وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ (قسط1

جمعرات 05 جنوری 2017 دہشت گردی کی جنگ اور ہمارا بیانیہ 	(قسط1

گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کے ادارے نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نکٹا) کی طرف سے سال 2002 کے بعد سے لے کر اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آنے اور زخمی ہونے والے پاکستانی سویلین افراد اور فوجیوں کی تعداد کے اعداد و شمار جاری کیے گئے۔ وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والے ادارے نکٹا کے مطابق اب تک دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں کام آنے والے افراد کی تعداد کسی بھی طور پر پانچ ہزار سے زائد نہیں تھی۔ اس کے نتیجے میں میڈیا پر قابض مخصوص اذہان اور لابی نے ایک مرتبہ پھر شور و غوغا کا ایک طوفان اٹھا دیااور نیشنل ایکشن پلان کا منتراپڑھنا شروع کردیا۔ وقت آ گیا ہے کہ اس معاشرے کے ففتھ کالمسٹ کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
اب تک ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور خصوصاً پ سوشل میڈیا پر ایک چورن بڑے تسلسل سے بیچا جاتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانی کام آ چکے ہیں۔ یہ5 ہزار کے ہندسے سے ایک لاکھ تک کا سفر عین ہماری آنکھوں کے سامنے طے ہوا ہے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اس ہندسے کی حقیقت کو آ شکار کیا جائے۔ پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ نکٹا نے یہ اعداد و شمار کیسے اکٹھا کیے ہیں۔ دراصل نکٹا کا ادارہ ہر سال کے خاتمے پروزارتِ داخلہ کے ذریعے تمام صوبوں کی ہوم منسٹریز کے علاوہ جی ایچ کیو کو سرکاری طور پر خط لکھ کر پوچھتا ہے اور یہ حکومت پاکستان کے تمام ادارے اس کو اپنا جواب بھجواتے ہیں۔ ان کے علاوہ فاٹا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتظامی اداروں کو بھی پوچھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ہندسہ مرتب کیا جاتا ہے کہ اب تک دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے تا کہ آئندہ منصوبہ بندی اور بحالی کا کام ہو سکے۔
چوں کہ یہ کام کرنے والی وزارت آج کل چوہدری نثار علی خان کے تحت ہوتی ہے اس لیے یہ ہندسہ مرتب کرنے کی پاداش میں چوہدری نثار علی خان کی میڈیا میں جو بے پناہ ’پٹائی ‘ کی جا رہی ہے وہ آپ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں، اس کے بارے میںہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
یہ پروپیگنڈا کرنے والے اور مسلسل کرنے والے بھی کمال کی مخلوق ہیں۔جب ان افراد سے پوچھا جائے کہ ان کی اطلاعات کا ’’ماخذ ‘‘کیا ہے تو ہمارے ذاتی تجربے کی بات ہے جو ہم نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے بظاہر معتبر اور سنجیدہ افراد اس سوال پر فوراً آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، منہ سے جھاگ اڑنی شروع ہوجاتی ہے اور ایسا سوال اٹھانے والے کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دے کر پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
وقت ٹی وی پر ایسے ہی ایک مذاکرے میں یہی گستاخی دہرانے پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر دفاعی تجزیہ نگار نامی ایک سابق بریگیڈئر صاحب ، کہ جو مشرف دور میں آئی ایس آئی کے صوبہ پنجاب کے سربراہ رہ چکے تھے، اپنا ذہنی اور دلیلی توازن کچھ یوں کھو بیٹھے کہ میزبان کو پروگرام جلدی ختم کرنا پڑا، لیکن موصوف ہمیں سبق سکھانے کے لیے پارکنگ تک آئے ، اور اگر اس نشریاتی ادارے کے ملازمین درمیان میں حائل نہ ہوجاتے تو نہ جانے کیا سے کیا ہوجاتا۔ کوئی چھ ماہ بعد ایک جگہ پر ملے ، اپنے گزشتہ رویے پر نادم تھے ، معذرت کی، ہم نے انہیں گلے لگالیا، لیکن خاکسار نے ساتھ ہی ان کے کان میں سرگوشی کی کہ ’’لیکن ایک لاکھ کا ہندسہ ابھی تک تشنہ ہے، اس کا ثبوت دینا ہے آپ نے مجھے‘‘۔ تھوڑے سے کبیدہ خاطر ہو کر پیچھے ہٹے، اور کہنے لگے، ’’آپ شرارت سے باز نہیں آتے؟‘‘
یہی سوال ہم نے ڈیفنس ڈاٹ پی کے نامی ویب سائیٹ کے بلاگ پر اٹھا دیا۔ یہ ویب سائیٹ بظاہر پاک فوج کے کارنامے پھیلانے اور پاکستان کی اچھی اچھی باتیں کرنے کے حوالے سے معروف ہے ، لیکن جیسے ہی ہماری طرف سے بات ہو ئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ کی ، تو وہی بیانیہ جو اس ملک میں ایران کے زیر اثر اقلیت دن رات کرتی پائی جاتی ہے تا کہ اپنے نظریاتی مخالفین پر ریاستی اداروں کو ’چھوڑا‘ جا سکے۔ پہلے تو انہوں نے ہمارے ساتھ وہی کیا جو بریگیڈئر صاحب کر چکے تھے، چوں کہ ہم اس رویے کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے ہم انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مُصر رہے تو انہوں نے مجبوراً ایک غیر ملکی ویب سائیٹ کا حوالہ دے دیاجہاں یہ بات چھپی تھی۔ ہم نے یہ ویب سائیٹ چیک کی تو وہاں پر ایک پاکستانی مصنف کی تحریر چسپاں تھی (نام ہی چیخ چیخ کر بتارہا تھا کہ موصوف کی ممکنہ سیاسی سوچ کیا ہو سکتی ہے ) جس میں یہ ہندسہ دیا گیا تھا، لیکن یہ اطلاعات ویسے ہی تھیں جیسے پاکستان میں لکھے گئے بیشتر کالموں کے اندر دی گئی معلومات ہو سکتی ہیں،اس تحریر کا کوئی قابلِ اعتماد حوالہ نہیں تھا۔
دراصل یہ ہندسہ اس لیے گھڑا کیا گیا ہے کہ اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر فوج کشی کے مخالفین کا منہ دلیل سے تو بند ہوہی نہیں سکتا تھا تو اس ’’دھڑلے ‘‘ سے ہی بند کیا جا سکے اور طریقِ کار واضح ہے ، کہ جو ان کے بیانیے کے بارے میں سوال اٹھائے اس پر اس قدر ردعمل دے کر اس کواس قدر دفاعی پوزیشن میں لے جاو ٔ، اور اسے (ایک لاکھ جعلی شہادتوں کے نام نہاد ذمہ دار)دہشت گردوں کا حامی قرار دے کر دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کردو۔
ایسے میں ہمیں ابلاغ کے امریکی یہودی استاد پروفیسر نوم چومسکی یاد آئے اور خوب یاد آئے کہ جنہوں نے پوری دنیا کو بتایا ہے کہ حقیقت کیسے ’’تخلیق‘‘ کی جاتی ہے۔
جب افغانستان میں شکست کے زخم چاٹتے ہوئے امریکیوں نے وہاں سے مراجعت کا اعلان کیا تو ایسے میں اس ناکامی کا ذمہ دار قرار دینے کے لیے قربانی کے بکرے کی تلاش شروع ہوئی ،کہ جس کے سر پر شکست کا تاج سجایا جاسکے۔ ایسے میں اپنے دیرینہ سرپرست اور مِتر ‘کو پاکستان کے معاشرے میں ستر سال سے سرگرم عمل مختلف النوع عناصر نے قومی گردن پیش کر دی۔ امریکا نے یہ کہہ کر سارا ملبہ پاکستان کے گلے ڈال دیا کہ افغانستان میں اسے شکست اس لیے ہوئی کیوں کہ پاکستان کی حکومت اور اس کے اداروں نے اس کی ’دل سے‘ مدد نہیں کی۔اور یوں ان عناصر کی مدد سے بڑی عیاری سے افغانستان سے بین الاقوامی جنگ گھسیٹ کر پاکستان لانے کی کوششوں کا آغاز کردیاگیا۔
امریکی سرمایہ کاری کا پروردہ الیکٹرانک میڈیا، این جی اوز مافیا اور پاکستان کے دفاعی اداروں اور ان کے خفیہ اداروں میں چھپے وہ عناصر جن کی امریکیوں کے ساتھ طویل المدتی شراکت کاری کی بناء پر مفادات سات سمندر پار سے منسلک ہو چکے تھے، وہ سارے اس مہم جوئی میں یک زبان ہو کر کچھ یوں سامنے آئے کہ آج تک ان سے اختلاف کرنے والے کو کوئی جگہ ہی نہیں مل پا رہی۔ اسی اثناء میں ’شیطانِ بزرگ‘ بھی ’مہربانِ بزرگ ‘ ہو چکا تھا، اس لیے ان عناصر کو بھی سجدہ سہو کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ ولائت فقیہہ کے تازہ ترین حکم کے مطابق امریکی اب اتحادی تھی اور بی جے پی ہمارے بھائی، اسی حکم کے تحت بھارت میں موجود ایسے تمام عناصر نے سیاسی طور پر خود کو حکومتی پارٹی میں یوں ضم کیا کہ بجرنگ دل کے سیاسی چہرے نے پہلی مرتبہ مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے حقوق کے خلاف قانون سازی شروع کر دی۔
ایسے میں اقتدار سیاست کے وہ کھلاڑی جو براہِ راست انتخابات کے ذریعے ’’اقتدار کا چہرہ‘‘ نہیں بن سکتے تھے، اور اپنی کم وقعتی اور کوتاہ بینی کے باعث ملک کے اندر اقتدار کی بندر بانٹ کی ٹرین مس کر چکے تھے ، لیکن جنہیں ہر قیمت پر اقتدار چاہیے تھا ، ان کو بھی شامل باجا کر لیا گیا اور یوں قوم کے ہاتھ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نام نہاد بیانیہ تھما دیا گیا، جس کا واحد مقصد پاکستان کو ایک طویل المدتی خانہ جنگی میں دھکیلنا تھا۔
جب اس طرح بات بنتی نظر نہیں آئی تو پاکستان کے دارالحکومت پر چڑھائی کرنا بھی ضروری قراردیا گیا۔ دھرنے کے نام پر ہونے والی اس نوع کی تمام چڑھائیوں میں وہ تمام عناصرِ اربعہ پورے تھے،جن کے ذریعے عراق کے دارالحکومت بغداد اور یمن کے دارالحکومت صنعا پر چڑھائی کی گئی تھی۔ نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانا تو ایک بہانہ تھا ورنہ ایران کے حامی مسلح افراد کے جتھے، فوج میں موجود امریکی حامی عناصر اور عام انتخابات میں جیت نہ سکنے والے سیاسی عناصر۔ سب ہی تو موجود تھے ان نام نہاد دھرنوں میں۔ لیکن پاکستانی معاشرے نے تمام تر اختلافات کے باوجود اپنی قوت کا اظہار کیا اور ان کی تمام سازشیں ناکام ہو گئیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بھلے وہ سوات آپریشن ہو، یا وزیرستان پر فوج کشی یہ تمام نام نہاد دھرنا باز عین اسی وقت رو بہ عمل آئے جب ملک کے کسی نہ کسی کونے پر ہماری تنخواہ یافتہ فوج ان عناصر کے خلاف رو بہ عمل آئی جو کسی بھی طور پر افغانستان میں امریکی شکست کے ذمہ دار تھے یا جنہوں نے امریکا کو خاک چٹانے میں کسی بھی طور حصہ ڈالا تھا۔ ان دھرنا بازوں کے پروگرام یوں ترتیب دئیے گئے کہ میڈیا کی ساری چکاچوند ان کی طرف مرکوز رہے اور اندرونِ ملک نام نہاد آپریشنوں کے نتیجے میں ہونے والے انسانی المیوں پر کسی کی نظر ہی نہیں جاسکے۔ فوجی آپریشن کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک صرف سوات میں 2800 خواتین کے خاوند غائب ہیں، اور وہ ’’آدھی بیوائیں ‘‘ کہلاتی ہیںاور یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں لیکن کمال کی بات ہے کہ مسنگ پرسن کے کمیشن کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال یہاں پر جا کر اندھے، گونگے اور بہرے ہو جاتے ہیں ۔نہ جانے ان میں سے کتنے تھے جن کی نامعلوم لاشیں جناح بیراج سے برآمد ہو چکی ہیں ۔ اداروں کی اس دیدہ دلیری اور بدمعاشی کوبین الاقوامی معاہدوں کے تحت اقتدار لینے والی ملکی سیاسی حکومتوں نے قانون کا غلاف بھی پہنا دیا، قانون سازی کر کے نیشنل ایکشن پلان نامی ’جھنجھنا‘ قوم کو تھما دیا جو دن رات بجایا جاتا رہتاہے۔ ویسے وزیرستان کے مسنگ پرسن کی ابھی تک گنتی شروع نہیں ہوسکی اور نہ ہی ہونے دی جا رہی ہے کیوں کہ یہاں پر غائب کیے گئے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ میڈیا کوریج پر پابندی لگا کر اور مقامی صحافیوں کو قتل کر کے حقائق کو نہ جھٹلایا جا سکتا ہے نہ ہی چھپایا جا سکتاہے۔ روزانہ پاکستان کے معاشرے کو بجلی کے جھٹکے دے کر حیران ہوا جاتا ہے کہ یہ ردعمل کیوں نہیں دیتااور یہاں پر خانہ جنگی کیوں شروع نہیں ہو رہی۔ (جاری ہے)
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر