... loading ...
پاکستان کے نئے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے اپنے عہدے کاحلف اٹھانے سے قبل ہی ایک بیان میں یہ واضح کردیاتھا کہ وہ مفاد ،دبائو اور خوف کاشکار ہوئے بغیر اپنے فرائض انجام دیں گے اوربے لاگ انصاف فراہم کرکے یہ ثابت کریں گے کہ شفافیت کسے کہتے ہیں؟اور شفافیت کیاہوتی ہے۔اپنے اس قول کا بھرم رکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے پاناما کیس کی سماعت کے لیے بنچ تشکیل دیتے ہوئے خود کو اس سے علیحدہ رکھا ، انھوںنے اس بنچ سے خود کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ غالبا ً ان کی نامزدگی کے فوری بعد ہی بعض حلقوں کی جانب سے ان کے خلاف شروع کی جانے والی مہم اور انھیں وزیر اعظم نواز شریف کی بااعتماد شخصیت ثابت کرنے کی کوششوں کے پیش نظر کیا۔اس کیس اور اس حوالے سے ہونے والے فیصلوں کی شفافیت برقرار رکھنے اور اس فیصلے کو کسی طرح کے اعتراض سے بالاتر رکھنے کی غرض سے ایسا قدم اٹھانا ایک اچھی اور دل خوشکن بات ہے،کیونکہ انسان خود خواہ کتنا ہی ایماندار اور انصاف پسند کیوں نہ ہو اگر کسی بھی جانب سے اس کی جانب بدنیتی کا الزام دے کر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو مخالفین کو منہ کھولنے کاموقع دینے کے بجائے خاموشی سے راستہ تبدیل کرلینا ہی دانش مندی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثارکا یہ کہنا کہ وہ دنیاوی فائدے کے لیے اپنے ابدی انعام کو قربان نہیں کرسکتے او ر عوام کو مایوس نہیں کریں گے، اس ملک کے قیام کے بعد ہی سے مختلف ادوار میں آنے والے متنازع فیصلوں کی وجہ سے عوام میں پیداہونے والی گہری مایوسی میں امید کی ایک ایسی کرن ہے جسے اس ملک کے دن بدن بگڑتے ہوئے حالات اور عوام میں پیداہونے والی مایوسی اور محرومی سے نجات دلانے کے لیے تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ہماری اور یقینا اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت کی دعا یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ چیف جسٹس صاحب کے ارادوں میں استقامت عطافرمائے اور انھیں شیطان لعین کے حربوں سے محفوظ رہنے کی ہمت عطافرمائے۔
عدل وانصاف کو اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس بارے میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ عرب جیسے اجڈ اور وحشی قوم کے ذریعے دنیا میں اسلام کی ترویج کی بنیادی وجہ اسلام کی عدل وانصاف پسندی تھی ، جہاں نبی کریم ؐ نے یہ واضح کردیاتھا کہ انصاف کے معاملے میں کمزور اور زور آور میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی،اور اگر میری پیاری بیٹی فاطمہ بھی کوئی جرم کرے تو وہ بھی اسی سزاکی حقدار ہوگی اور اسے بھی وہی سزا دی جائے گی جو ایک عام بدو کو دی جاسکتی ہے۔انصاف کی اسی اہمیت کے پیش نظر عدل کرنے والے قاضی کا رتبہ انبیا کے مساوی بتایا جاتاہے۔
قرآن کریم میں بھی لوگوں کو عدل واحسان کی تلقین کی گئی ہے اور یہ واضح کیاگیاہے کہ انصاف کے معاملے میں ’’من وتو‘‘ کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے، امیر وغریب ،کمزور اور زور آور ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیاجانا چاہئے۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قاضی یعنی جج 3طرح کے ہوتے ہیں، ان میں سے 2 جہنم میں اور ایک جنت میں جائیں گے،جنت میں وہ جج یا قاضی جائیں گے جو حق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق فیصلے کریں گے ،لیکن جو جج یاقاضی حق کو پہچاننے کے باوجود غلط فیصلہ کرے اور اپنے فیصلے صادر کرتے ہوئے کسی کے ساتھ زیادتی کامرتکب ہو وہ دوزخ کاایندھن بنے گا،اس کے علاوہ وہ قاضی یاجج جو معاملے کو سمجھے بوجھے بغیر فیصلے کرے وہ بھی جہنم میں جائے گا۔
انصاف کے حوالے سے بنی اسرائیل کی ایک روایت ہے کہ اس دور کے ایک قاضی نے وصیت کی کہ میرے مرجانے کے بعد میری قبر کھول کر دیکھنا کہ میں کس حال میں ہوں، میں نے سنا ہے کہ انصاف کرنے والے قاضی کاانجام انبیا جیسا ہوتاہے ،اور اس کی میت کومٹی کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔
اس قاضی نے دعویٰ کیا کہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی ،قاضی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مجھے من پسند فیصلے کرانے کے لیے طرح طرح کی ترغیبات دی گئیں ،لالچ دی گئی ،دھمکیاں بھی ملیں ،لیکن میں نے بڑی سے بڑی پیشکش کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔میرے بہت سے دشمن بار بار میری عدالت میں آتے رہے لیکن میں نے اس موقع پر جب میں ان سے دشمنی کابدلہ اپنے فیصلے میں معمولی تبدیلی کے ذریعے باآسانی لے سکتاتھا، کبھی ان سے بدلہ لینے کا تصور بھی نہیں کیا اور بدلہ لینے کاتصور ذہن میں لائے بغیر بے لاگ اور درست فیصلہ کیا، ان کی دادرسی کی اور ان کے حق میں فیصلے دیے۔انصاف کی راہ میں میں نے کبھی دوستی اور رشتہ داری کو بھی حائل نہیں ہونے دیا اور دوستی اور رشتہ داری سے بالاتر ہوکر درست فیصلہ دینے کی کوشش کی، صرف ایک دفعہ جب میرے ایک گہرے دوست کامقدمہ میری عدالت میں پیش ہوا تو میں نے فریق مخالف کے مقابلے میں اپنے دوست کے موقف کو ذرا زیادہ توجہ سے کان لگا کر سناتھا لیکن فیصلہ انصاف کے مطابق ہی کیاتھا۔اس ایک واقعے کے علاوہ میں نے اپنی یادداشت کے مطابق انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کسی کے ساتھ کوئی رعایت یاجانبداری کامظاہرہ نہیں کیا۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے اس منصف مزاج قاضی کاجب انتقال ہوگیا تو روایتی طریقے کے مطابق انھیں سپرد خاک کردیاگیا، کچھ دنوں کے بعد ان کے لواحقین اور مداحوں کو ان کی نصیحت یاد آئی اورسب نے مل کر ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر کھول کر دیکھنے کافیصلہ کیا، روایت میں آتاہے کہ جب اس منصف مزاج قاضی کی قبر کھودی گئی تو ان کی قبر خوشبوسے مہک رہی تھی اور ان کی میت بالکل ایسی لگ رہی تھی جیسا کہ ابھی ابھی سپر د خاک کی گئی ہو ،تاہم ان کا دایاں کان مٹی کی نذر ہوچکاتھا ،اسے دیکھ کر لوگ سمجھ گئے کہ قاضی کایہی وہ کان ہے جس کے بارے میں انھوںنے فرمایاتھا کہ انھوں نے انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے دوست کی بات کان لگا کر سنی تھی۔
بنی اسرائیل کے اس قاضی کے حوالے سے یہ روایت ہمارے تمام جج صاحبان کے لیے ایک سبق ہے اور اس سے جج کی کرسی کی اہمیت اور اس پر بیٹھنے والوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ہی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے والوںکے انجام کی جھلک بھی موجود ہے ۔
امید ہے کہ چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار اپنے ساتھ ہی عدلیہ کے دیگر ججوں کوبھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور دنیاوی فوائد کے لیے ابدی فوائد اور انعامات کو نظر انداز کرنے کی روش ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس ملک میں انصاف کا نظام درست ہوجائے تو اس ملک کابگڑا ہوا پورا نظام چشم زدن میں ٹھیک ہوسکتاہے اور اس ملک کے مایوس اور مفلوک الحال عوام کے چہرے خوشی سے دمکنے لگیں گے۔