وجود

... loading ...

وجود
وجود

اورنج ٹرین اور ایجنٹ صحافی

پیر 23 جنوری 2017 اورنج ٹرین اور ایجنٹ صحافی

سالِ گذشتہ کے آخری دنوں میں بیجنگ میں ہونے والے پاک چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ اجلاس سے جو ایک بہت ہی زیادہ اہم خبر ہم اہلِ لاہور کے لیے تھی وہ یہ کہ شہر میں زیرِ تعمیر اورنج میٹرو لائن کے منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے لئے ذاتی طور پریہ خوش کُن خبربھی تھی کہ کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ’’ماس ٹرانزٹ ‘‘کے منصوبوں کو اقتصادی راہداری منصوبوں کاحصہ قرار دے دیا گیا ہے اور یوں وفاق کے علاوہ چاروں صوبو ں کے صوبائی صدر مقامات پربھی مسافروں کو سفری سہولیات دستیاب ہو جائیں گی۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر چہچہائے ہیں کہ کراچی کے ماس ٹرانزٹ منصوبے پر کام کے لیے چینی ماہر کراچی میں ’نازل ‘ بھی ہوچکے ہیں اور اگلے دو ہفتوں میں باقاعدہ پٹری بچھانے کے کام کا آغاز ہو جائے گا۔ ابھی تک تو اہلِ کراچی میٹرو بس کی خاک ہی پھانک رہے ہیں، امید ہے کہ اب ان کو ٹرین کی خاک پھانکنے کی سہولت بھی آئندہ کچھ سالوں کے لیے مہیا کر کے ان کا احساسِ محرومی دور کیا جائے گا۔اس سے قبل یہ عیاشی صرف اہلِ پنجاب کو دستیاب تھی جس پر حقوق غصب کرنے کا شور ڈالا جا رہا ہے، لیں آپ بھی چکھیں۔کیوں کہ اس منصوبے میں ابھی تو عدلیہ نے کودنا ہے اور ان منصوبوں پر اندھے اور لمبے حکم ہائے امتناعی جاری کر کے ان منصوبوں کی مدت اور لاگت میں اضافہ کرنا ہے ، اس لیے اے کراچی والو ،تیار ہو جاؤ ، اہلِ لاہور کی طرح ’ترقی‘ کا مزہ چکھنے کے لیے۔ لیکن اس خبر کے ظہور کے بعد میرے جیسے بہت سے ایسے لاہوری صحافی منہ چھپاتے پھرتے ہیں جو میڈیا میں اس بات کا دفاع کرتے پائے جاتے تھے کہ لاہور کی اورنج ٹرین اقتصادی راہداری کا حصہ نہیں ہے۔ اس دفاع کی ایک وجہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی بہت سی بریفنگز تھیں جو انہوں نے مقامی صحافیوں کو بلا کردی تھی اور جس میں انہوں نے عدالتوں کی طرف سے اس معاملے میں مداخلت پر ان کے خوب لتے لیے تھے۔ ویسے بھی خادمِ اعلیٰ پنجاب ، محترم عدلیہ کے خلاف جو بھی زبان بولیں ان کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے، ہاں البتہ اس طرح کی آواز کسی اور صوبے سے اُٹھی ہوتی تو عدلیہ ضرور اس بات کو نوٹس لیتی ہے۔
خادمِ اعلیٰ اس کے بعد یہی مقدمہ لے کر عدالتِ عالیہ کے پاس بھی گئے لیکن عدلیہ نے تاریخی عمارتوں کی سلامتی کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کا دعویٰ، اور اس کی حمایت میں پیش کیے جانے والے بین الاقوامی اداروں کے سارے ثبوت عدالت سے اٹھا کر باہر پھینک دیے، جس پر خادمِ اعلیٰ خوب سٹپٹائے اور عدالتِ عالیہ کے فیصلے کے خلاف اپیل لے کر عدالتِ عظمیٰ کے سامنے بھی جا پہنچے۔ اس دوران عدالیہ کے خلاف ڈھکے اور کھلے الفاظ میں مہم جاری رہی۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی خادمِ اعلیٰ کی گزارشات اچھی طرح ملاحظہ کیں اور ان کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
اس دوران ہم جیسے پنجاب حکومت کے ایجنٹ صحافی، دن رات میٹرو ٹرین کی تعریفیں لکھنے میں زمین و آسمان کے قلابیں ملانے میں مصروف رہے اور ہلکے ہلکے سروں میں عدلیہ پر تبریٰ بھی جاری رہا۔ اس دوران عدالت کے سامنے یہ بھی گلا پھاڑ کر کہا جاتا رہا کہ یہ منصوبہ پنجاب حکومت کی اعلیٰ صلاحیتوں کی باعث چینی دوستوں نے پنجاب حکومت کو عطا کیا ہے ، اس کا اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی ہے مائی کالال کہ ان منصوبوں کے بارے میں زبان کھولے جہاں انچ انچ پر ناکامیوں، بدعنوانیوں اور سرکاری رقوم کی زیاں کی لمبی لمبی داستانیں رقم ہیں۔شاید کہ سرکار کی طرف سے ڈالے گئے اشتہارات کے راتب سے اتنی سی جگہ بھی نہیں بچتی کہ وہاں پر اشتہار دینے والوں کے قصیدوں کے علاوہ کچھ لکھا جا سکے اور یوں اخبار ات کے صفحات پورے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشاغل اور سرگرمیاں ہی اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ عام عوام کی یا پھر تنقیدی خبروں اور کالموں کے لیے پنجاب کے اخبارات میں کوئی جگہ ہی نہیں بچتی۔ جب کہ ٹی وی کے ایک گھنٹے میں سفارشی خبروں اور اشتہارات کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے کہ مشکل سے پچیس منٹ ہی خبروں کے لیے بچتے ہیں۔
خیر اس دوران خادمِ اعلیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے تیور دیکھ کر راستہ بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے جونیئرافسران کی فوج ظفر موج سے پوچھا کہ اگر ہم عدالتی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں کر لیں تو اس سے اخراجات میں کس قدر اضافہ ہو گا؟ انہوں نے جمع تفریق کر کے خادمِ اعلیٰ کو بتایا کہ ان تبدیلیوں کی صورت میں منصوبے کی لاگت میں بائیس ارب روپے تک کا اضافہ ہو جائے گا ۔
اس بڑھتی لاگت پر قابو پانے کے مختلف طریقوں پر غور و خوض شروع ہوا تو پتہ چلا کہ اگر اس کی لاگت بڑھی تو ان بلند و بانگ دعووں کا کیا ہوگا کہ اس منصوبے میں سے ہم نے اتنے ارب کی بچت کی ہے؟ دوسری طرف اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے منگوائے جانے والے سامان کو کلی ٹیکس چھوٹ حاصل تھی ، جب کہ اورنج ٹرین کے پورے منصوبے کے لیے منگوائی جانے والی مشینری اور سامان پر ٹیکس کی مقدار بس یہی کوئی بیس بائیس ارب روپے کے لگ بھگ تھی ۔لہٰذا طے یہ کیا گیا کہ خادمِ اعلیٰ اپنا تھوکا ہوا چاٹیں گے اور لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین کو اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کروائیں گے ۔
لیکن آپ اگر مذاق نہ سمجھیں تو عرض ہے کہ خادمِ اعلیٰ شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ جی ہاں یہی شرمندگی تھی جو ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی اور وہ اقتصادی راہداری کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے بیجنگ نہ جا سکے۔ ظاہر ہے بڑبولے خادمِ اعلیٰ کس منہ سے اپنے رفقاء دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا سامنا کرتے۔ لہٰذا لاہور کی اورنج میٹرو ٹرین کے منصوبے کو اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں شامل کرنے کا نیک کام ان کی غیر موجودگی میں ہوا۔
ہمیں اس سے یہ بات سمجھ آ گئی کہ دراصل ایسے تمام بڑے منصوبے جن سے پنجاب کو کچھ فائدہ ملنا ہوتا ہے اس کے سامنے دوسرے صوبے جو دیوار بن کے کھڑے ہو جاتے ہیں، تواس میں دوسرے صوبوں کی قیادت کے رویے سے زیادہ پنجاب کی قیادت کا بچگانہ اور بے صبراپن ہوتاہے۔ پنجا ب حکومت کی اس بچگانہ منصوبہ بندی کے باعث اہل لاہور کی مصیبتوں میں جو مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،یہ ہمیں ذاتی طور بہت دُکھتاہے کیوں کہ پنجاب حکومت نے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار چلا چلا کر یہ باور کروا دیا ہے کہ پنجاب میں دودھ اور شہر کی نہریں بہادی گئی ہیں جب کہ ادھر ہمارا آدھا لاہور ان منصوبوں میں تاخیر اور حکومت کی اس حوالے سے بے حسی کے باعث خاک پھانک پھانک کر گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال پہنچنے والا ہو گیا ہے۔


متعلقہ خبریں


محافظ چل بسا۔۔۔۔! جلال نورزئی - منگل 21 فروری 2017

پیر13فروری کی شام مطالعہ سے فراغت کے بعد ٹی وی پر خبریں سننے لگا ۔ پنجاب اسمبلی کے باہر کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کااحتجاج ہورہا تھا۔ چونکہ یہ احتجاج انتہائی اہم مقام اور شاہراہ پر ہورہا تھا اس لیے نیوز چینلز کی تمام تر توجہ اس ایونٹ پر مرکوز تھی ۔ انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کو...

محافظ چل بسا۔۔۔۔!

پانی کی تقسیم وجود - پیر 06 فروری 2017

سندھ اور پنجاب کے درمیا ن پانی کی تقسیم کا تنازع ڈھائی سو سال پرانا ہے‘ دستیاب ریکارڈ کے مطابق پچھلے ڈیڑھ سو سال میں چھ مرتبہ کمیشن بٹھانے گئے اور ہر مرتبہ یہ رپورٹ آئی کہ چونکہ سندھ سب سے آخر میں ہے اس لئے پانی پر سندھ کا پہلا حق ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی حلقوں نے فتویٰ بھی دیا کہ مذ...

پانی کی تقسیم

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر