وجود

... loading ...

وجود
وجود

عظیم امریکی عورت کی بچوں کے لیے قربانی

هفته 11 فروری 2017 عظیم امریکی عورت کی بچوں کے لیے قربانی

یہ کہانی ایک امریکی عورت کی ہے۔ اس عورت کااسی سال 17جنوری کوانتقال ہوگیا ہے۔ امریکا میں نوکری کرنے والی خواتین کے لیے یہ عورت ایک مثالی تھی۔یہ ایک اچھی، بہادر اور اپنے خاندان کے لیے قربانی دینے والی عظیم عورت کی کہانی ہے ۔اس خاتون کانام Brenda تھا۔یہ پورے نارتھ امریکا کی Pepsi کی چیف ایگزیکٹیوتھی اوروہ,ڈیڑھ سال تک اس عہدے پرکام کرتی رہی جس روز Brenda نے نوکری سے استعفیٰ دیااس روزبھی وہ اس اونچے عہدے پرکام کررہی تھی۔ Brenda امریکا میں نجی شعبے میں جس مقام تک پہنچی تھی اس مقام تک پہنچے کے لیے خواتین خواب دیکھتی ہیں ۔خودBrendaکویہاں تک آنے میں کئی سال لگے تھے۔اس نے بہت محنت اورلگن سے Pepsiکی کمپنی میں یہ مقام حاصل کیا تھا۔ لوگ اس کی مثالیں دیتے تھے اوراس کوہربڑی کمپنی اپنے ہاں لانے کے لیے کوشش کرتی تھی۔ اس خاتون کانام ہی کمپنی کے سرمائے کوبڑھانے کی ضمانت تھا۔مگران تمام باتوں کے باوجوداس عظیم عورت نے 43سال کی عمرمیں اپنے تین بچوں ، جن کی عمریں 8-7اور10سال تھیں ،ان کے لیے نوکری چھوڑنے کافیصلہ کیا۔ Brenda کے استعفیٰ کی خبرامریکا میں جنگل میں آگ کی مانند پھیل گئی ۔لوگ طرح طرح کے تبصرے کرنے لگے۔کوئی تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ ایک عورت اتنے اونچے عہدے پرآنے کے بعدنوکری چھوڑ سکتی ہے ۔لیکن Brendaکے استعفیٰ کی خبرسے بڑی خبراس کے استعفیٰ کی وجہ تھی۔اوراس وجہ نے امریکا میں ایک نئی بحث چھیڑدی۔امریکا میں یہ بحث چل نکلی کہ نوکری کرنے والی عورتوں کے خاندانی مسائل کاحل کیاہے؟اورکیانوکری کرنے والی عورتیں خاندان کوٹائم دے سکتی ہیں ؟لیکن جلد امریکا نے اس بحث کو دبا دیا۔ Brenda کا کہنا تھا کہ میں صبح شام Pepsiبیچنے کے نئے نئے طریقے تلاش کرتی رہتی ہوں جس کی وجہ سے میں اپنے بچوں کووقت نہیں دے پاتی ۔لہٰذامیں اب اپنے بچوں کووقت دیناچاہتی ہوں اوریہ نوکری کرتے ہوئے ممکن نہیں ہوسکتا۔اس لیے میں اس نوکری سے استعفیٰ دیتی ہوں ۔امریکا میں Brenda نے ایک بہت بڑے مسئلے پر اپنا کردار اداکیا۔اس عورت نے امریکیوں کواس بات پر سوچنے کے لیے مجبورکیاکہ کیاعورت نوکری اور خاندان ایک ساتھ چلاسکتی ہے ؟ اور آخرکار Brenda نے اپنافیصلہ خاندان کے حق میں دیا۔ اور نوکری چھوڑدی۔ہمارے ملک میں جب کسی عورت کویامردکوسمجھایاجائے کہ عورت کے نوکری کرنے سے کیامسائل جنم لیتے ہیں ؟تووہ ان تمام مسائل کاحل پیسوں سے بتاتے ہیں ۔لیکن یہ نہیں سوچتے کہ پیسوں کے حصول کے لیے عورت کوکیاکچھ قربان کرناپڑتاہے؟Brendaکے پاس دولت تھی۔اگروہ چاہتی تواپنے بچوں کے لیے کئی ماسیاں رکھ سکتی تھی۔وہ چاہتی تواپنے بچوں کوڈے کیئرسینٹرمیں داخلہ دلواسکتی تھی۔اپنے بچوں کوجہاں چاہتی ٹیوشن دلواسکتی تھی۔ وہ بچوں کومہنگے کھلونے دلواسکتی تھی۔ وہ بچوں کو دنیا میں کسی بھی جگہ سیروسیاحت کے لیے بھیج سکتی تھی۔ مگر Brendaجوایک کافرعورت تھی ،وہ یہ بات جانتی تھی کہ ماں کاپیاراورتوجہ کامتبادل’’ سہولتیں ‘‘ نہیں ہوسکتیں ۔ اس لیے اس خاتون نے اپنی لاکھوں روپے کی نوکری اپنے خاندان کے لیے قربان کردی۔جوبات ایک کافرعورت جان گئی وہ بات آج تک ہمارے ملک کے مولوی صاحبان کو سمجھ نہیں آئی ۔مولوی صاحبان ایک بھی فتوی نہیں دے رہے کہ عورت کانوکری کرنااسلام میں جائز نہیں ہے؟ان مولاناصاحبان کویہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ جب عورت نوکری کرتی ہے تواس کے ہاتھ سے کیا کیا چلا جاتا ہے؟ پیپسی کی چیف ایگزیکٹونے اتنی زبردست نوکری چھوڑدی کہ وہ اپنے تین بچوں کو دن رات میں وقت نہیں دے سکتی اوراس نے اپنے کیرئیر پر خاندان کوترجیح دی، اس نے اپناآج اپنے کل کے لیے قربان کردیا، مگر ماڈرن مولوی عورت کو نوکری اور خاندان ساتھ ساتھ چلانے کی دعوت دے رہے ہیں ۔دو تصوراتِ خیرایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ عورت نوکری کرکے جوپیسے گھرلاتی ہے ان تمام پیسوں سے وہ بازارسے وہ مصنوعات خرید تی ہے جواگرعورت گھررہے تواسے خریدنی نہ پڑے۔ آج ہرنوکری پیشہ عورت کے گھرمائیکرویواوون ہے۔ اس اوون کوعورت اس لیے خریدکرلائی تھی کہ اس میں ڈبل روٹی، کیک اوربسکٹ بن سکتے ہیں ۔ لہٰذا جب اوون گھرآجائے گاتوپھران تمام چیزوں کو گھر میں صاف ستھرے ماحول میں بنالیا جائے گا؟ مگرآپ ایمان سے بتائیں ،جن گھروں میں اوون ہے وہاں کیا کیک، ڈبل روٹی اور بسکٹ بنتے ہیں ؟اورگھرمیں ان چیزوں کے نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ ان گھروں میں عورتیں ہوتی ہی نہیں ہیں ۔ وہ سارادن خریداری کرتی ہیں یانوکری کرتی ہیں ۔ اس لیے ہزاروں روپے مالیت کا اوون صرف سالن گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ میں آپ قارئین کودعوت دیتاہوں کہ کسی روز اپنے محلے کی بیکری پر دور کھڑے ہوکرلوگوں کارش دیکھیں ۔انڈے،ڈبل روٹی، جام اورخداجانے کیا، اوٹ پٹانگ چیزیں لوگ خریدتے ہیں ۔جس گھرمیں صبح ڈبل روٹی، پاپے سے ناشتہ ہوتا ہے، اس گھر میں ماں پراٹھہ نہیں بناتی ۔اس کی کیاوجہ ہے؟کبھی غور کیا آپ نے ؟یہ ڈبل روٹی، پاپے کھا کر جوان ہونے والی نسل کابڑھاپے میں کیا حشر ہوگا؟ اس کاکسی کواحساس ہے ؟ہمارے استاد صاحب نے ایک مرتبہ ہم سے عجیب سوال پوچھا، انہوں نے کہا کہ آج کراچی یونیورسٹی میں پردہ زیادہ عام ہے یا1980میں زیادہ تھا۔ہم نے کہا آج لڑکیاں زیادہ پردہ کرتی ہیں ۔استادصاحب نے فرمایا پھر آج کی لڑکیاں کراچی یونیورسٹی کے مرکزی دروازوں پرہرکسی کی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے اشارے کیوں کرتی ہیں ؟ہم نے کچھ دیر سوچا پھر کوئی جواب نہ بنا۔استادصاحب نے فرمایا کہ 1980ء میں جولڑکیاں اورلڑکے یونیورسٹی آتے تھے وہ صبح گھرسے ناشتہ کرکے آتے تھے۔ وہ پراٹھے کھاتے تھے ۔مگرآج جونسل یونیورسٹی آرہی ہے وہ صبح بھوکی آتی ہے یاڈبل روٹی کھاتی ہے۔ لہٰذا یہ لڑکیاں اورلڑکے یونیورسٹی کے دروازوں پر سفر کے لیے بھیک مانگتے رہتے ہیں ۔ماضی کی لڑکیاں ماڈرن ہوکربھی یہ گوارہ نہیں کرتی تھیں کہ کسی انجان کی گاڑی میں بیٹھیں ۔ مگرآج کی پردہ دار لڑکیاں بھی جدید طرز زندگی کی وجہ سے پیدل چلنے سے معذورہیں ۔دن بدن نوکری کرنے والی خواتین کی تعدادمیں اضافہ ہورہاہے ۔اوراس اضافے کی ایک بہت بڑی وجہ ماڈرن مولوی صاحبان کے وہ فتوے ہیں جن میں ماڈرن مولوی صاحبان عورت کوآزادی کے لیے راستے بتاتے اورآج کی خواتین بھی مردوں کی طرح بہت تیزہیں ۔وہ مولوی صاحبان سے یہ فتوی لینے توپہنچ جاتی ہیں کہ ساس کی خدمت کرنامجھ پر فرض ہے یانہیں ؟جیسے باقی سارے کام خواتین فرائض کامعلوم کرکے کرتی ہیں ؟ساس کی خدمت کامسئلہ پوچھنے والی عورت ،کبھی مولوی صاحب سے نوکری کرنے کافتوی لینے کیوں نہیں آتی ؟کہ مولوی صاحب کیااسلام عورت کو نوکری کرنے کی اجازت دیتاہے؟ شریعت، جو حج پر محرم کے بغیرجانے کی اجازت نہیں دیتی، کیا وہ اسلام عورت کوبازار،کالج،یونیورسٹی ،کھیلنے کے لیے، کانفرنس میں جانے کے لیے،سیر و سیاحت کے لیے ،نوکری کے لیے بغیرمحرم کے جانے کی اجازت دیتاہے؟عورت یہ فتوی لینے اس لیے نہیں آتی، کیونکہ یہ تمام کام توعورت نے کرنے ہی ہیں اپنی مرضی سے، چاہے مولوی فتوی دیں یانہ دیں ۔ عورت مولوی صاحبان سے اسی کام کامسئلہ پوچھتی ہے جو انہوں نے نہیں کرناہوتا۔جوکام عورتوں نے کرنا ہوتا ہے، اس کام کامسئلہ کبھی نہیں پوچھیں گی۔ مگریہ چالاکی اورہوشیاری بے چارے سادے مولوی صاحبان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بہت نیک عورت ہے جوساس کی خدمت کرنے کے لیے فتوی مانگنے آگئی ہے۔ آج کیونکہ ہمارامعاشرہ مذہبی ہے اس لیے عورتیں ، مردمولوی حضرات سے فتوی لینے آتے ہیں ۔کل جب یہ سب لبرل اورماڈرن ہوجائینگے تب کوئی ان ماڈرن مولویوں سے فتوی لینے نہیں آئے گا۔ تب یہ درست فتوی بھی دینگے توکوئی اس پرعمل نہیں کریگا۔Brendaایک امریکی عورت ہوکریہ جان چکی تھی کہ خاندان اورنوکری دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔اس لیے اس نے نوکری کی قربانی دی اورخاندان کووقت دیا۔یہ بات ایک مغرب میں پلی بڑھی عورت توجانتی ہے ۔ہمارے ماڈرن مولوی اورہماری عورتیں اور مرد نہیں جانتے۔ اس پرسوائے افسوس کے اور کیا کیا جائے۔ Brendaکی بیٹی نے 2010ء میں اس کے بیمار ہونے پرایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے نوکری چھوڑ دی تھی تاکہ وہ اپنی عظیم ماں کی خدمت کرسکے۔ Brendaکودنیامیں اس کی قربانی کا پھل مل گیا۔Brendaکا17جنوری 2017ء کوانتقال ہوگیا۔Brendaہمیشہ اپنے خاندان کے لیے دی جانے والی قربانی کی وجہ سے یادرکھی جائے گی اوراس لیے بلاشبہ وہ ایک عظیم امریکی خاتون تھی جس نے اپنے بچوں کے لیے قربانی دی۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر