہے نہ ہی ایسا علاقہ کے جہاں تنگ گلیوں میں فرار ہونا آسان ہو پھر یہ بھی شنید ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب جو خود کو خادم نہیں خادم اعلیٰ کہلانا پسند کرتے ہیں بھی قریب ہی ایک میٹنگ میں موجود تھے دھماکہ میں جاں بحق ہونے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے اور سبب اس کا یہ بتایا جاتا ہے کہ واضح ہدایات کے باوجود پولیس اہلکار بڑی تعداد میں ایک ہی مقام پر جمع تھے اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے کتنے اہلکار معمول کی ڈیوٹی پر تھے اور کتنے اہلکار وزیراعلیٰ کی حفاظتی دستہ میں شامل تھے جو کچھ بھی ہو لیکن پولیس اپنے قابل اہلکاروں سے محروم ضرور ہوئی ہے ۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو ایک امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ ایک تو کھلا دشمن ہے لیکن بڑی تعداد میں آستین کے سانپ بھی موجود ہیں اور اصل خطرہ بھی انہیں آستین کے سانپوں سے ہے پھر دوستی کا معاملہ بھی ہے کہ ایک دوست کے مشکل وقت میں دوسرا اس کے کام نہیں آ پا رہا کہ اس کے اپنے سر پر جو آفت مسلط ہے اس کا نام چین ہے چین اور بھارت کے درمیان ڈوکلام کا تنازعہ نیا نہیں ہے پھر چین نے خطہ میں بھارت کی بالادستی کو بھی چیلنج کرنا شروع کیا ہے بھارت نے سارک ممالک کو اپنا طفیلی بنا رکھا تھا جن میں نیپال،بھوٹان،مالدیپ،بنگلہ دیش اور سری لنکا بھارت کا خصوصی نشانہ تھے چین نے نیپال ،بھوٹان،مالدیپ،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے پاکستان کے تعلقات تو چین سے 70 سال پرانے ہیں اور جن کی گہرائی بحرالکاہل سے زیادہ اور ہمالیہ سے اونچی ہے چین نے نیپال میں سرمایہ کاری کے ذریعہ نیپالی حکمرانوں کو ایک راستہ دکھایا ہے کہ وہ بھارت کے چنگل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں اسی طرح مالدیپ سے ایک جزیرہ لیز پر لیکر وہاں بھی اپنے کاروباری سلسلہ شروع کیا ہے بنگلہ دیش سے چٹاگانگ(چاٹ گام)کی بندرگاہ کے معاملے میں بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے بھوٹان میں بھی سرمایہ کاری کی گفتگوشنید جاری ہے اسی طرح سری لنکا میں بھی ہٹموبولا کی بندرگاہ کی بابت بھی سری لنکن حکومت سے معاملات ہو رہے ہیں اس طرح بحرہند ،بحرعرب اور خلیج بنگال میں چین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے بھارت جو اس علاقہ کا تھانیدار بننا چاہتا ہے وہ چین کے اس بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔بھارت چین کے اس اثرورسوخ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس کے حکمرانوں کو خواب میں بھی چین سے جنگ کے خوفناک سپنے پریشان کئے رہتے ہیں ۔
ہندی زبان کی کہاوت ہے بغل میں چھری منہ پے رام رام ۔مطلب واضح ہے کہ زبان اور دل کبھی بھی یکجانہیں ہوتے ۔کہو کچھ کروکچھ اور اپنی اس فطرت کو وہ سب پر نافذ بھی کرنا چاہتا ہے چین کے معاملات اگر ان ممالک میں ترقی اور خوشحالی لانے کا باعث بنتے ہیں تو بھارت کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے اور اس میں بھارت کے گھیراو¿ کا خواب کہاں سے داخل ہوا یہ تو بھارتی حکمران اور بھارتی میڈیا ہی بتا سکتا ہے کہ وہ دلوں کے حال بھی جاننے لگے ہیں ورنہ انسان اپنے دل کا حال بھی پوری طرح نہیں جانتا ورنہ ہر شخص ہارٹ اٹیک سے پہلے حفاظتی انتظام نہ کرلیتا۔
بھارتی میڈیا کو گوادر میں چین کی موجودگی کسی طور برداشت نہیں ہے اور بغیر کسی ثبوت اور گواہی کے بھارتی میڈیا کا پورا زور ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کو چین تجارتی نہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اسی طرح سے بنگلہ دیش ،بھوٹان،نیپال ،مالدیپ اور سری لنکا سے چین کے تعلقات بھارت کو کسی طور برداشت نہیں ہو رہے اور وہ انہیںبھارت کے خلاف استعمال کرے گا بھارت نے ان تمام ممالک کو عملاً یرغمال بنایا ہوا ہے نیپال اوربھوٹان کے ساتھ سمندر نہ ہونے کا ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے حل کے لیے وہ بھارت کے زیراثر ہیں لیکن چین کی جانب سے ان ممالک میں دلچسپی کے مظاہرے نے ان ممالک کی یہ مجبوری کافی حد تک کم کر دی ہے ان ممالک کے لیے بمبئی کی بندرگاہ اور بیجنگ کی بندرگاہ یکساں حیثیت رکھتی ہے بلکہ بھارت میں موجود علیحدگی کی تحریکوں کے نتیجہ میں جن میں میزورام ،آسام،ناگالینڈ،اتران چل پردیش،تامل ناڈ اور دیگر علاقے شامل ہیں اور بمبئی سے نیپال اور بھوٹان جانے کے لیے ان علاقوں سے گزرنا ضروری ہے جہاں حالات کے خراب ہونے کا ہروقت خطرہ موجود رہتا ہے جس کے نتیجہ میں مال وتجارت کے خراب ہونے اور لٹ جانے کے بڑے امکانات موجود ہیں جبکہ نیپال اور بھوٹان سے بیجنگ تک پہنچنا ان خطرات سے محفوظ ہے پھر چین ان ممالک میں ناتو اپنی ثقافت کی دراندازی کر رہا ہے نا ہی ان پر تھانیدار بننے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے اسی طرح سے چین کی اکثریت بدھ مذہب کے ماننے والوں کی ہے اور نیپال اور بھوٹان کی آبادی بھی بدھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے جبکہ بدھ مذہب اور ہندو ازم میں بہت فرق ہے مہاتما بدھ نے امن وآشتی کا درس دیا ہے جبکہ ہندومت میں دیگر مذاہب کو برداشت کرنے کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے جس کی مثال ہندوستان کے آزادی کے بعد ہندوستان میں ہونے والے مذہبی فسادات ہیںہندوستان میں ناصرف دوسری بڑی آبادی مسلمانوں کے خلاف واضح نفرت پائی جاتی ہے بلکہ عیسائی ،سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں بھی ہندوو¿ں کے جذبات واضح ہیں جس کا اندازہ گزشتہ70 سال کے دوران ہونے والے 40 ہزار سے زائد فسادات سے لگایا جا سکتا ہے ہندوو¿ں کا ایک فلسفہ ہے کہ ہندوستان صرف ہندوو¿ں کے لیے ہے یہاں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہو گا اور اس کے لیے انتہا پسند ہندو جماعتوں نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس میں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہندو بنایا جاتا ہے اور اس مہم کا نام انہوں نے گھرواپسی مہم رکھا ہے ہندوو¿ں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام انسان ہندو تھے جن کے آباواجداد نے دیگر مذاہب اختیار کئے تھے اور اب ان کی نسلوں کو واپس ہندو بنانا ہرہندو کی ذمہ داری ہے اسی طرح سے بھارت نیپال اور بھوٹان میں بھی ہندوتوا کے لیے سرگرم ہے اور ان ممالک میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے نتیجہ میں بھارت کو اس علاقہ کی تھانیداری کا وہ خواب جو وہ ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہے چکناچور ہوتا نظر آرہا ہے بھارت کا میڈیا جس قدر بوکھلاہٹ کا شکا رہے اور جوجو لب ولہجہ اختیار کررہا ہے وہ ممالک کے درمیان ناقابل برداشت ہے ان حالات میں بھارت اپنے خوابوں کو ٹوتا دیکھ کر کوئی بھی قدم اُٹھا سکتا ہے اور گرفتار بھارتی بحریہ کے اہلکار کلبھوشن یادیو کے اعتراف کے بعد تو یہ امر منطقی انجام تک پہنچ چکا ہے کہ بھارت ناصرف جاسوسی کرتا ہے بلکہ پڑوسی ممالک میں دہشت گردی بھی کراتا ہے بھارت اپنے خواب ٹوٹتے دیکھ کر جس ملک سے سب سے زیادہ خفا ہے وہ تو چین ہے لیکن چین ایک بڑی قوت ہے جس کا مقابلہ بھارت نہیں کرسکتا تو وہ چین کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے دوستوں کو بھی اپنا ہدف بنا سکتا ہے اور سی پیک منصوبہ کو ہدف بنانے کا اعتراف تو کلبھوشن یادیو بھی کرچکا ہے ان حالات میں اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو لاہور کے دھماکوں میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا اور یوں بھی “خادم اعلیٰ “کے خاندان سے مودی اور سجن جندال کی یاری بہت پرانی ہے تو یہ یاری نبھانے اور یار کو مصیبت سے نکالنے کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں پھر جن طالبان کا نام سامنے آتا ہے وہ تو کابل جلال آباد ،قندھار سمیت افغانستا ن کے مختلف علاقوں میں قائم بھارتی ” قونصل خانوں” سے گہرے روابط رکھتے ہیں ۔
٭٭….٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر