وجود

... loading ...

وجود

عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ سی پیک کے مخالفین کے لیے نیا ہتھیار !!!

بدھ 19 جولائی 2017 عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ سی پیک کے مخالفین کے لیے نیا ہتھیار !!!


عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ 2024 تک پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے ذریعے ساڑھے 4 ارب ڈالر ملک سے باہر جاسکتے ہیں جبکہ منصوبے کے تحت برآمدات کے فوائد وقت کے ساتھ ساتھ سلسلہ وار حاصل ہوں گے اور اس فرق کو کم کرنا بھی پالیسی کا ایک بڑا چیلنج ہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے پہلا چیلنج برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بنانا ہے۔جو منصوبوں کے فوائد کے باہر جانے میں اضافے کو روکنے کے لیے اہم ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے تجارتی ماحول کی بہتری اور مقابلے کا ماحول ہونا لازمی ہے، تاکہ توانائی کی سپلائی میں اضافے اور ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کے ممکنہ فوائد کا جائزہ لیا جاسکے، جو سی پیک کے منصوبوں سے حاصل ہوں گے۔
دوسرا بڑا چیلنج توانائی کی تقسیم کے سلسلے میں مکمل قیمت کی وصولی ہے، ایک ایسے ماحول میں جہاں توانائی کی تقسیم میں نقصان (loses) ہونے کا اندیشہ زیادہ ہو، وہاں توانائی کی پیداوار میں مزید اضافے کے نتیجے میں نہ صرف مالی لاگت اور گردشی قرضوں میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ توانائی کے طویل المدت نئے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ وصولیوں کے عمل کے لیے مخصوص راستا اختیار کرنے میں کچھ رکاٹیں ہیں لیکن ساتھ ہی میٹرنگ اور وصولیوں کے لیے ایک مضبوط اور ریگولیٹری فریم ورک بنانے کے لیے نجی شعبے کی زیادہ سے زیادہ شراکت داری پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ انتباہ بھی کیا گیا کہ سرمایہ کاروں کو بہت زیادہ مراعات دینے کے بجائے حکومت سرمایہ کاری کے سلسلے میں ٹیکسوں میں یکسانیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ نئے بیرونی معاہدوں اور ادائیوں کے رجحانات میں توازن کو بھی یقینی بنائے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں کا پاکستان کی معیشت پر اچھا اثر ہو سکتا ہے، یہ بھی کہا گیا کہ ان منصوبوں کے باعث ملکی جی ڈی پی 2017 تک 2 ارب ڈالرز جبکہ 2024 تک 7 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔
سی پیک کے حوالے سے عالمی مالیاتی فنڈ کی اس رپورٹ کو چشم کشا کہاجاسکتاہے اور سی پیک کے مخالفین اس رپورٹ کو بنیاد بناکر اس کے خلاف اپنے پروپیگنڈے میں مزید زور پیدا کرنے اور اس پورے منصوبے ہی کو پاکستان کے مفادات کے منافی ثابت کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ جب سے چین نے سی پیک کا اعلان کیا ہے تب سے اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اور طاقت اس میں نقائص نکالنے، اس میں چھید کرنے اور مفروضوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی خدشات ظاہر کرنے میں صرف کی جا رہی ہے۔
فی الوقت سی پیک کے خلاف تین اقسام کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک یہ پورا منصوبہ صرف پنجاب کے لیے مختص ہے اور اس میں دیگر تین چھوٹے صوبے نظر انداز کیے گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس منصوبے کی وجہ سے ملک بیرونی بھاری قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دب جائے گا اور اخراجات کی وجہ سے پاکستان کو ایک بار پھر قرضہ لینے پڑے گا۔ 110 ارب ڈالرز کی کل رقم جیسے خوفناک اعداد و شمار بھی سنائی دے رہے ہیں۔تیسرا، کچھ بلوچ نوجوانوں کا خیال ہے یا ایک مذموم منصوبے کے تحت ان میں یہ خیال اُجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی کہ اس منصوبے کی وجہ سے وہ اپنے ہی صوبے میں اقلیت بن جائیں گے۔ اس تشویش کی بنیادی وجہ ممکنہ معاشی فائدوں کے بجائے بے اعتمادی ہے ، اور اس بد اعتمادی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت سی پیک کے حوالے سے سرمائے کے اسٹرکچر، سرمایہ کاری کے ذرائع کے متعلق تفصیل، منصوبے کے اسپانسرز کے بارے میں معلومات کو عوامی سطح پر نہیں لائی ہے، چنانچہ معاملات سلجھ نہیں پائے ہیں اور کنفیوژن اپنی جگہ موجود ہے۔اس حوالے سے شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک منصوبوں سے ہونے والے مجموعی فائدوں کا اندازہ لگانے اور ان کی مانیٹرنگ کے لیے اخراجات و فوائد کے تجزیے (cost-benefit analysis) کا موثر فریم ورک تیار کیا جائے اورا س حوالے سے عوام میں پائے جانے والے یاپھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنے کے لیے اس کی بھرپور تشہیر کی جائے۔
جہاں تک سی پیک سے ہونے والے فوائد کا تعلق ہے تو یہ فوائد تین اقسام کے ہو سکتے ہیںـ؛۔
1: بلاواسطہ فوائد، جن کا تخمینہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی یعنی گروس ویلیو ایڈڈ میں اضافے کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے۔بالفرض توانائی کے شعبے میں تبدیلی کی شرح ایک سے زائد ہو، تو توانائی کی پیداوار اور استعمال میں 2فیصد اضافہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو موجودہ سطح سے2 فیصد بڑھا دے گا۔2: بالواسطہ فوائد کا اندازہ مصنوعات اور خدمات کی بلاواسطہ طلب کے نتیجے میں ہونے والی سرگرمیوں کے متعدد اثرات سے لگایا جاسکتا ہے۔3: سی پیک کے تحت سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کی قلت ختم ہونے سے چند اقتصادی سرگرمیاں قابل عمل ہوسکتی ہیں اور اس طرح متعلقہ علاقوں سے ہنرمند لیبر کی نقل مکانی بھی کم کی جاسکتی ہے۔
اس حوالے سے جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تواخراجات بھی چار قسم کے ہو سکتے ہیں.1: بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، اور سڑکوں کی تعمیر پر سرمایہ کاری کے بلاواسطہ اخراجات؛2: بالواسطہ اخراجات: بڑے پیمانے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، اور چند مصنوعات اور خدمات کی مقامی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے تو اخراجات میں بھی کمی ہوتی جائے گی۔3: ناگزیر اضافی اخراجات: ملکی مصنوعات میں مطلوبہ معیار اور خصوصیات نہ ہونے کی وجہ سے کمی کو پورا کرنے کے لیے درآمدات کرنی پڑیں گی۔4: ایسے اخراجات جن سے گریز ممکن ہے ، مثلاًمناسب منصوبہ بندی، تال میل اور بہتر انتظامات سے زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والے فوائد معیار برقرار رکھتے ہوئے کم لاگت کے ساتھ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔چنانچہ خالص فوائد کا اندازہ مجموعی فوائد میں سے مجموعی اخراجات منہا کر کے لگایا جا سکتا ہے. یہ حساب کتاب اتنا سیدھا نہیں ہوتا، اور اس میں کئی نظریاتی، عملی، اور پیمائش کی مشکلات موجود ہوتی ہیں.۔سب سے زیادہ مشکل حصہ آسانی سے قابلِ پیمائش بلاواسطہ فوائد یا اخراجات کو بالواسطہ فوائد و اخراجات کے اندازوں کے ساتھ ملا کر دیکھنا ہے، کیوں کہ بعد والی دو چیزیں چند مفروضوں پر مبنی ہوتی ہیں۔چنانچہ ماہرینِ معاشیات مانیٹرنگ کے تجربات کے ذریعے ایسا نیا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جو اصل اندازوں کی درستی میں کام آتا ہے. نتیجے میں آپ کے قابلِ گزیر اخراجات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، اور آپ کے بالواسطہ فوائد کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے، اور آخر کار آپ کے خالص فوائد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
ایسے اخراجات جن سے گریز ممکن ہے ان کو دو مثالوں کی مدد سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اگر منصوبے کی تکمیل تک چینی منیجرز اور باصلاحیت و تکنیکی اسٹاف کی تعیناتی جاری رہتی ہے تو فی مزدور سیکورٹی، رہائش، نقل و حرکت اور بیرونِ ملک مقیم ہونے کی وجہ سے زیادہ اجرت کی وجہ سے پاکستانیوں کی ملازمت کے مقابلے زیادہ لاگت آئے گی لیکن اگر حکومت اس دوران چینی تربیت کاروں کی نگرانی میں پاکستانیوں کو مناسب تربیت، انٹرن شپس، اور اسٹڈی اسائنمنٹس کے ذریعے ان پوزیشنز پر تعینات کرنے کے قبل از وقت منصوبے بنائے تو اس سے بھی اخراجات میں کمی اور خالص منافع میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس کام کے لیے ہم آہنگی، اہداف ترتیب دینا، مانیٹرنگ، اور ووکیشنل اور ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں، نجی تربیتی اداروں اور صوبائی حکومتوں کے سپرد کر دینا درکار ہوگا۔اسی طرح سے یہ بھی ایک امکانی اندازہ ہے کہ تعمیراتی میٹریل کی ٹرانسپورٹ، درآمدات و برآمدات کی تجارت اور مصنوعات کے اضافی حجم کے لیے کم از کم 1 لاکھ اضافی ٹرکس درکار ہوں گے۔ اگر سی پیک منصوبوں کے دوران طلب اپنی انتہا پر پہنچنے سے قبل ذیلی شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی تو ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح پاکستانی برآمدات کے لیے مسابقتی نقصان ہوگا۔ اس طرح سی پیک منصوبوں میں بھی اخراجات کی زیادتی ہوگی اور یوں بالواسطہ اخراجات بڑھ جائیں گے۔لیکن اگر پاکستانی ٹرک ساز کمپنیوں کو ایک اندازے کے مطابق اعداد و شمار فراہم کیے جائیں تو وہ حصوں اور پرزوں کے سپلائرز کے ساتھ اپنی موجودہ صلاحیت کو وسعت دینے میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ صنعتوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے اور زیادہ پیداوار سے اخراجات میں بچت کی وجہ سے زیادہ منافع کی مدد سے بالواسطہ فائدوں میں اضافہ ہوگا۔
جہاں تک فائدوں کا سوال ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سی پیک سے ہونے والے سب سے زیادہ غیر معمولی اور دیرپا فائدے بلوچستان اور جنوبی خیبر پختونخواہ کے محرومی کے شکار اضلاع میں رہنے والے لوگوں کو حاصل ہوں۔مصنوعات اور خدمات کی قومی مارکیٹ سے ان اضلاع کے ملاپ سے ان کی ماہی گیری، کان کنی، لائیواسٹاک، زراعت اور دیگر سرگرمیاں اقتصادی طور پر قابلِ عمل بنیں گی۔ یوں روزگار اور ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اس طرح انہیں غربت سے نکلنے میں مدد ملے گی۔سڑکیں اور بجلی وسیع تر ترقی کے اہم حصے ہیں کیوں کہ ان سے فصل کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات کم ہوتے ہیں، جلد خراب ہو جانے والی زرعی تجارتی اشیاء جلد از جلد مارکیٹ پہنچائی جا سکتی ہیں، مارکیٹوں تک ترسیل کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں، اور یوں کسانوں کے پاس زیادہ پیسہ آتا ہے، اور اس کا استعمال وہ زرعی مصنوعات کو خریدنے میں کرسکتے ہیں، اور یوں ان اضلاع میں اقتصادی سرگرمیوں کا دوسرا راؤنڈ چل پڑے گا۔حکومت محرومیوں کے شکار ان اضلاع کے لوگوں کے لیے فائدوں میں اضافے کے لیے سرگرم کردار ادا کر کے اور قابل گریزاخراجات کو محدود کر کے کئی خدشات اور شکوک و شبہات ختم کر سکتی ہے۔
ایچ اے نقوی


متعلقہ خبریں


( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...

( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان)

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم)

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ وجود - منگل 01 جولائی 2025

وفاقی وزیر توانائی نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھ دیا، محصولات کی وصولی کے متبادل طریقوں کی نشاندہی ،عملدرآمد کے لیے تعاون طلب بجلی کے مہنگے نرخ اہم چیلنج ہیں، صارفین دیگر چارجز کے بجائے صرف بجلی کی قیمت کی ادائیگی کر رہے ہیں، اویس لغاری کے خط کا متن حکومت نے بجلی کے بلوں میں ...

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم ) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پاکستان، ایران اور ترکی اگراسٹریٹجک اتحاد بنالیں تو کوئی طاقت حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتی گیس پائپ لائن منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے، ایران کے سفیر سے ملاقات ،ظہرانہ میں اظہار خیال پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے خلاف ایران کی حم...

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم )

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پارلیمان میں گونجتی ہر منتخب آواز قوم کی قربانیوں کی عکاس ، امن، انصاف اور پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کسی کو بھی پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے،عالمی یوم پارلیمان پر پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خودمختار پا...

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو)

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی وجود - منگل 01 جولائی 2025

ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پانے کے بعد لیگ سے باہر آئرلینڈ کی جگہ نیوزی لینڈ یا پاکستان کی ٹیم کو اگلے سیزن کیلیے شامل کیا جائے گا،رپورٹ ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پ...

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید) وجود - منگل 01 جولائی 2025

درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحش...

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید)

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند وجود - پیر 30 جون 2025

  حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

  جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان وجود - پیر 30 جون 2025

پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان

مضامین
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد! وجود جمعه 04 جولائی 2025
افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش وجود جمعرات 03 جولائی 2025
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت وجود جمعرات 03 جولائی 2025
ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر