وجود

... loading ...

وجود
وجود

ترقی سے توبہ کریں

هفته 25 مارچ 2017 ترقی سے توبہ کریں

آج دنیا میں خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ہر فرد آزاد اور اکیلا ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں امریکا میں ایک نئی ایجاد سامنے آئی ہے جس کے نتیجے میں بوڑھے افراد کو گرنے سے بچانے کے لیے مدد ملے گی۔ سائنس دانوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد ایک سسٹم تیار کرلیا ہے۔ یہ سسٹم متعدد دیوار گیر حرکی سنسرز پر مشتمل ہے۔ جو گھر کے اندر معمر افراد کے چلنے کی رفتار اور قدموں کی لمبائی ناپتے ہیں ۔ اس تحقیق کی سربراہ میزوری یونیورسٹی کی پروفیسرمارجوری اسکوبک نے بتایاکہ اسے اس وقت یہ ایجاد کرنے کاخیال آیا جب ان کی ساس بسترسے گرگئیں اورکندھے پر چوٹ آئی ۔پروفیسرمارجوری ا سکوبک نے حال ہی میں امریکا میں جنوبی ڈکوٹامیں والدہ کی 93 ویں سالگرہ کے موقع پراپنے والدین کے گھر میں بھی یہ سسٹم لگایاہے تاکہ انہیں گرنے سے بچایا جاسکے ۔ پروفیسرمارجوری کاکہنا ہے کہ یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ بڑھاپے میں محتاج ہوناہی ہوتاہے۔ مگر وہ محتاج ہونے کوبراسمجھتی ہیں ۔اس ایجادکے بعدلوگوں کومرنے تک مکمل آزاداورخودمختاررکھنے میں مددملے گی ۔پروفیسرمارجوری مزیدکہتی ہیں کہ میری دعاہے کہ میرے والدین کوسوتے میں ، اپنے بسترپر، اپنے گھرمیں موت آئے ۔اگران کا انتقال ان کے اپنے گھرمیں ہو،جہاں وہ تمام عرصہ مکمل طورپرخودمختارہوں تویہ مکمل فتح ہے ۔اسی طرح ترقی یافتہ دنیاکے صف اول کے ممالک میں آج بوڑھوں کاایک بہت بڑامسئلہ ڈیمنشیاہے۔ اس بیماری میں لوگ اپناذہنی توازن کھوبیٹھتے ہیں اور وہ اپناماضی بھول جاتے ہیں ۔اس حوالے سے بھی جدیددنیاکے سائنس دان بہت محنت کررہے ہیں ۔ امریکی شہربوسٹن میں 2200بوڑھوں کوہائی ٹیکنالوجی رسٹ بینڈ(کلائی میں پہننے والے تسمے)دیے گئے ہیں جوسونے سے لے کر توازن، گرنے کے خطرے اوردل کی دھڑکن تک
ہر چیزکی پیمائش کرتے ہیں ۔امریکی سائنس دان بوڑھے لوگوں کے بہت سے مسائل کاحل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اوراس حوالے سے مسلسل کام کیاجارہاہے جن کے نتائج اگلے سالوں میں سامنے آنے کے امکانات ہیں ۔ جدید دنیا میں بوڑھے افرادکے گرنے سے سب سے زیادہ نقصان ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کی صورت میں سامنے آتاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 2016ء میں ہرتین میں سے ایک بوڑھاضرورگرا۔برطانوی محکمہ صحت ان کے علاج معالجے پرسالانہ 2.3ارب پائونڈ کے اخراجات برداشت کرتاہے۔یہ چندباتیں اپنے اندر بے شمار سوالات چھپائے ہوئے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جدیددنیامیں بوڑھے اتنے تنہاء اوراکیلے کیوں ہوگئے ہیں ؟یہ بوڑھے جب دولوگوں کے تعاون سے پیداہوئے تھے توپھریہ آج اس قدرتنہا کیوں ہیں ؟ان کے جومسائل ہمارے سامنے آرہے ہیں یہ مسائل ترقی یافتہ ممالک کے بوڑھوں کے ہیں جبکہ ترقی پزیراورغریب ممالک کے بوڑھے آج بھی ان کے مقابلے میں محفوظ اورخوش کیسے ہیں ؟پہلی ایجاد میں ہرگھرمیں سنسرزلگائے جارہے ہیں جوکہ بوڑھوں کے گرنے سے قبل آگاہی فراہم کرسکیں گے ۔سوال یہ ہے کہ اس بوڑھے کواس قدرتنہائی کیوں ملی ہے ؟اس کا بیٹا، اس کی بہو،اس کی بیٹی ،اس کے داماد،اس کے بھانجے،بھتیجے ،اس کے پوتے، پوتیاں اور نواسے، نواسیاں وہ سب بدمعاش کہاں ہیں ؟ آخر ایسا ظلم کیوں ہواکہ اس بوڑھے کوسنبھالنے والااس بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں رہا؟ اور جب سنبھالنے والا کوئی نہیں رہا،تب ریاست بیچ میں آگئی کہ ہم اس بوڑھے کوسنبھالیں گے ؟یہ جدیدریاست کیاسچ میں اتنی رحم دِل ہے یااس کی اس مہربانی کے پیچھے کوئی اورمقاصد چھپے ہیں ؟یہ سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔جب جدیددنیامیں ہرانسان ہروقت اپنامعیارزندگی بلندکرنے کی فکرمیں غرق رہتاہے تواس سے تمام رشتے ناتے اوراپنے چھوٹ جاتے ہیں ، حتیٰ کہ اس سے اس کی اولاد بھی چھوٹ جاتی ہے ۔جدیدریاست ہرفردکوآزادکرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست باپ اورماں کی حکمرانی گھرمیں نہیں چلنے دیتی۔ اگرآپ اپنے بچوں پرسختی کریں تو ریاست اس بچے کوآپ سے آزاد کرکے اکیلا کردیتی ہے ۔جس کے نتیجے میں مارکیٹ کوایک اور گاہک مل جاتاہے ۔ آج کاایک نوجوان جس کو ریاست نے والدین کی حکمرانی سے آزادی دلوائی ہے۔ وہ کل بڑھاپے میں کہاں جائے گا؟ ظاہر ہے وہ اولڈہوم جائے گا۔ایسے میں اتنے بوڑھے اکیلے رہناشروع ہوگئے کہ وہ گر گر کر، ٹکرا ٹکرا کر مرنے لگے، تب ریاست کے سامنے ایک نیا مسئلہ آیاکہ اب ان بوڑھوں کا کیا کریں ۔ اگر یہ ایسے ہی مرتے رہے تولوگ خاندان جیسے مضبوط ادارے کو پھر سے اپنانا شروع کرسکتے ہیں ۔ لہٰذا فوراً ریاست نے ان آزاد اور تنہا مرتے بوڑھوں کو سہولت دینے کافیصلہ کیااوران کے لیے ایجاداد ہونے لگی ہیں اور ابھی بھی تحقیقات ہورہی ہیں ۔ ابھی ان مسائل کاکوئی حل نہیں نکلاہے ۔جب تک حل نکلے گاتب تک جوبوڑھے مارے جاچکے ہونگے وہ تجربے کی نظر ہوچکے ہوں گے۔ یہ سب معیار زندگی بلندکرنے کالازمی نتیجہ ہے۔ جدید ریاست کے سوچنے کاعمل انتہائی پیچیدہ ہوتاہے۔ ریاست کے نزدیک سب سے زیادہ عزت کے قابل چیزہوتی ہے پیسہ کمانااوراس پیسے سے مزید پیسہ کمانا۔لہٰذاجب ایک مسئلہ سامنے آتاہے تو ریاست وہی حل قبول کرتی ہے جس سے پیسے کے پیدا ہونے اوربڑھنے کے عمل کوکوئی نقصان نہ پہنچے۔ بوڑھے گرکرمررہے ہیں ، اس کاآسان حل یہ ہے کہ جدیددنیاخاندان کے ادارے کومضبوط کرے، اب اس کے لیے تو ہروقت ترقی کرنے کے عمل کوروکناہوگا۔جب پوتے پوتی کے لیے دادا سے زیادہ ضروری مستقبل ہوگا،تب دادااکیلے ہی مرے گا۔اوریہ تمام صورتحال ترقی کی K-2 پر چڑھی ریاستوں کی ہے ۔غریب ممالک آج بھی ان مسائل سے محفوظ ہیں ِ،مگرکب تک ؟ترقی تو ہر ریاست کاخواب ہے ۔زندگی میں خوب مزے کرنا اور لامحدود مزے کرنا،جب ہرریاست کاخواب ہوگا تو کل یہ مسائل پاکستان میں بھی پیش آئیں گے۔ ذرا وقت نکال کرکسی ہسپتال جائیں اور دیکھیں کہ لوگ کیسے ڈاکٹروں کی منتیں کرتے ہیں جب ڈاکٹرکسی بوڑھے کے بارے میں یہ اطلاع دیتے ہیں کہ اب ان کوگھرلے جائیں ،ان کا بچنا ممکن نہیں ہے ۔تب لوگ سفارشیں کرواتے ہیں کہ ڈاکٹران کے بوڑھے مریض کوچھٹی نہ دیں کیونکہ اس بوڑھے کوگھرمیں سنبھالنے والاکوئی نہیں ہوتا۔سب اپنی اپنی مصروفیات اوردنیاحاصل کرنے کے پیچھے پاگل ہورہے ہیں ۔اس لیے کسی بوڑھے کی خدمت کرناایک غیراہم اوربے کار کام ہوتا ہے ۔ مارجوری نے اپنے والدین کی 93ویں سالگرہ پر ان کے گھرمیں سینسرلگادیے مگراس نے یہ گوارانہیں کیاکہ وہ ان کے پاس رک جائے۔ اسے اپنی ساس کے گرنے پرایجادکاخیال آیا،یہ خیال کیوں نہیں آیاکہ وہ گھرمیں رک کراپنی بوڑھی ماں جیسی ساس کاخیال رکھے ۔مارجوری جس تعلیم اور علمیت کے سائے میں جوان ہوئی ہے، وہاں مسائل کاایساہی حل نکالاجاتاہے ۔جدیدذریعۂ تعلیم اورتعلیم کانصاب آپ کے خیراورشرکے پیمانے بدل دیتاہے ۔ایسے ہی نہیں امریکا دنیاکے ہر ملک میں اسکول کھلواتا۔آج ایک ترقی یافتہ ملک کی عورت بھی اصل دنیاکامزہ اس بات میں تلاش کرتی ہے کہ وہ اپنے بسترپراپنوں کے ہاتھوں میں اپنے گھر میں مرے۔ یہ نعمت توترقی پزیراورغریب ملکوں میں رہنے والے ہربوڑھے کوملی ہوئی ہے۔
اوردرحقیقت یہ ایک نعمت ہے کہ آپ اپنوں کے ہاتھوں میں اپنے گھرمیں مریں ۔لیکن اگرآپ امریکا، برطانیہ جیسی ترقی کاخواب دیکھتے ہیں تو پھر آپ کے ساتھ بھی وہ سب کچھ ہوگاجوکہ امریکا، برطانیہ کے بوڑھوں کے ساتھ ہوتاہے۔ اگرآپ ان کی طرح مرنا نہیں چاہتے تو ترقی سے توبہ کرلیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر