وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ میں اختیارات کی جنگ

پیر 08 مئی 2017 سندھ میں اختیارات کی جنگ


سندھ میں اختیارات کی جنگ اپنے شباب پر ہے۔ قومی سطح پر لڑی جانے والی ”پاناما جنگ“ سے ہٹ کر صوبہ سندھ میں لڑی جانے والی اختیارات کی جنگ گرچہ صوبائی نوعیت کی ہے، لیکن اس کی بازگشت اور اثرات وفاق تک پہنچے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراءاکثر وفاق سے شاکی رہتے ہیں۔ کبھی آئی جی سندھ کی تقرری اور کبھی صوبے میں وفاق کی مداخلت کے حوالے سے کے گرما گرم بیانات پانی میں آگ لگا دیتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں عدالت کی مداخلت اور حکم پر بلدیاتی انتخابات تو کرا دیے گئے تھے لیکن صوبائی حکومتیں بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر پہلے تو جیل میں تھے‘ لیکن رہائی کے بعد بھی صوبائی حکومت انہیں پانی‘ لوکل ٹیکس‘ ٹرانسپورٹ اور سڑکیں گلیاں بنانے کا اختیار دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اختیارات حاصل کرنے کے لیے اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ صوبائی حکومت اور میئر کراچی کے درمیان جاری کشمکش ابھی فیصلہ کن مرحلے میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان بھی چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ سندھ کے عوام تبدیلی کی تمنا دل میں لیے سیاستدانوں کی کایا پلٹ دیکھ رہے ہیں۔ صوبے میں گزشتہ 9سال سے تو پیپلز پارٹی کا راج ہے، جس کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری 2018ءکے انتخابات کی تیاری میں مشغول ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے بقول میاں نواز شریف نے بھی انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ باپ اور بیٹا پنجاب کا پھیرا لگا کر واپس سندھ آگئے۔ وہاں کچھ زیادہ دال نہیں گل سکی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے سماجی‘ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی لیے گورنر سندھ محمد زبیر نے صوبے کے عوام سے کہا ہے کہ وہ 2018ءکے عام انتخابات میں لاہور کو بنانے والوں کو ووٹ دیں۔ ان کا اشارہ یقینی طور پر مسلم لیگ ن کی طرف تھا جس نے انہیں وفاق کا نمائندہ بناکر گورنر سندھ تعینات کیا ہے۔ ان کی پسندیدہ ترین شخصیت وزیر اعظم نواز شریف اور عزیز ترین پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔ وہ میاں نواز شریف کی تعریف و توصیف میں اس قدر رطب اللسان ہیں کہ پاکستانی قوم اور ریاست کو دہشت گردی ‘ بھتہ خوری اور جرائم سے پاک کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے والے جرنیل سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ انہیں عام ساجنرل کہہ کر ان کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کی اور بالخصوص کراچی کے امن کا سہرا تو وزیر اعظم نواز شریف کے سر باندھ ہی دیا ،جنہیں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے سیکورٹی رسک قرار دیا ہے۔ سب مکافاتِ عمل ہے ۔ میاں نواز شریف نے کسی دور میں بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہا تھا۔ ان کا کہا ہوا اب ان کے آگے آرہا ہے۔ ایک سیکورٹی رسک جنرل راحیل شریف سے کیونکر بلند و بالا ہوسکتا ہے۔ عجب سیاست ہے۔ پاکستان کے دشمن بھارت سے دو جنگوں میں اگلے محاذ پر بہادری اور بے جگری سے لڑنے والے پاک فوج کے سابق سربراہ اور صدر مملکت جرنل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ چل رہا ہے انہیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے اور ملک سے کھربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والے عیش و آرام سے سیاست کررہے ہیں۔ پاکستانیوں کا بال بال قرضوں میں جکڑنے والے نیا جال بچھا رہے ہیں اور 2018ءکے انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔
سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ سال 700ارب روپے ملے تھے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے مختلف منصوبوں کے لیے 2016ءمیں 500ملین ڈالر دیے جنہیں سندھ کے 8اضلاع میں خرچ ہونا تھا۔ اسپیشل ٹاسک فورس کے مطابق آبپاشی کے 90منصوبوں کے لیے 123ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ نہروں کا پانی پینے کے قابل بنانے اور آر او پلانٹ لگانے کے لیے بالترتیب 23ارب اور 28ارب روپے مختص کیے گئے تھے لیکن ٹاسک فورس نے سپریم کورٹ کے حکم پر جب ان منصوبوں کا جائزہ لیا تو ان میں سے اکثر پر کام ہی شروع نہیں ہوا تھا۔ سندھ میں سرکاری فنڈز کی بڑے پیمانے پر خورد برد کے سبب ہی غالباً گورنر سندھ محمد زبیر کو لاہور یاد آگیا اور وہ فرطِ جذبات میں کہہ بیٹھے کہ 2018ءکے انتخابات میں ان لوگوں کو ووٹ دیا جائے جنہوں نے لاہور کو بنایا ہے۔ یہ کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ گورنر سندھ محمد زبیر کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے اور انہیں ووٹ نہیں مانگنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ آئینی حدود سے نکل جاتے ہیں اور لوگ گورنر سندھ کے کہنے پر ووٹ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے صوبہ میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کے خدشات کو نظر انداز کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے ایل این جی کے معاملے پر نئی حکمت عملی مرتب کرلی ہے اور سندھ حکومت نے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبہ میں جاری ترقیاتی منصوبے جون تک مکمل ہوجائیں گے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گورنر کو اپنی آئینی حدود میں رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اپنی حکومت کا دفاع کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بد انتظامی‘ رشوت اور کرپشن کے سبب سارا نظام درہم برہم ہے۔ گورنر محمد زبیر کہتے ہیں کہ 1970ءکی دہائی میں لوگ بیرون ملک سے کراچی گھومنے آیا کرتے تھے لیکن آج اپنے ہی ملک کے لوگ یہاں آنا پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں سندھ حکومت پر یہ واضح کردیا ہے کہ جب تک کراچی کی بزنس کمیونٹی اور وفاق چاہیں گے یہاں رینجرز رہے گی جس نے کراچی میں امن قائم کیا ہے۔ سندھ میں اختیارات کی جنگ کے تین فریق گورنر‘ وزیر اعلیٰ اور میئر وسیم اختر کراچی کی بساط پر اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ وسیم اختر کا تعلق ڈاکٹر فاروق ستار کی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے ہے، اسی جماعت کے پاس کراچی اور حیدرآباد کی پارلیمانی طاقت ہے۔ اس جماعت سے الگ ہونے والے آفاق احمد‘ سید مصطفیٰ کمال اور انیس احمد قائمخانی اپنی اپنی جماعتوں کی عوامی مقبولیت بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ان سب پارٹیوں کا نصب العین 2018ءکے عام انتخابات میں مینڈیٹ کا حصول ہے‘ پاک سر زمین پارٹی کے چیئر مین سید مصطفیٰ کمال نے کراچی ایڈیٹرز کلب کے پروگرام ”میٹ دی ایڈیٹرز“ سے خطاب کے دوران یہ اعلان کیا کہ سندھ میں ان کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد وہ پہلا حکم یہ جاری کرائیں گے کہ تمام اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں عوامی مسائل بلدیاتی ادارے ہی حل کرتے ہیں بشرطیکہ انہیں مکمل طور پر با اختیار بنایا جائے۔ سید مصطفیٰ کمال سابق صدر مملکت پرویز مشرف کے دور میں کراچی کے میئر رہے ہیں۔ انہوں نے کراچی‘ حیدرآباد میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ 355پبلک پارک قبضہ گیروں سے آزاد کروا کے ان کی حالت بہتر بنائی۔ فلائی اوور اور انڈر پاسز تعمیر کرائے۔ ان کے تعمیراتی کاموں کی بدولت آج بھی کراچی کے شہری انہیں یاد کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان بھی ملک کا اقتدار سنبھالنے سے پہلے استنبول کے میئر تھے۔ انہوں نے بھی ریکارڈ تعمیراتی کام کرائے اور کئی بار میئر منتخب ہوئے۔ پی ایس پی کے چیئرمین کو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا کے نام کی نسبت بھی حاصل ہے۔ کیا خبر کہ کرپٹ‘ بدعنوان‘ ظالم اور بے حس حکمرانوں سے تنگ قوم اپنا نیا لیڈر مصطفیٰ کمال کو ہی منتخب کرکے نئی تاریخ رقم کردے اور اختیارات کی جنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔


متعلقہ خبریں


پنجاب کی ترقی اور سندھ مختار عاقل - پیر 05 دسمبر 2016

پنجاب کی ترقی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والے سندھ کی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ اس صوبے میں ایسی ترقی کیوں نہیں ہوسکی۔ اس سوال کا جواب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے دے دیا ہے۔ 2015-16 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے اثاثوں میں 35 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ تنخواہوں‘ پنشن‘ قرض...

پنجاب کی ترقی اور سندھ

سندھ کے ’’مہاجروں‘‘ کا مستقبل مختار عاقل - پیر 24 اکتوبر 2016

فلک کج رفتار نے کب یہ منظر دیکھا تھا کہ کراچی پر 32 سال تک راج کرنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یوں بکھر جائے گی۔ آہنی نظم و ضبط کی نسبت سے مشہور پارٹی کے سرکردہ رہنما آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے‘ ٹانگیں کھینچیں گے‘ ایک دوسرے کے ’’کارنامے‘‘ بیان کریں گے۔ ایم کیو ا...

سندھ کے ’’مہاجروں‘‘ کا مستقبل

مصطفی کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد کے ایک دوسرے پر حملے  نجم انوار - منگل 18 اکتوبر 2016

مصطفی کمال نے عشرت العباد کو رشوت العباد اور ڈاکٹر عشرت العباد نے مصطفی کمال کو بائی پولر کا مریض قرار دے دیا [caption id="attachment_41526" align="aligncenter" width="267"] عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کی ایک تصویر ۔ ۔ جب دونوں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے[/caption] پاک سرز...

مصطفی کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد کے ایک دوسرے پر حملے 

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر