وجود

... loading ...

وجود

عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ سی پیک کے مخالفین کے لیے نیا ہتھیار !!!

بدھ 19 جولائی 2017 عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ سی پیک کے مخالفین کے لیے نیا ہتھیار !!!


عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ 2024 تک پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے ذریعے ساڑھے 4 ارب ڈالر ملک سے باہر جاسکتے ہیں جبکہ منصوبے کے تحت برآمدات کے فوائد وقت کے ساتھ ساتھ سلسلہ وار حاصل ہوں گے اور اس فرق کو کم کرنا بھی پالیسی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے پہلا چیلنج برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بنانا ہے۔جو منصوبوں کے فوائد کے باہر جانے میں اضافے کو روکنے کے لیے اہم ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے تجارتی ماحول کی بہتری اور مقابلے کا ماحول ہونا لازمی ہے، تاکہ توانائی کی سپلائی میں اضافے اور ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کے ممکنہ فوائد کا جائزہ لیا جاسکے، جو سی پیک کے منصوبوں سے حاصل ہوں گے۔
دوسرا بڑا چیلنج توانائی کی تقسیم کے سلسلے میں مکمل قیمت کی وصولی ہے، ایک ایسے ماحول میں جہاں توانائی کی تقسیم میں نقصان (loses) ہونے کا اندیشہ زیادہ ہو، وہاں توانائی کی پیداوار میں مزید اضافے کے نتیجے میں نہ صرف مالی لاگت اور گردشی قرضوں میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ توانائی کے طویل المدت نئے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ وصولیوں کے عمل کے لیے مخصوص راستا اختیار کرنے میں کچھ رکاٹیں ہیں لیکن ساتھ ہی میٹرنگ اور وصولیوں کے لیے ایک مضبوط اور ریگولیٹری فریم ورک بنانے کے لیے نجی شعبے کی زیادہ سے زیادہ شراکت داری پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ انتباہ بھی کیا گیا کہ سرمایہ کاروں کو بہت زیادہ مراعات دینے کے بجائے حکومت سرمایہ کاری کے سلسلے میں ٹیکسوں میں یکسانیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے بیرونی معاہدوں اور ادائیوں کے رجحانات میں توازن کو بھی یقینی بنائے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں کا پاکستان کی معیشت پر اچھا اثر ہو سکتا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ ان منصوبوں کے باعث ملکی جی ڈی پی 2017 تک 2 ارب ڈالرز جبکہ 2024 تک 7 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔
سی پیک کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ کی اس رپورٹ کو چشم کشا کہاجاسکتاہے اور سی پیک کے مخالفین اس رپورٹ کو بنیاد بناکر اس کے خلاف اپنے پروپیگنڈے میں مزید زور پیدا کرنے اور اس پورے منصوبے ہی کو پاکستان کے مفادات کے منافی ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا ہے تب سے اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اور طاقت اس میں نقائص نکالنے، اس میں چھید کرنے اور مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات ظاہر کرنے میں صرف کی جا رہی ہے۔
فی الوقت سی پیک کے خلاف تین اقسام کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک یہ پورا منصوبہ صرف پنجاب کے لیے مختص ہے اور اس میں دیگر تین چھوٹے صوبے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس منصوبے کی وجہ سے ملک بیرونی بھاری قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب جائے گا اور اخراجات کی وجہ سے پاکستان کو ایک بار پھر قرضہ لینے پڑے گا۔ 110 ارب ڈالرز کی کل رقم جیسے خوفناک اعداد و شمار بھی سنائی دے رہے ہیں۔تیسرا، کچھ بلوچ نوجوانوں کا خیال ہے یا ایک مذموم منصوبے کے تحت ان میں یہ خیال اُجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی کہ اس منصوبے کی وجہ سے وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن جائیں گے۔ اس تشویش کی بنیادی وجہ ممکنہ معاشی فائدوں کے بجائے بے اعتمادی ہے ، اور اس بد اعتمادی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت سی پیک کے حوالے سے سرمائے کے اسٹرکچر، سرمایہ کاری کے ذرائع کے متعلق تفصیل، منصوبے کے اسپانسرز کے بارے میں معلومات کو عوامی سطح پر نہیں لائی ہے، چنانچہ معاملات سلجھ نہیں پائے ہیں اور کنفیوژن اپنی جگہ موجود ہے۔اس حوالے سے شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک منصوبوں سے ہونے والے مجموعی فائدوں کا اندازہ لگانے اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے اخراجات و فوائد کے تجزیے (cost-benefit analysis) کا موثر فریم ورک تیار کیا جائے اورا س حوالے سے عوام میں پائے جانے والے یاپھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے کے لیے اس کی بھرپور تشہیر کی جائے۔
جہاں تک سی پیک سے ہونے والے فوائد کا تعلق ہے تو یہ فوائد تین اقسام کے ہو سکتے ہیںـ؛۔
1: بلاواسطہ فوائد، جن کا تخمینہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی یعنی گروس ویلیو ایڈڈ میں اضافے کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے۔بالفرض توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی شرح ایک سے زائد ہو، تو توانائی کی پیداوار اور استعمال میں 2فیصد اضافہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو موجودہ سطح سے2 فیصد بڑھا دے گا۔2: بالواسطہ فوائد کا اندازہ مصنوعات اور خدمات کی بلاواسطہ طلب کے نتیجے میں ہونے والی سرگرمیوں کے متعدد اثرات سے لگایا جاسکتا ہے۔3: سی پیک کے تحت سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کی قلت ختم ہونے سے چند اقتصادی سرگرمیاں قابل عمل ہوسکتی ہیں اور اس طرح متعلقہ علاقوں سے ہنرمند لیبر کی نقل مکانی بھی کم کی جاسکتی ہے۔
اس حوالے سے جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تواخراجات بھی چار قسم کے ہو سکتے ہیں.1: بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، اور سڑکوں کی تعمیر پر سرمایہ کاری کے بلاواسطہ اخراجات؛2: بالواسطہ اخراجات: بڑے پیمانے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، اور چند مصنوعات اور خدمات کی مقامی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے تو اخراجات میں بھی کمی ہوتی جائے گی۔3: ناگزیر اضافی اخراجات: ملکی مصنوعات میں مطلوبہ معیار اور خصوصیات نہ ہونے کی وجہ سے کمی کو پورا کرنے کے لیے درآمدات کرنی پڑیں گی۔4: ایسے اخراجات جن سے گریز ممکن ہے ، مثلاًمناسب منصوبہ بندی، تال میل اور بہتر انتظامات سے زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والے فوائد معیار برقرار رکھتے ہوئے کم لاگت کے ساتھ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔چنانچہ خالص فوائد کا اندازہ مجموعی فوائد میں سے مجموعی اخراجات منہا کر کے لگایا جا سکتا ہے. یہ حساب کتاب اتنا سیدھا نہیں ہوتا، اور اس میں کئی نظریاتی، عملی، اور پیمائش کی مشکلات موجود ہوتی ہیں.۔سب سے زیادہ مشکل حصہ آسانی سے قابلِ پیمائش بلاواسطہ فوائد یا اخراجات کو بالواسطہ فوائد و اخراجات کے اندازوں کے ساتھ ملا کر دیکھنا ہے، کیوں کہ بعد والی دو چیزیں چند مفروضوں پر مبنی ہوتی ہیں۔چنانچہ ماہرینِ معاشیات مانیٹرنگ کے تجربات کے ذریعے ایسا نیا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جو اصل اندازوں کی درستی میں کام آتا ہے. نتیجے میں آپ کے قابلِ گزیر اخراجات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، اور آپ کے بالواسطہ فوائد کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے، اور آخر کار آپ کے خالص فوائد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
ایسے اخراجات جن سے گریز ممکن ہے ان کو دو مثالوں کی مدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اگر منصوبے کی تکمیل تک چینی منیجرز اور باصلاحیت و تکنیکی اسٹاف کی تعیناتی جاری رہتی ہے تو فی مزدور سیکورٹی، رہائش، نقل و حرکت اور بیرونِ ملک مقیم ہونے کی وجہ سے زیادہ اجرت کی وجہ سے پاکستانیوں کی ملازمت کے مقابلے زیادہ لاگت آئے گی لیکن اگر حکومت اس دوران چینی تربیت کاروں کی نگرانی میں پاکستانیوں کو مناسب تربیت، انٹرن شپس، اور اسٹڈی اسائنمنٹس کے ذریعے ان پوزیشنز پر تعینات کرنے کے قبل از وقت منصوبے بنائے تو اس سے بھی اخراجات میں کمی اور خالص منافع میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس کام کے لیے ہم آہنگی، اہداف ترتیب دینا، مانیٹرنگ، اور ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں، نجی تربیتی اداروں اور صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دینا درکار ہوگا۔اسی طرح سے یہ بھی ایک امکانی اندازہ ہے کہ تعمیراتی میٹریل کی ٹرانسپورٹ، درآمدات و برآمدات کی تجارت اور مصنوعات کے اضافی حجم کے لیے کم از کم 1 لاکھ اضافی ٹرکس درکار ہوں گے۔ اگر سی پیک منصوبوں کے دوران طلب اپنی انتہا پر پہنچنے سے قبل ذیلی شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح پاکستانی برآمدات کے لیے مسابقتی نقصان ہوگا۔ اس طرح سی پیک منصوبوں میں بھی اخراجات کی زیادتی ہوگی اور یوں بالواسطہ اخراجات بڑھ جائیں گے۔لیکن اگر پاکستانی ٹرک ساز کمپنیوں کو ایک اندازے کے مطابق اعداد و شمار فراہم کیے جائیں تو وہ حصوں اور پرزوں کے سپلائرز کے ساتھ اپنی موجودہ صلاحیت کو وسعت دینے میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ صنعتوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے اور زیادہ پیداوار سے اخراجات میں بچت کی وجہ سے زیادہ منافع کی مدد سے بالواسطہ فائدوں میں اضافہ ہوگا۔
جہاں تک فائدوں کا سوال ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سی پیک سے ہونے والے سب سے زیادہ غیر معمولی اور دیرپا فائدے بلوچستان اور جنوبی خیبر پختونخواہ کے محرومی کے شکار اضلاع میں رہنے والے لوگوں کو حاصل ہوں۔مصنوعات اور خدمات کی قومی مارکیٹ سے ان اضلاع کے ملاپ سے ان کی ماہی گیری، کان کنی، لائیواسٹاک، زراعت اور دیگر سرگرمیاں اقتصادی طور پر قابلِ عمل بنیں گی۔ یوں روزگار اور ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اس طرح انہیں غربت سے نکلنے میں مدد ملے گی۔سڑکیں اور بجلی وسیع تر ترقی کے اہم حصے ہیں کیوں کہ ان سے فصل کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کم ہوتے ہیں، جلد خراب ہو جانے والی زرعی تجارتی اشیاء جلد از جلد مارکیٹ پہنچائی جا سکتی ہیں، مارکیٹوں تک ترسیل کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں، اور یوں کسانوں کے پاس زیادہ پیسہ آتا ہے، اور اس کا استعمال وہ زرعی مصنوعات کو خریدنے میں کرسکتے ہیں، اور یوں ان اضلاع میں اقتصادی سرگرمیوں کا دوسرا راؤنڈ چل پڑے گا۔حکومت محرومیوں کے شکار ان اضلاع کے لوگوں کے لیے فائدوں میں اضافے کے لیے سرگرم کردار ادا کر کے اور قابل گریزاخراجات کو محدود کر کے کئی خدشات اور شکوک و شبہات ختم کر سکتی ہے۔
ایچ اے نقوی


متعلقہ خبریں


ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سب نے مل کر کام کرنا ہے،وزیراعظم وجود - اتوار 09 نومبر 2025

ملک کے وسیع مفاد میں 27ویں آئینی ترمیم کیلئے سب نے مل کر کوشش کی، شہباز شریف قائد میاں نواز شریف اور صدر مملکت زرداری کو بھی اعتماد میں لیا،کابینہ اجلاس سے خطاب وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ وفاق کے صوبوں کے ساتھ رشتے کی مضبوطی اور ملک کے وسیع مفاد میں 27ویں آئینی...

ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے سب نے مل کر کام کرنا ہے،وزیراعظم

علیمہ اور عظمیٰ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم وجود - اتوار 09 نومبر 2025

انسداد دہشتگردی عدالت نیعمران خان کی بہنوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنماؤں و دیگر کیخلاف 4 اکتوبر احتجاج کیس کی سماعت ہوئی انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے مسلسل عدم پیشی پر علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ان...

علیمہ اور عظمیٰ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

فوج سرحدوں کی حفاظت کرے ،شہروں کی ہم کر لیں گے، آفاق احمد وجود - اتوار 09 نومبر 2025

پیپلز پارٹیہر تنقید کو لسانی رنگ دینے کی بجائے علیحدگی پسند سندھیوں کے خلاف کارروائی کرے،چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ ناانصافیوں کیخلاف آواز کو لسانی رنگ دینا پی پی کا کمال، وفاق کیلئے لمحہ فکریہ ہے، رہائش گاہ پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سے خطاب مہاجر قومی موومنٹ (پاکستان) کے چیئرمی...

فوج سرحدوں کی حفاظت کرے ،شہروں کی ہم کر لیں گے، آفاق احمد

غزہ نسلی کشی، ترکیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے وجود - اتوار 09 نومبر 2025

مذکورہ افراد نے انسانیت کے خلاف جرائم کیے ہیں اور غزہ میں نسل کشی کے مرتکب ہوئے ہیں اسرائیل نے جان بوجھ کرغزہ میں رہائشی علاقے کو تباہ کر کے کھنڈرات میں بدلا،ترکیہ کورٹ ترکیہ نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسلی کشی پر نیتن یاہو کے ورانٹ گرفتاری جاری کر دیے۔خبر ایجنسی کے مطابق ترکیہ ...

غزہ نسلی کشی، ترکیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک وجود - هفته 08 نومبر 2025

پاکستان اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانا افغانستان کی ذمہ داری ہے،پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیے اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے، وزیراطلاعات افغان طالبان دوحا امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل...

استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت وجود - هفته 08 نومبر 2025

اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس ...

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم وجود - هفته 08 نومبر 2025

اپوزیشن ستائیسویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے ، امیر جماعت اسلامی جو ایسا کریں گے انہیں ترمیم کا حمایتی تصور کیا جائے گا،مردان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے ستائیسویں ترمیم پر اپوزیشن حکومت سے کس...

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار وجود - هفته 08 نومبر 2025

صاحبزادہ حامد رضا پشاور سے فیصل آباد کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی مقدمہ میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی،قائم مقام چیئرمین کی تصدیق سنی اتحاد کونسل کے چیٔرمین صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر لیا گیا۔سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی ...

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان وجود - جمعه 07 نومبر 2025

27ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ تیار، آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی عدالت، ججز کی مدت 70 سال، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات دینے کی تجویز، بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا،ذرائع این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیٔر کم کرکے وفاق کا حصہ بڑھانے، تعلیم و صحت کے شعبے وفاقی حکومت کو دینے ک...

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اپوزیشن سے مل کر متفقہ رائے بنائیں گے،معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے ٹرمپ نے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا،اسرائیل ک...

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے وجود - جمعه 07 نومبر 2025

وزیراعظم سے خالد مقبول کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 رکنی وفد کی ملاقات وزیراعظم کی ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو 27 ویں ترمیم میں شامل کرنیکی یقین دہائی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے 27 ویں ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے...

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اب تک ترمیم کا شور ہے شقیں سامنے نہیں آ رہیں،سود کے نظام میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہمارا نعرہ بدل دو نظام محض نعرہ نہیں، عملی جدوجہد کا اعلان ہے، اجتماع گاہ کے دورے پر گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اب تک ستائیسویں ترمیم کا شور ہے اس کی شقیں سامنے نہیں ...

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم

مضامین
زہران ممدانی کی جیت وجود اتوار 09 نومبر 2025
زہران ممدانی کی جیت

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز وجود اتوار 09 نومبر 2025
بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

ہریانہ کا ہائیڈروجن بم وجود هفته 08 نومبر 2025
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم

پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی وجود هفته 08 نومبر 2025
پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی

2019سے اب تک 1043افراد شہید وجود هفته 08 نومبر 2025
2019سے اب تک 1043افراد شہید

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر