وجود

... loading ...

وجود

غریب آبادی ماحولیاتی تباہ کاریوں کاسب سے بڑاشکار

بدھ 17 مئی 2017 غریب آبادی ماحولیاتی تباہ کاریوں کاسب سے بڑاشکار

ماحولیات کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر کھڑاہے،جرمن واچ کی رپورٹ ، اس تبدیلی کی وجہ سے پانی کے وسائل ختم یااس طرح تباہ ہورہے کہ زیر زمین پانی بھی ناقابل استعمال ہوتاجارہا ہے

ماحولیات سے متعلق امور کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں غربت کا ایک بڑا سبب ماحولیاتی تبدیلی میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے قدرتی وسائل ختم یاتباہ ہوتے جارہے ہیں اور اس صورت حال سے سب سے زیادہ دیہی علاقوں کے لوگ متاثر ہورہے ہیں ۔کیونکہ اس تبدیلی کی وجہ سے پانی کے وسائل ختم یااس طرح تباہ ہورہے کہ زیر زمین پانی بھی ناقابل استعمال ہوتاجارہا ہے۔جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی اور شجرکاری نہ ہونے یاکم ہونے کی وجہ سے قدرتی وسائل اور جنگلی حیات کے ساتھ ہی مویشیوں کے چارے کے وسائل کم بلکہ ختم ہوتے جارہے ہیں، سرسبز کھیتوں کو کنکریٹ کی فلک بوس عمارتوں میں تبدیل کئے جانے کے رجحان کے سبب قابل کاشت اراضی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے جبکہ آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش ، اجناس ، سبزیوں اور پھلوں کی طلب میں اضافہ ہورہاہے جس کے لئے اب ہمیں درآمدات کاسہارا لینا پڑ رہاہے۔
ماحولیات کے خطرات کاتجزیہ کرنے والے جرمنی کے ادارے جرمن واچ کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ماحولیات کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر کھڑاہے۔یہ تجزیاتی رپورٹ پوری دنیا کے مختلف ممالک کو 1996 سے 2015 کے درمیان پیش آنے والے خطرات کاتجزیہ کرنے کے بعد تیار کی گئی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ پاکستان کو اس عرصے کے دوران 133 مرتبہ قدرتی آفات کاسامنا کرناپڑا جس سے ملک کو مجموعی طورپر 3 ارب82 کروڑ31 لاکھ70 ہزار ڈالر کانقصان برداشت کرنا پڑا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ہمارے ملک کے غریب لوگوں خاص طورپر دیہی علاقوں کے باشندوں کی زندگی کا دارومدار بڑی حد تک پانی کے نظام پر ہے اب ملک میں پانی کا نظام ہی تباہ ہوجائے تو پھر یہ غریب کہاں جائیں؟
ماحول کی اس تبدیلی کی وجہ سے جہاں ایک طرف ملک مسلسل قدرتی آفات، طوفانوں ، آندھیوں ،بارشوں اور سیلابوں کا شکار رہتا ہے وہیں اس کی وجہ سے ملک کا وسیع علاقہ شدید خشک سالی کابھی شکار ہورہا ہے کیونکہ مون سون کی ہوائیں جن درختوں سے ٹکراکر ہماری زمین کو سیراب کرتی تھی اب درخت کاٹ دئے جانے کے سبب بغیر برسے گزر جاتی ہیں اور ہمارے حصے میں صرف ان تیز ہوائوں سے ہونے والی تباہ کاریاں رہ جاتی ہیں۔اس صورتحال سے ہماری شہری اوردیہی دونوں ہی جگہ کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور غربت میں کمی ہونے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے ۔کسان کی خوشحالی داستان پارینہ بنتی جارہی ہے اور زرعی زمین کا مالک بادشاہ ہوتاہے جیسی کہاوتیں داستانوں کاحصہ بن چکی ہیں اور اب حقیقت یہ ہے کہ زرعی زمین کامالک بیٹھا رو رہاہوتاہے۔
ماحولیاتی تبدیلی میں اضافہ اور ہماری جانب سے جاری ماحول مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ملک پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ پاکستان کو 1992 ،2003 ، 2007،2010،2011 ،2013اور 2015 میں شدید بارشوں اور سیلابی کیفیت کاسامنا کرنا پڑا لیکن پانی ذخیرہ کرنے کاکوئی انتظام نہ ہونے کے سبب ہم ان بارشوں اور سیلابوںکی تباہ کاریاں سہنے پر تو مجبور ہوئے لیکن اس اضافی پانی کو اپنے مستقبل کی ضرورت کیلئے محفوظ کرنے اور اس کے ذریعے زیادہ اور بہتر کاشت کے ذریعے ان نقصانات کاازالہ کرنے میں ناکام رہے نتیجہ یہ ہوا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی سے محروم ہوکر سڑکوں پر آگئے ۔
ان قدرتی آفات نے ہماری دیہی معیشت کاتانا بانا ہی بکھیر کر رکھ دیا،اس سے ہمارا رہا سہا انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہوگیا اور دیہی علاقوں سے شہروں تک رسائی کے راستے مسدود ہوکر رہ گئے جس کا براہ راست اثر بحیثیت مجموعی پوری ملکی معیشت پر پڑا اور ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ۔
اس حوالے سے افسوسناک امر ہے کہ ان تباہ کاریوں اور نقصانات کے باوجود حکومت نے ماحول کو بچانے اور محفوظ کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔یہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود مقتدر ماہرین ارضیات اور ماحولیات نے عوام کو یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ انھیں جن قدرتی آفات کاسامنا کرنا پڑا ہے اور جس کی وجہ سے تم اپنی تمام جمع پونجی سے محروم ہوگئے ہو وہ خود تمہاری لائی ہوئی تباہی ہے اگر ابتدا ہی سے ماحول کو آلودگی اور تباہی سے بچانے کیلئے ہر ایک اپنا کردار ادا کرتا تو شاید ملک کو اتنی بڑی تباہکاری کاسامنا نہ کرنا پڑتا۔
اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کاعمل جاری ہے ،اور اس کے مقابلے میں ہماری شجر کاری مہم صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدود نظر آتی ہے کیونکہ گزشتہ 10سال کے دوران ملک میں جنگلات کے رقبے میں نہ صرف یہ کہ ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں ہواہے بلکہ جنگلوں کی بے تحاشہ کٹائی کے سبب اس میں مسلسل کمی آتی جارہی ہے۔گندے پانی کی ری سائکلنگ اوراس کی نکاسی کاکوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے گندہ پانی جوہڑوں کی شکل میں قابل کاشت اور زرخیز زمینوں پر جمع ہوکر انھیں بھی ناقابل کاشت بنارہاہے جبکہ اس کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہوکر ناقابل استعمال ہوتے جارہے ہیں۔سیم وتھور کے مسائل میں اضافہ ہورہاہے ،جس کی وجہ سے چراگاہیں ختم ہوتی جارہی ہیںجس کی وجہ سے مویشی پالنا مشکل تر ہوتاجارہاہے اور قابل کاشت اراضی میں مسلسل کمی اور فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے مسلسل رجحان کے سبب چھوٹے کاشتکاروں کیلئے زندگی گزارنا کٹھن سے کٹھن تر ہوتاجارہاہے۔
آبی آلودگی کا اثر بحری حیات پر بھی پڑرہاہے اور پانی کے ذخائر میں کمی اور پانی میں آلودگی کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہورہی ہے اور دیہی علاقوں میں ندی نالوں اورجھیلوں سے مچھلیاں پکڑ کر گزار ا کرنے والی ماہی گیر روٹیوں کو محتاج ہوتے جارہے ہیں جبکہ دیہی آبادی مچھلی جیسی سستی خوراک سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔اس صور ت حال کی وجہ سے مچھلیاں پکڑ کر گزارا کرنے والے ماہی گیر دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے قریبی قصبوں اور شہروں میں سکونت تلاش کرنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔
ماحول کی آلودگی میں اضافے سے ہونے والی ان تباہ کاریوں کااولین اور بڑا شکار اس ملک کا غریب ترین طبقہ ہوتاہے جو پہلے ہی غربت کی نچلی ترین لکیر کے قریب گزر بسر کررہاہے ، اس سے غربت کی لکیر کے قریب گزر بسر کرنے والا طبقہ غربت کی نچلی ترین لکیر سے بھی نچلی سطح پرچلاگیاہے ، اس طرح غربت روکنے کے حکومت کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں اور ملک میں غربت میں کمی کے بجائے بتدریج اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔
عالمی بینک نے 2015 میں مقامی حکام کے ساتھ مل کر ایک سروے کیاتھا جس کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاگیاتھا کہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں ناکامی کے سبب آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کی وجہ سے وفاقی بجٹ کو 3-4فیصد سالانہ تک کانقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔اس سے ملک کی مجموعی ملکی پیداوار اعشاریہ8 فیصدتک متاثر ہورہی ہے اور ملکی معیشت کو سالانہ کم وبیش ایک ارب 20 کروڑ سے ایک ارب 80کروڑ روپے تک کانقصان برداشت کرناپڑرہاہے۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ پاکستان میں نچلی سطح پر لوگوں کو ماحول کی آلودگی کے نقصانات اور خود ان کی اپنی زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات سے آگاہ کیاجائے اور سرکاری سطح پر آلودگی کے خاتمے کیلئے قابل عمل حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ زیر زمین آبی وسائل کو تباہی سے بچایاجاسکے اور ملک کو قدرتی آفات کی تباہکاریوں سے بچانے کیلئے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔تاہم یہ کام اسی وقت ہوسکتاہے جب ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے موجودہ کھیل سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں عوام اور ملک کی فلاح وبہبود پر توجہ مرکوز کرنے پر تیار ہوں جس کا دور دور تک کوئی امکان اور شائبہ تک نظر نہیں آتا۔
ابن عماد بن عزیز


متعلقہ خبریں


افغان سرزمین سے دہشتگردی نہیں ہونے دیں گے(فیلڈ مارشل) وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

افغان سرزمین سے دہشت گردی ناقابل برداشت،دہشتگردوں اور سہولت کاروں کاخاتمہ کرینگے، پشاور آمد پر کور کمانڈر نے آرمی چیف کا استقبال کیا، قبائلی عمائدین کے جرگے سے ملاقات اور تبادلہ خیال کیا پاکستان، بالخصوص خیبرپختونخوا، کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے مکمل طور پر پاک کر د...

افغان سرزمین سے دہشتگردی نہیں ہونے دیں گے(فیلڈ مارشل)

افغان سرحد سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام، خارجی کمانڈر سمیت 4 دہشت گرد ہلاک وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

سکیورٹی فورسزکی باجوڑ میں کارروائی ،دہشتگرد امجد عرف مزاحم کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر تھی، ہلاک کمانڈر بھارتی حمایت یافتہ فتنۃ الخوارج کی رہبری شوریٰ کا سربراہ اور نور ولی کا نائب تھا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو انتہائی مطلوب، افغان سرزمین میں موجود فتنہ الخوارج کی قیادت ...

افغان سرحد سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام، خارجی کمانڈر سمیت 4 دہشت گرد ہلاک

علیمہ خانم کے چھٹی بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

26 نومبر احتجاج کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ آج بھی عدالت میںپیش نہ ہوئیں ضامن ملزم عارف مچلکہ پیش نہ کرسکا ،عدالت نے گاڑی کے مالک عارف کو جیل بھیج دیا راولپنڈی26 نومبر احتجاج کیس میں بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان آج بھی عدالت پیش نہ ہوئیں اوران کے چھٹی بار ناقاب...

علیمہ خانم کے چھٹی بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری

خیبر پختونخوا اسمبلی، سینیٹ کی خالی نشست پر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

خرم ذیشان کو 91، اپوزیشن کے تاج محمد کو 45 ووٹ ملے،چار ارکان نے ووٹ نہیں ڈالا 136 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا، وزیر اعلیٰ ٹریفک میں پھنس گئے،پیدل اسمبلی پہنچ گئے خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی خالی نشست پر تحریک انصاف کے رہنما خرم ذیشان سینیٹر منتخب ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق پولنگ ص...

خیبر پختونخوا اسمبلی، سینیٹ کی خالی نشست پر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب

طالبان رجیم بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،حافظ نعیم وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

کابل بھی ضمانت دے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی مینار پاکستان پر اجتماع عام ملک کی سیاست کا دھارا تبدیل کردیگا، بنو قابل تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے واضح کیا ہے کہ حکومت کی اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہم...

طالبان رجیم بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں،حافظ نعیم

پاک افغان مذاکرات، ترکیہ کی درخواست پر پاکستان کی رضامندی وجود - جمعه 31 اکتوبر 2025

پاکستانی وفد نے وطن واپسی کا فیصلہ مؤخر کردیا، اب استنبول میں مزید قیام کرے گا افغان سرزمین پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے کا مطالبہ برقرار پاکستان میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہو گیا۔ذرائع نے بتایا کہ استن...

پاک افغان مذاکرات، ترکیہ کی درخواست پر پاکستان کی رضامندی

سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کے اندر جواب دیں گے، وزیر دفاع وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

افغان طالبان کاپاکستان کو آزمانا مہنگا ثابت ہوگا،ہم دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ضرورت پڑی تو طالبان حکومت کو شکست دے کر دنیا کیلئے مثال بنا سکتے ہیں،خواجہ آصف بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات ظاہر کرتے ہیں طالبان حکومت میں انتشار اور دھوکا دہی بتدریج موجود ہے،پ...

سرحدی خلاف ورزی پر افغانستان کے اندر جواب دیں گے، وزیر دفاع

پی ٹی آئی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

عمران خان سے ملاقات کی سلمان اکرم راجا ، علی ظفر کی الگ الگ لسٹیں سامنے آگئیں دونوں لسٹوں میں ایک ایک نام کا فرق ، فہرست مرتب کی ذمہ داری علی ظفر کو دی گئی تھی پاکستان تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عمران خان سے ملاقات کی بھی الگ الگ لسٹیں سامنے آگئیں۔ ذ...

پی ٹی آئی قیادت کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے

تحریک لبیک والے ہلاک600 کارکنان کی لاشیں تو دکھادیں وجود - جمعرات 30 اکتوبر 2025

بتایا جائے ٹی ایل پی کے پاس اتنا اسلحہ کیوں تھا؟ کارکنوں کو جلادو ماردو کا حکم دینا کون سا مذہب ہے، لاہور میںعلما کرام سے خطاب سیاست یا مذہب کی آڑ میں انتہا پسندی، ہتھیار اٹھانا، املاک جلانا قبول نہیں ،میرے پاس تشدد کی تصاویرآئی ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز...

تحریک لبیک والے ہلاک600 کارکنان کی لاشیں تو دکھادیں

عدالت سے کوئی امید نہیں،عمران خان وجود - بدھ 29 اکتوبر 2025

وزیراعلیٰ کے پی اپنی مرضی سے کابینہ بنائیں اور حجم چھوٹا رکھیں، علامہ راجہ ناصر عباس اور محمود خان اچکزئی کی تقرری کا نوٹی فکیشن جاری نہ ہونے پربانی پی ٹی آئی کا تشویش کا اظہار احمد چھٹہ اور بلال اعجاز کو کس نے عہدوں سے اتارا؟ وہ میرے پرانے ساتھی ہیں، توہین عدالت فوری طور پر فا...

عدالت سے کوئی امید نہیں،عمران خان

پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعیناتی پر بات کی، وزیراطلاعات وجود - بدھ 29 اکتوبر 2025

بھارتی جریدے فرسٹ پوسٹ کا 20 ہزار پاکستانی فوجی غزہ بھیجنے کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹا نکلا،بھارتی رپورٹ میں شامل انٹیلی جنس لیکس اور دعوے من گھڑت اور گمراہ کن ہیں، عطا تارڑ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی اخبار کے جملے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیے،آئی ایس پی آر اور ...

پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعیناتی پر بات کی، وزیراطلاعات

مولانا اور بلاول بھٹو کی اہم بیٹھک، فضل الرحمان کا اپوزیشن لیڈر کی تقرری سے انکار وجود - منگل 28 اکتوبر 2025

بلاول اپوزیشن لیڈر تقرری میں فضل الرحمان کیساتھ اتحاد کے خواہاں، پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں 74 اراکین اسمبلی ، جے یو آئی کے6 جنرل نشستوں سمیت 10ممبران کے ساتھ موجودہیں پاک افغان کشیدگی دونوں ممالک کیلئے مفید نہیں،معاملات شدت کی طرف جارہے ہیں ، رویے میں نرمی لانا ہوگی، ہم بھ...

مولانا اور بلاول بھٹو کی اہم بیٹھک، فضل الرحمان کا اپوزیشن لیڈر کی تقرری سے انکار

مضامین
بی ایل اے کی دہشت گردی وجود جمعه 31 اکتوبر 2025
بی ایل اے کی دہشت گردی

پولیس رویہ۔۔ حسنین اخلاق بھی عدیل اکبر کی راہ پر؟ وجود جمعه 31 اکتوبر 2025
پولیس رویہ۔۔ حسنین اخلاق بھی عدیل اکبر کی راہ پر؟

مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق

سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
سیاست نہیں، ریاست بچاؤ قومی بقا کا پیغام

پاک افغان مذاکرات وجود جمعرات 30 اکتوبر 2025
پاک افغان مذاکرات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر