وجود

... loading ...

وجود
وجود

متضاد نہاد

بدھ 19 جولائی 2017 متضاد نہاد

وزیراعظم نوازشریف نے اپنے من کے مندر میں خود اپنا ہی بُت سجا رکھا ہے،جسے وہ ہر وقت پوجتے رہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ خواہش مند ہیں کہ دوسرے بھی یہی کریں۔ کچھ کاسہ لیس بھی ہیں جو اس کے لیے تیار رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی دوسرا اُن کی جگہ نہ لے لیں۔ وزیراعظم نوازشریف ایک بدلے ہوئے عہد میں پرانی ترکیبوں ، چاپلوس بوڑھوں اور موٹے پیٹوں کے لشکروں کے ساتھ بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں سے لڑ رہے ہیں۔ اپنی ہی عقیدت میں گرفتاروسوسہ زدہ حریفوں سے لڑنے والے آدمی کاکیا حال ہوجاتا ہے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ نوازشریف کہاں اور فرانسس بیکن کہاں؟ مگر دلچسپ اور قدرے مضحکہ خیز ایک مناسبت موجود ہے۔
وِل ڈیورانٹ نے اپنی ایک کتاب میں تاریخ کے ہیروز کا ایک اجمالی خاکہ کھینچا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں فرانسس بیکن ( ) کوعہدِ استدلال کے قائد کا رتبہ دیتا ہے۔مگر بیکن کی زندگی متضاد نوعیت کی نہاد رکھتی ہے۔بطور اٹارنی جنرل اُس نے بادشاہ کی مرضی کے فیصلے حاصل کرانے کے لیے عدلیہ پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کیا۔اُس نے ظالم اجارہ داریوں کوتحفظ دیا۔ اور اس ’’عہدِ استدلال کے قائد‘‘ نے بطور جج اپنی عدالت میں مقدمے کے فریقین سے بھاری تحائف بھی قبول کیے۔بآلاخر پارلیمنٹ نے اُس کے خلاف بدعنوانی کے23 مقدمات بنائے۔بیکن نے آخرِ کار ہاؤس آف لارڈز کو اپنا اعتراف نامہ بھیجا۔بیکن کو سزا سنا دی گئی۔ بیکن کے مرنے کے بعد اُ س کے پہلے سوانح نگار’’ رالے‘‘(Rawley )کو اس مسئلے پر بیکن کی ایک تحریر ملی جس میں اُس نے لکھا تھا کہ
’’میں ان پچاس برسوں کے دوران میں انگلینڈ کا سب سے عادل ترین جج تھا۔لیکن پارلیمنٹ نے اپنے
دو سو برسوں میں سب سے منصفانہ کارروائی کی۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف کا ماجرا مختلف نہیں جو نظام پر اپنے اعتماد اور اس کے اپنے ساتھ سلوک کے حوالے سے کچھ اسی نوع کی کشمکش میں مبتلا نظر آتے ہیں مگر یہ کشمکش اپنی منطقی کسمپرسی کے باوجود بہرحال موجود رہتی ہے۔ اِسے بیکن کے طرزِ استدلال کی بھی سند ملتی ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف اپنی زندگی کے سب سے کٹھن دور سے گزر رہے ہیں، مگر وہ اور اُن کا خاندان اِسے روایتی سیاست کی کہہ مکرنیوں سے ٹالنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت آج کی جمہوریت دراصل دستوری جمہوریت ہے۔ جس میں انتداب (مینڈیٹ) عوامی ہوتا ہے مگر اقتدار قانونی ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوری اقتدار میں اقتدار کی ان دوبنیادوں میں سے کوئی ایک بھی ہِل جائے تو حکمران دوسری بنیاد کو اپنے جوازِ اقتدار کے طور پر پیش نہیں کرسکتے۔ مثلاً دستوری جمہوریت میں حکمران قانونی طور پر اقتدار کے سائبان سے محروم ہو جائے تو وہ اپنی عوامی تائید کو جواز کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ دنیا میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتوں میں برطانیا نے قبل ازوقت انتخابات کا چہرہ دیکھا تو دراصل اس کی وجہ برطانوی وزیراعظم کا استعفیٰ تھا۔ برطانوی وزیراعظم نے تو یہ استعفیٰ یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے حق میں ریفرنڈم کے نتیجے پر دے دیاتھا۔یہ معاملہ قانونی بھی نہیں بلکہ اخلاقی نوعیت کا تھا۔ جمہوریت کی عمارت کو قانون کی چھت اور اخلاقی جواز کی بنیاد نہ ملے تو مینڈیٹ کی تکرار بے معنی بلکہ بے ایمانی کہلانے لگتی ہے۔نواز شریف کا معاملہ کم وبیش اسی نوع کا ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی جماعت کے بعض رہنما ایک طرف یہ تکرار کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی اپنے متعین اختیارات اور پاناما کے حوالے سے عدالت کی جانب سے طے کردہ حدود سے تجاوز کرگئی ہے۔مگر دوسری طرف وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی ہمارے تیس سالہ دورِ اقتدار میں کرپشن ، رشوت یا بدعنوانی کا کوئی ایک ثبوت تو کجا حوالہ تو دے۔ یا للعجب! کیا جے آئی ٹی نوازشریف کے تیس سالہ دورِ اقتدار کی بدعنوانیوں کا جائزہ و احاطہ کرنے بیٹھے تھی یا پھر پاناما لیکس کے تناظر میں لندن کے فلیٹس کی خریداری کو کھوجنے بیٹھی تھی۔ محض ایک معاملے کی چھان بین میں جے آئی ٹی نے جو کچھ تلاش کیا ہے، اگروزیراعظم نوازشریف کے دعوے کے مطابق اُن کے تیس سالہ اقتدار کو کھنگال لیا جائے تونہ جانے کیا کیا کچھ برآمد ہوں۔ مگر سیاست ہوتی ہے کچھ ایسی ہے۔یہ دھوکے کی دلدل ہے۔ اور سیاست دان اسی دلدل میں عوام کو دھنسا کر اپنے قدم بڑھاتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما مختلف اعتراضات وارد کرکے ایک طوفان اُٹھانا چاہتے ہیں جس میں کوئی بھی منظر واضح نہ رہے۔ خلطِ مبحث میں کوئی سرا ہاتھ نہ آسکے۔یہ روش مسلم لیگ نون کے سلیم الطبع اور باضمیر حامیوں کوبھی برگشتہ وبیزار کررہی ہے۔ کیا یہ بھی کوئی سوال ہے کہ نوازشریف کے خلا ف ایسی ایسی فائلیں محفوظات (ریکارڈ) کا حصہ بنا دی گئیں جو بیس بیس سال پرانی تھیں۔ آخر تفتیش ہوتی کیا ہے؟ او رکیا یہ اعتراض صرف نوازشریف کے باب میں ہی وقعت رکھتا ہے یا پھر ایسا ہی اعتراض آصف علی زرداری اور بانی متحدہ کے خلاف تفتیش میں وارد کردیا جائے تو قابلِ قبول ہوگا۔ کسی بھی سیاست دان کے خلاف یا بدعنوان کے خلاف تفتیش ہو تو اُس کی زندگی کے تمام رازوں تک رسائی اور تمام بدعنوانیوں کی چھان پھٹک ہوتی ہے۔ عشروں اور دہائیوں کی مِسلیں کھولی اور کھنگالی جاتی ہیں۔اس میں کچھ نیا نہیں۔ خود نوازشریف اپنی مختلف حکومتوں میں اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اسی طرح بروئے کار آتے رہے۔
مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی کے نتائج پر یہ نکتہ اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محض ایک رپورٹ ہے عدالت کا فیصلہ نہیں۔ مگر مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی پر سوالات اس طرح اُٹھا رہے ہیں اور ایسے اعتراضات وارد کررہے ہیں جیسے اُسے عدالت عظمیٰ کی طرح بروئے کار آنا چاہئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ تفتیش اور انصاف کے درمیان جو فرق ہوتا ہے وہی اُس کے طریقے میں بھی ہوتا ہے۔ اندازِ تفتیش اور اندازِ انصاف مختلف ہوتا ہے۔عدالتیں ملزمان کویہ موقع دیتی ہے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرے مگر تفتیش کے تیور مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اعتراض کہاں سے واجب ہے کہ جو کاغذات عدالت میں شواہد کے طور پر جمع کرائے گئے اُس پر اُن سے رائے نہیں لی گئی۔ بھئی آپ کی جس پر رائے لی گئی وہ موجود ہے اور اس کے برخلاف جو کاغذات موجود تھے وہ محفوظات کا حصہ بنا دیے گئے ۔ تفتیش اسی نوع کے تضادات کو عریاں کرتی ہے۔ عدالتیں ان تضادات کا جائزہ اس طرح لیتی ہے کہ کسی فریق کا حقِ صفائی مجروح نہ ہو۔ مگر مسلم لیگ نون کے رہنما جے آئی ٹی کے نتائج کو عدالتی فیصلہ نہ ماننے پر اِصرار کرتے ہوئے اُس پر اعتراضات ایسے وارد کررہے ہیں جیسے یہ انصاف کا کوئی مرکز ہو۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے بینچ نے واضح کردیا کہ شریف خاندان نے جے آئی ٹی کے سامنے بہت عمومی رویہ رکھا ۔ اب تک سامنے آنے والے حقائق سے اندازا ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سوالات پرشریف خاندان کے افراد اس طرح بروئے کار آئے کہ جوجاننا ہے خون جان لیں ، ہم کچھ نہیں بتائیں گے۔
وزیراعظم نوازشریف اس کے باوجود یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے کہاں رشوت لی اور کہاں پر بدعنوانی کی۔ یہ سادگی نہیں۔ انسان متضاد طبیعت کے ساتھ برعکس رویوں میں بھی خود کو پالتا ہے۔یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو بدعنوانی کو جائز سمجھ کر اُس کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ ایسے میں نوازشریف یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے کہاں بدعنوانیاں کیں تو کچھ غلط نہیں پوچھ رہے۔ آخر فرانسس بیکن بھی ایسے ہی سمجھتے تھے کہ اُن کے خلاف کارروائی بھی منصفانہ تھی اور وہ خود بھی عادل ترین فرد تھے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر