وجود

... loading ...

وجود
وجود

تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کرنا ہوگی

جمعه 19 مئی 2017 تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کرنا ہوگی

متحدہ لندن قائد کے ریڈ وارنٹ کے اجراء کا راگ الاپا جا رہا ہے، ریڈ وارنٹ خواہش اور فرمائش پر جاری نہیں ہوتا ،حکومت اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قائم ہونے والے شہری امن کو بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنائے بغیردوام نہیں بخشا جاسکتا،کراچی کے شہری مسائل میں گھرے ہوئے ہیں‘ ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ اگر سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کا خیال نہ رکھا گیا تو انڈے کا سائز چھوٹا بھی ہوسکتا ہے، اوراگر مرغی نے انڈہ دینا ہی بند کر دیا تو ملک چلانا مشکل ہو جائے گا‘ ڈاکٹر فاروق ستار کیا منّے تھے کہ ان کو اپنے قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں کا علم نہیں تھا یا کمال گروپ کے لوگ دودھ پیتے بچے تھے ؟مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد کا وجود کو انٹرویو

یوں تو پاکستان کی سیاست میں مہاجر فیکٹر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک کسی نہ کسی انداز میں اثر انداز رہا ہے لیکن 1980ء کی دہائی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام کے بعد سے ملکی سیاست میں مہاجر فیکٹر کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔پھر مہاجر قومی موومنٹ بنی جو بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ میں ڈھل گئی اور اب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور متحدہ قومی موومنٹ لندن میں تقسیم ہوچکی ہے۔مہاجر قومی موومنٹ المعروف ایم کیو ایم کے قائد تحریک ایک عرصے تک مہاجروں کے نمائندے کے طور پر جانے جاتے رہے لیکن اب وہ متحدہ لندن کی قیادت تک محدود ہوچکے ہیں۔
قائدتحریک سے سب سے پہلے بغاوت کرنے والے طارق نظامی تھے‘ جنہوں نے 1990ء کی دہائی میں بانی ایم کیوایم سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا، تاہم کھل کر بانی ایم کیوایم کے سامنے آنے والے باغی مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد ہیں جنہوں نے 1992ء میں بانی ایم کیوایم سے علیحدگی اختیار کرکے مہاجر قومی موومنٹ میں رہتے ہوئے صرف ’’حقیقی‘‘ لفظ کے اضافے کے ساتھ باقاعدہ اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا‘ لیکن اس کے بعد بانی ایم کیوایم نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرکے قومی بنیاد پرسیاست کرنے کا اعلان کردیا اور یوں ملک کے سیاسی منظر نامے میں مہاجر قوم کے حوالے سے آواز بلند کرنے والی لسانی تنظیم مہاجر قومی موومنٹ ہی تنہا میدان میں رہ گئی۔ آفاق احمد کی جماعت مہاجر قومی موومنٹ کا مرکز اور محور لانڈھی ‘ کورنگی‘ ملیر‘ شاہ فیصل کالونی تھے اسکے علاوہ کراچی کے بعض علاقوں میں بھی اس کا وجود رہا لیکن اس دوران مہاجر قومی موومنٹ اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین طویل عرصے تک جنگ و جدل رہی ۔کراچی کے بعض علاقے نو گو ایریاز کے حوالے سے سامنے آئے اور یوں طویل عرصے تک مہاجر کے ہاتھوں مہاجر کے خون سے کراچی رنگین رہا‘ جس کے نتیجے میں سینکڑوں مہاجر نوجوان موت کی نیند سلا دیئے گئے تو ہزاروں گھر اجڑ گئے اور زندہ بچ جانے والے زندہ درگور ہو کررہ گئے۔اب کراچی آپریشن کے بعد کئی دہائیوں کے بعد کراچی خاک اور خون سے باہر نکل کر آیا اور امن کے اس سفر کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے قائد بانی ایم کیوایم کے ایک خطاب نے مہاجر سیاست کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا‘ کراچی کی سیاست میں مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں، اب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور لندن کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ کا کردار مہاجر سیاست کرنے والوں کیلئے ایک آپشن کے طور پر شہری سطح پر سامنے موجود ہے۔ کراچی کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور عالمی تبدیلیوں کے پس منظر میں گزشتہ روز مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد سے’’وجود‘‘ کا پینل انٹرویو لیا گیا ہے‘ جو قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

وجود پینل:۔ دنیا تبدیل ہونے جا رہی ہے، پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اسی تبدیلی کا حصہ ہے، سی پیک منصوبے کو آپ کیسا دیکھ رہے ہیں؟

آفاق احمد: ۔سی پیک کے حوالے سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی سے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہونے جا رہا ہے اور اس کی کامیابی یہاں کے کلچر کو بھی تبدیل کر دے گی اور متوسط طبقہ خطرات سے دو چار ہو جائے گا۔
وجود پینل:۔ کل تک آپ کا متحدہ قومی موومنٹ سے جھگڑا تھا۔ آج آپ پرامن انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور مہاجر قاتل، مہاجر مقتول کا سلسلہ رک گیا ہے۔ کیا یہ صورتحال مستقبل میں بالکل ختم ہو جائے گی؟
آفاق احمد: ۔ میں روز اول سے اس بات کا قائل ہو کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قتل و غارت گری نہیں ہونی چاہیے، دنیا کی جمہوریت کو دیکھ لیں۔ مہاجر قاتل، مہاجر مقتول سے بالآخر مہاجر قوم کا جانی ، سیاسی، معاشی اور نا قابل تلافی معاشرتی نقصان ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم بہت پیچھے جا رہے ہیں ہمیں اپنی فکر اور طرز عمل کو تہذیب اور شائستگی سے تبدیل کرنا ہوگا۔ جن عناصر نے اس کلچر کو فروغ دیا وہ بھی اب پشیمان ہیں اور اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ کراچی میں حالیہ امن رینجرز، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کی قربانیوں اور مثبت اقدامات کا ثمر ہے۔ بعض طالع آزما لوگوں نے امن کے اس سفر کو روکنے کے لیے ناکام کوششیں ضرور کیں لیکن اس آپریشن کی عوامی تائید نے ہر منفی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ یہ امن عارضی نہیں دائمی ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے ٹھوس سیاسی، معاشی ، معاشرتی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور کسی کو بھی ملک کے امن و امان اور قوم کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق بلدیاتی اداروں کے ذریعے دینے چاہییں جیسا کہ دنیا میں جمہوری ریاستیں بلدیاتی اداروں کے ذریعے اپنے عوام کو مکمل بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ اراکین قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی اور سینٹرز کا کام دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبے بنانا اور ان پر عمل کرانا نہیں بلکہ عوام کو بہتر قوانین کے ذریعہ انہیں آسان زندگی گزارنے کا موقع دینا ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ارکان پارلیمنٹ کو ان کے حلقہ انتخابات کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قائم ہونے والے شہری امن کو بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنائے بغیردوام نہیں بخشا جاسکتا ہے اور شہریوں کو حقوق بھی بلدیاتی اداروں کو اختیارات دے کر ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔
سیاسی اختلاف رائے کے باوجود میں دو ٹوک انداز میں کہتا ہوں کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر، ڈپٹی میر اور ضلعی بلدیات کے تمام منتخب نمائندوں کو ان کے اختیارات دیے جانے چاہییں کیونکہ یہ سب شخصیات اب ادارہ ہیں ،بلدیاتی ادارے مضبوط ہوں گے تو صوبہ اور ملک بھی مضبوط ہوگا۔ اس وقت کراچی کے عوام مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ انہیں پانی، بجلی، گیس ، صفائی ستھرائی، سڑکیں، فراہمی آب و نکاسی آب، طبی سہولیات، تعلیمی ضروریات بے ہنگم ٹرانسپورٹ کے نظام کو جنگی بنیادوں پر درست کرنے کی ضرورت ہے اور پھر کہوں گا یہ کام وزیر بلدیات کا نہیں کراچی کے منتخب میئر کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وہ اختیارات اور وسائل کے بغیر یہ ذمہ داریاں کیسے ادا کرے گا۔
وجود پینل:۔ ایم کیو ایم لندن سے اظہار لا تعلقی کے بعد کیا ایم کیو ایم پاکستان کو سیاسی آزادی ملنی چاہیے اور کیا اب یہ جماعت شہر اور اہل کراچی کے لیے ماضی کی اپنی غلطیوں کی اصلاح کرسکے گی؟
آفاق احمد: ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کیا منّے تھے کہ ان کو اپنے قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں کا علم نہیں تھا بلکہ میں یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ کمال گروپ کے لوگ دودھ پیتے بچے تھے کہ اچانک ان کا ضمیر جاگ گیا ہے، اور وہ انہیں ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ملک دشمنی میں بہت کچھ ہوتا رہا تو اس دوران یہ سب خاموش کیوں رہے اور ریکارڈ پر موجود ہے کہ الیکٹرانک میڈیا میں گھنٹوں بیٹھ کر فاروق ستار اور مصطفی کمال اپنے قائد کی وکالت کرتے رہے بلکہ مصطفی کمال تو دھمکیاں تک دیتے رہے۔بہرحال فاروق ستار نے بحالت مجبوری ہی صحیح ،غلط کام کو غلط کہا ہے تو ہم نے اس کا خیر مقدم کیا ہے کہ چلو انہوں نے اپنے قائد کی ملک دشمن سرگرمیوں پر اظہار لاتعلقی کرکے مناسب قدم اٹھایا ہے۔ میں نے تو 1991ء میں حکومت سے کہا تھا قائد متحدہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں، لیکن میری باتوں کو سنا نہیں گیا ۔اگر اس وقت حکومت نے توجہ دی ہوتی تو شاید صورتحال اتنی نہیں بگڑتی جب کہ ریاست نے اب تک پابندی عائد نہیں کی ہے اور ابھی تک متحدہ لندن قائد کے ریڈ وارنٹ کے اجراء کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ جناب ریڈ وارنٹ خواہش اور فرمائش پر جاری نہیں ہوتا ہے بلکہ ریڈ وارنٹ کے اجرا کے لیے پہلے جرائم کو ثابت کر نا ہوتا ہے۔ اس کے شواہد پیش کرنا ہوتے ہیں۔ حکومت اس حوالے سے نہ تو سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے اور نہ ہی اس دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے جو ملک دشمن عناصر کے خلاف اس کی آئینی ذمہ داری ہے، عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم لندن کے پاکستان دشمنی کے عزائم کھل کر سامنے آنے کے بعد اس کو سیاسی آزادی دینے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور نہ ہی حب الوطنی کا تقاضہ ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسی غلطی کی گئی تو نہ صرف یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہوگی بلکہ ملک دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور لوگ کھل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کریں گے۔ البتہ ایم کیو ایم پاکستان نے جب اپنے ملک دشمن قائد سے اظہار لاتعلقی کر لیا ہے تو انہیں موقع ملنا چاہیے تاکہ ملک دشمنوں سے اظہار لاتعلقی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ملک میں مثبت تعمیری سیاست کو فروغ حاصل ہو۔
وجود پینل:۔ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں کا معاملہ کیا ہے، وسائل کی کمی اور سیاسی سطح پر محرومیوں کی حقیقت کیا ہے؟
آفاق احمد: ۔ نئی مردم شماری کے بعد حکومت کی یہ اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ آبادی کے تناسب سے انتخابی حلقوں کی از سر نو حلقہ بندی کرے۔ انتظامی اضلاع کی بنیاد پر ماضی میں کی گئی حلقہ بندیاں نا انصافی پر مبنی ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران شہری آبادی میں کئی گنا اضافہ اور دیہی علاقوں کی آبادی کم ہوئی ہے۔ لہٰذا پرانی حلقہ بندی کے مطابق پارلیمنٹ میں شہری آبادی کی نمائندگی کم ہے۔ یہ عجیب صورتحال نہیں ہے کہ شہری علاقے کارکن قومی اسمبلی کا حلقہ ڈھائی تین لاکھ ووٹرز پر مشتمل ہو اور دیہی علاقے کا رکن قومی اسمبلی کا حلقہ لاکھ سوا لاکھ ووٹرز پر مشتمل ہو۔یہ سراسر نا انصافی اور احساس محرومی کی بنیاد ہے۔ لسانی معاہدے کے وقت 40% شہری سندھ اور 60%دیہی سندھ کا تناسب طے ہوا تھا۔ شہری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے یہاں نسلی اعتبار سے آبادی میں اضافے کے علاوہ اندرون ملک سے کراچی میں روزگار اور تعلیم کے حصول کے لیے آنے والوں کی وجہ سے آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے ،اس تناسب سے تو سندھ کی شہری آبادی 60% ہے۔ لہٰذا اس فارمولے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات تو دیے گئے لیکن سندھ سے دس سال کوٹے کے قانون کو واپس نہ لے کر آئینی وعدے پر عمل درآمد سے گریز کیوں کیا گیا؟ اب تنہا کوئی جماعت شہر کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے، میں یہاں بسنے والی تمام اکائیوں کو تسلیم کرتا ہوں۔ سندھ کے کوٹے میں تیسری بار توسیع دینے پر متحدہ قومی موومنٹ کو حکومت سے احتجاجاً مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن کراچی کی نمائندگی کرنے والوں نے ایسا نہیں کیا، ان کی اس نا اہلی کی سزا کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے بعد کراچی کے وسائل میں اضافے کی توقع ہے۔ ویسے ارباب اختیار کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ اگر سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کا خیال نہ رکھا گیا تو انڈے کا سائز بھی چھوٹا ہوسکتا ہے۔ اور مرغی نے انڈہ دینا ہی بند کر دیا تو ملک چلانا مشکل ہو جائے گا۔ جبکہ شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر شہر کی ترقی اور شہریوں کے حقوق کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی ۔
وجود پینل:۔ کراچی میں ہونے والے کئی بڑے جرائم پر اب تک کوئی خاص اقدامات نظر نہیں آرہے، خصوصاً سانحہ بلدیہ ٹائون پر اب تک ملزمان گرفتار نہیں ہوئے ،اس کی جے آئی ٹی کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے اس معاملے کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
آفاق احمد: ۔ کراچی سمیت ملک بھر کے سنگین جرائم کے ملزمان اگر سزا سے بچ نکلتے ہیں تو یہ قانون کی کمزوری ہے۔ میں نے فریضہ حج کی ادائیگی پر روانگی کے وقت سانحۂ بلدیہ ٹائون کے جن ملزمان کی نشان دہی کی تھی، اب وہ گرفتار ہوچکے ہیں۔ جے آئی ٹی میں سے کسی کا نام نکال کر بے گناہ ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ گرفتار ملزمان جب مقدمے کی سماعت کے دوران سزا کے قریب ہوں گے تو وہ بھی شامل تفتیش ہوں گے جن کے نام نکال دیئے گئے ہیں اور وہ بچ نہیں پائیں گے۔ اتنے بڑے سانحہ پر جلد سزا سے ہی جرائم کی روک تھام ممکن ہے۔
وجود پینل:۔ آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ازسر نو منظم کر رہے ہیں اس کے کیا مقاصد ہیں؟
آفاق احمد: ۔ جی ہاں مہاجر قومی موومنٹ کی تنظیم سازی کا عمل جاری ہے۔ خواتین تنظیم کاآج 19 مئی کو ہونے والا جلسہ عام ہماری سیاسی سرگرمیوں کا نکتہ آغاز ہے۔ ہم عوام کو درست سمت میں متحرک کرنے جا رہے ہیں، انہیں کراچی کی سیاست میں بامقصد سمت کی جانب لے کر جانا چاہیے تاکہ عوام کی طاقت سے کراچی کے حقوق حاصل کرسکیں اور عوام کو شخصیت کے سحر سے نکال کر مقصد کی جانب لا کر عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والے نمائندے کو منتخب کرایا جاسکے۔ جو عوام کو مشکل میں ڈالے بغیر ایوان میں ان کا مقدمہ لڑکر انہیں ایک باعزت شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا آئینی اور قانونی موقع فراہم کرسکیں۔ 19 مئی کو ملیر آر سی ڈی گرائونڈ میں خواتین کا جلسہ عام مہاجروں کی منزل کے سفر کا نکتہ آغاز ہوگا۔ ان شاء اللہ جولائی تک تنظیمی عمل مکمل کرنے کے بعد نشتر پارک کراچی میں جلسہ عام کریں گے۔ ہمیں امید ہے ہمارے جلسوں اور تنظیمی سرگرمیوں سے مہاجروں میں پائی جانے والی بے یقینی اور نا امیدی کا خاتمہ اور کراچی کی سیاسی فضاء میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
وجود پینل:۔ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا کیا پروگرام ہے، کیا آپ انتخاب میں خود حصہ لیں گے؟
آفاق احمد: ۔ آئندہ انتخابات سے قبل مہاجر قومی موومنٹ اور ذیلی تنظیموں کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل کرکے اپنی شناخت اور وجود کے ساتھ براہ راست بھی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اور شہر کی دیگرجماعتوں سے جو کراچی کی اسٹیک ہولڈرز ہیں ان جماعتوں سے سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ بھی کریں گے۔ ہر محب وطن اور کراچی میں حقیقی امن لانے والی جماعتوں سے ہمارا انتخابی اتحاد ممکن ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے ہمارے نکتہ نظر سے اتفاق کیا اور ہمارے وجود کو تسلیم کیا تو ان سے بھی انتخابی اتحاد ممکن ہے۔ کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ اپنے عوام اور ملک کے وسیع ترمفاد میں سیاسی اتحاد جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ جہاں تک میرے انتخاب میں حصہ لینے کا تعلق ہے، یہ موقع جب آئے گا تو اس کا فیصلہ میری جماعت کرے گی۔
انٹرویو پینل:سراج امجدی/عمران علی شاہ
عکاسی :آصف راٹھور


متعلقہ خبریں


کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدالتی معاملات میں کسی کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے۔سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جب سے چیف جسٹس بنے ہیں ہائیکورٹس کے کسی جج کی جانب سے مداخلت کی شکایت نہیں ملی ہے اور اگر کوئی مداخلت ...

کسی جج نے شکایت نہیں کی، عدلیہ میں مداخلت قبول نہیں، چیف جسٹس

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر ہمیں حق نہ دیا گیا تو حکومت کو گرائیں گے اور پھر اس بار اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے۔اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان تحریک انصاف کے 28ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے ایک بار پھر ...

حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ وجود - جمعه 26 اپریل 2024

اندرون سندھ کی کالی بھیڑوں کا کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے اناسی پولیس اہلکاروں کا شکارپور سے کراچی تبادلہ کردیا گیا۔ شہریوں نے ردعمل دیا کہ ان اہلکاروں کا کراچی تبادلہ کرنے کے بجائے نوکری سے برطرف کیا جائے۔ انھوں نے شہر میں جرائم میں اض...

ڈاکوئوں سے روابط رکھنے والے پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے وجود - جمعه 26 اپریل 2024

چیف جسٹس کراچی آئے تو ماضی میں کھو گئے اور انہیں شہر قائد کے لذیذ کھانوں اور کچوریوں کی یاد آ گئی۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے کراچی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے وہ ماضی میں کھو گئے اور انہیں اس شہر کے لذیذ کھ...

چیف جسٹس ،کراچی کے کھانوں کے شوقین نکلے

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز وجود - جمعه 26 اپریل 2024

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وزیراعلی کی کرسی اللہ تعالی نے مجھے دی ہے اور مجھے آگ کا دریا عبور کرکے یہاں تک پہنچنا پڑا ہے۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے پولیس کی پاسنگ آٹ پریڈ میں پولیس یونیفارم پہن کر شرکت کی۔پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں مریم نواز نے کہا کہ خوشی ہوئی پو...

آگ کا دریا عبور کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچنا پڑا، مریم نواز

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم وجود - جمعه 26 اپریل 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائب لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔ احتجاج کرنے والی پی ڈی ایم کی جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، واضح کریں کہ انھیں حالیہ انتخابات پر اعت...

پی ڈی ایم جماعتیں پچھلی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں، حافظ نعیم

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب نے معاشی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز دے دی۔تفصیلات کے مطابق کراچی میں وزیراعظم شہباز شریف نے تاجر برادری سے گفتگو کی اس دوران کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا کہ آپ نے اسٹاک مارکیٹ کو ریکارڈ سطح پر پہنچایا ...

پسند نا پسند سے بالاتر ہوجائیں،تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑا چلنے کا دعوی کر دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بھائی نے دھوکا دیکر نواز شریف سے وزارت عظمی چھین لی ۔ شہباز شریف کسی کی گود میں بیٹھ کر کسی اور کی فرمائش پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان...

نواز اور شہباز میں جھگڑا چل رہا ہے، لطیف کھوسہ کا دعویٰ

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا وجود - جمعرات 25 اپریل 2024

غزہ میں صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کے باعث امریکا کی کولمبیا یونیوسٹی میں سات روزسے کلاسز معطل ہے ۔سی ایس پی ، ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کرلیا گیا۔فلسطین کے حامی طلبہ کو دوران احتجاج گرفتار کرنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے پر کولمبیا یونیورسٹی ...

امریکی طالبعلموں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگیا

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان وجود - بدھ 24 اپریل 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب کا الیکشن پہلے سے پلان تھا اور ضمنی انتخابات میں پہلے ہی ڈبے بھرے ہوئے تھے۔اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت، قانون کی بالادستی اور فری اینڈ فیئر الیکشن پر کھڑی ہوتی ہے مگر یہاں جنگل کا قانون ہے پنجاب کے ضمنی ...

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، یہاں جنگل کا قانون ہے ،عمران خان

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر وجود - بدھ 24 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے مزارِ اقبال پر حاضری دی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ غزہ کے معاملے پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو سراہتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ پر مہمان ایرا...

ایرانیوں کے دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ایرانی صدر

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم وجود - بدھ 24 اپریل 2024

سپریم کورٹ نے کراچی میں 5 ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم دیدیا۔عدالت عظمی نے تحویل کے لئے کانپور بوائز ایسوسی ایشن کی درخواست مسترد کردی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کانپور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کو زمین کی الاٹمنٹ کیس کی سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انیس سو اک...

سپریم کورٹ، کراچی میں 5ہزار مربع گز پلاٹ پر پارک بنانے کا حکم

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر