وجود

... loading ...

وجود
وجود

آزادی؟

جمعه 05 مئی 2017 آزادی؟


دنیا بھر میں ۳ مئی کو آزادیٔ صحافت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اب یہ مغالطہ حقیقت کے ہم پلہ ہو چکا ہے کہ آزادی کی محافظ قدر دراصل آزادیٔ صحافت میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔ چنانچہ آزادیٔ صحافت کے تصور کے تحت فرد کی نجی آزادی کو کچلنے پر کسی کو حیرت تک نہیں ہوتی۔ مگر یہ تو ایک معمولی مغالطہ ہے۔ آزادی کا پورا تصور ہی مغالطے کی پیداوار ہے چہ جائیکہ آزادیٔ صحافت کی بات کی جائے۔ آزادی سے آج مراد دراصل یہ ہے کہ مغربی تصورِآزادی کے تحت آزادی، انسان کی ایک بنیادی قدر ہے۔ اس تصور میں انسان کو یہ تک آزادی نہیں کہ وہ مغربی تصور سے نجات پاکر آزادی کے مفہوم پر غور تک کرسکے۔ جمہوریت بھی اسی مغالطے کی پرورش کرتی ہے۔ مثلاً جمہوریت میں آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کے تحت آزادی ۔ اس آزادی کو جمہوریت کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی اس تصورِ آزادی میں جمہوریت کے خلاف سوچنے کی بھی آزادی نہیں۔ ورنہ آپ جہل مرکب کی عجیب وغریب تصویر بن جائیں گے۔
مغربی تصورات کے تحت رائج قومی ریاستوں میں اگر چہ مغربی تصورِآزادی کا رچاؤ بہت زیادہ ہے، مگر درحقیقت یہ تصور بھی عملی مشق میں کافی ادھورا رہتا ہے۔اگر انفرادی آزادی ریاست کی منشاء سے ٹکرا رہی ہو تو پھر اس آزادی کا قومی ریاستوں کے موجودہ ڈھانچے میں بھی کوئی احترام نہیں رہتا۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ بھی یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے۔وہ آزادیٔ اظہار کی جس مقدس گائے کو مستقل پالے رکھتا ہے وہ عملی طور پر قومی مفاد کے ساتھ متصادم حالت میں ہمیشہ مذبح خانے میں رہتی ہے۔جدید قومی ریاستوں نے اس گائے کی تکریم کو برقرار رکھتے ہوئے اِسے بہت ہی زبردست طریقے سے سِدھائے رکھا ہے۔ جدید قومی ریاستوں میں ادارے اظہار رائے کی آزادی کو سرمائے کے منتر سے اپنی تحویل میں رکھتے ہیں۔ اور ایک خوبصورت اور طلسماتی مکر میں اِس پورے عمل کو اس طرح جاری رکھتے ہیں کہ یہ آزادیٔ اظہار کے زرق برق ورق میں ہی لپٹا دکھائی دے۔ دراصل سرمایہ اور آزادی میں ایک قدرِ مشترک بھی ہے۔ جس طرح سرمائے کا کوئی ساحل نہیں، اسی طرح آزادی بھی بے کنار ہے۔ سرمایہ اور آزادی کوئی حد قبول نہیں کرتے۔ آزادی کا سرمائے سے مماثل یہی تصور دراصل ذرائع ابلاغ کا ایک عقیدہ ہے۔حالانکہ ذرائع ابلاغ کوئی تحصیل علم کا ذریعہ نہیں یہ بس ایک ترسیل کا نظام ہے۔ جس کی ساری سرگرمیاں سرمائے کے مدار پر جاری رہتی ہیں۔ پھر بھی اس عمل کو ایک تکریم کی حالت میں رکھا جاتا ہے اور اِسے کسی بھی چیلنج سے مبرا باور کرایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اس سے معاشرے کی کوئی اخلاقی یا بنیادی اقدار کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔ بلکہ یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اگر سرمائے کے اس کھیل میں معاشرے کی اخلاقی یا بنیادی اقدار بھی مزاحم ہو تو ذرائع ابلاغ کو اس کے خلاف بروئے کار رکھنے میں کوئی مشکل درپیش نہ رہے۔ ذرائع ابلاغ کی تاریخ اور اس کے کردار کو ذرا سا ٹٹولنے پر ہی اندازا ہوجاتا ہے کہ اس نے سرمائے کے تحفظ کے لیے معاشرتی اقدار کو داؤ پر لگانے میں تامل نہیں کیا ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لیے سرمائے کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوجائے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کوئی انفرادی جتن کرے بھی تو اُس کا شمار مقتولین میں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ دراصل منڈی کی ہی ایک جنس ہے۔ اور اِسے منڈی کے ہی اصول پر چلنا ہے۔ مگر منڈی نے اس کے لیے آزادی اظہار کے نام پر تکریم کا ایک زاویہ اس لیے بُن رکھا ہے کہ وہ منڈی کی راہ میں کسی مذہبی یا اخلاقی اقدار کوبھی آڑے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اظہار کی آزادی کو ایک مکمل ،محیط ناقابل تغیر اورناقابلِ تقسیم قدر باور کرادیا جائے۔ جبکہ مذہب میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مذہب میں آزادی مکمل یا محیط تصور نہیں بلکہ خیر ایک مکمل ، محیط ، ناقابل تغیر اور ناقابل تقسیم قدر ہے۔ یہاں آزادی، خیر کی قیمت پر بروئے کار نہیں لاجاسکتی۔ ذرائع ابلاغ جس آزادی کا تقاضا کرتے ہیں وہ خیر کے خلاف بھی بروئے کار آنے کی آزادی ہے۔ یہ آزادیٔ اظہار کا منفی تصور ہے اور یہی تصور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کا حقیقی تصور ہے۔
درحقیقت 3؍ مئی کے آزادیٔ اظہار کے اس عالمی دن کے موقع پر سنجیدگی سے یہ امر زیرِ غور لانے کی ضرورت تھی اورہے کہ کیا آزادی کا مجرد تصور کوئی مطلق خیر ہے۔ کیونکہ مغربی تصورِ آزادی (جو جمہوریت کی تحویل اور زیادہ گہرائی میں دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ماتحتی میں رہنے والا آزادی کا تصور ہے) دراصل ایک مطلق خیر کا آئینہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف بغاوت آزادی نہیں بلکہ جرم ہے۔زیادہ وضاحت کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو دراصل سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی زمین میں جڑیں رکھنے والا آزادی کا یہ تصور اس قدر گہنایا ہوا ہے کہ اس میں کوئی فرد یہ سوچنے کے بھی قابل نہیں رہ گیا کہ اُس کی نجی زندگی ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی مکمل تحویل میں چلی گئی ہے جس نے عملاً اُس کے تمام معمولات کو ہپناٹائز کردیا ہے۔ اس طرح نجی زندگی کے مکمل خاتمے اور ایک مکمل سحر زدہ حیات کے بارے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ دراصل یہ ایک آزاد زندگی ہے۔ اس کے خلاف سوچنا آزادی نہیں بلکہ بغاوت ہے۔اس تصور آزادی سے نکلا ہوا آزادیٔ اظہار کا تصور کتنا آلودہ اور بے ہودہ ہو سکتا ہے۔ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
پاکستان میں اِن دنوں ڈان لیکس کے حوالے سے جس آزادیٔ اظہار کے تصور کی حفاظت کا عَلم اُٹھا یا گیا ہے۔ اُس میں بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے ہی نہیں کہ کیا یہ خبر چھپ سکتی تھی یا نہیں؟ اس خبر کا قومی مفاد سے کوئی ٹکراؤ تھا یا نہیں؟ یہاں تک کہ کیا یہ خبر درست بھی تھی یا نہیں؟ مغربی تصورِ آزادی میں یہ پہلو کوئی بھی پڑتال نہیں کرسکتا۔چنانچہ ذرائع ابلاغ اس پہلو سے آنے والے چیلنج کا مقابلہ اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کے طور پر کریں گے۔ یہ بات کتنی درست ہے اور کتنی غلط؟ اس کا تعین آپ خود کرلیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر