... loading ...
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کے دوران جو ٹوئیٹ کیں ان میں اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ امریکا کو اس وقت تک اپنے ایٹمی اسلحے میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے جب تک دنیاایٹمی اسلحے کی حقیقت کو سمجھ نہ لے۔اپنے 140 الفاظ پر مشتمل اپنے ٹوئیٹ میں انھوںنے خیال ظاہرکیاکہ ایٹمی دفاعی قوت کے بارے میں اس وقت تک حالات جو ں کے توں رکھے جانے چاہئیں جب تک کہ ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک کو خود ان کی وجہ سے تباہی کاسامنا نہ کرنا پڑجائے یا پھر وہ اس کی ہلاکت خیزی کو اچھی طرح سمجھ نہ جائیں۔
ایٹمی دفاعی قوت ایک ایسا خیال یا واہمہ ہے جس کا گزشتہ 70سال سے یعنی اس وقت سے پراپگنڈا کیاجارہاہے جب سے ایٹمی قوتیں وجود میں آئی ہیں،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری ہی دنیا میں اسلحے کی دوڑ شروع کرنے کا محرک ثابت ہوئی ہے۔جب بھی کوئی طاقت یا کوئی ملک کوئی نیا ہتھیار تیار کرتاہے تو دوسرے تمام ممالک اپنے اسلحے کے ذخائر کو یا اپنے اسلحے کی طاقت کو اس کے مساوی یا ہم پلہ کرنے کے لیے اس جیساہی یااس سے بھی بہتر اسلحہ تیار کرنے کی کوششیں شروع کردیتاہے۔اس صورتحال کی وجہ سے آج ہم ایک دفعہ پھر ایٹمی اسلحے کی دوڑ کے خطرناک دہانے پر پہنچ چکے ہیں،اور امریکی اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے گزشتہ 30سال کے دوران اپنے عوام کی بنیادی سہولتوں میں کٹوتی کرکے ایٹمی اسلحے کی تیاری اور نئے اسلحے کے تجربات پر کھربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں امریکا کے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میںمسلسل اضافہ کرتے رہنے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے یہ حقائق نہیں ہوں گے اور انھوںنے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایٹمی اسلحے کی تیاری جاری رکھنے کے معنی بنی نوع انسان کو ان کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی راہ کھوٹی کرنا اور لوگوںکو ان کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا میں ایٹمی اسلحہ کی تیاری جاری رکھنے کی تجویز جدید ترین سائنسی اسٹڈیز کے بھی منافی ہے جن میں کہاگیاہے کہ ایٹمی اسلحہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہیں۔ذرا سوچئے کہ اگر کوئی علاقائی ایٹمی ملک یعنی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک کسی دوسرے کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کرتاہے جو ہیروشیما پر برسائے جانے والے ایٹم بم سے بھی کم وبیش 100 گنا زیادہ قوت کا ہوگا لیکن اس کی حیثیت پوری دنیا میں موجود ایٹمی اسلحہ کے نصف فیصد کے برابر بھی نہیں ہوگی تو دنیا کے ماحول پر اس کے جو منفی اثرات پڑیں گے اور اس کی وجہ سے جو خشک سالی اور قحط جیسی صورت حال پیداہوگی صرف اسی کے نتیجے میں کرہ ارض کے کم وبیش2 ارب انسان موت کاشکار ہوجائیں گے۔یہ ایک طرح کی ایک خود کش بمباری ہوگی جو اس سے پہلے دنیا نے کبھی دیکھی نہیں ہوگی ۔اس کی وجہ سے ماحول پر اثرات کم وبیش 2 عشروں یعنی 20 سال تک موجود رہیں گے اور اس عرصے کے دوران انسانوں کا وجود ہی ختم ہوکر رہ جائے گا۔
دوسری جانب اگر بڑی طاقتوں کے درمیان ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی نوبت آگئی تو اس سے ہونے والی تباہی کا صرف تصور ہی کیاجاسکتاہے،اور ایٹمی اسلحہ کی باقیات استعمال کرنے کی صورت میں تو انسان کا وجود ہی مٹ جائے گا۔
امریکا کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اور اس کے بعد صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے غالبا ً ایٹمی اسلحہ کی اس تباہ کاری پر غور ہی نہیں کیاہے اور ایٹمی اسلحہ کے اس تباہ کن پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کیے رکھا ہے۔انتخابی مہم کے دوران دونوں میں سے کسی بھی امیدوار نے کبھی یہ بھی ظاہرنہیں کیا کہ انھیں ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاریوں اور اس کے استعمال کے خوفناک نتائج کا علم ہے۔انھوںنے اس بات کابھی اظہار نہیں کیا کہ آخر کن حالات میں وہ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کا آپشن استعمال کرنے پر غور کریں گے،یا اس کے استعمال کی اجازت دیں گے۔اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران یہ سوال اٹھاتے رہے کہ جب ہمارے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہیں کرسکتے ؟ اور آخر مزید ممالک کو اس کی تیاری کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی۔تاہم وہ اس دوران مشرق وسطیٰ یا یورپ میں ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے امکان کے بارے میں سوالات کاجواب دینے سے مسلسل گریز کرتے رہے۔
ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاری کی قوت کا تقاضہ ہے کہ ان کے استعمال کا آپشن کبھی اختیار نہیں کیاجانا چاہیے،کیونکہ دنیا کے پاس اس کے متبادلات موجودہیں۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں انسان کا وجود ختم ہوجانے کے خطرات کے پیش نظر دنیا کے ایٹمی اسلحہ نہ رکھنے والے ممالک، دنیا بھر کی میڈیکل ایسوسی ایشنز اور بین الاقوامی ریڈ کراس سمیت دنیا بھر کی سول سوسائٹیز بہت پہلے ہی ہوش میں آچکی ہیں اور کافی عرصے سے ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاری کی قوت اور صلاحیت کے پیش نظر ان کو کسی بھی صورت میں استعمال نہ کئے جانے کی تلقین کررہی ہیں۔ دنیا کے 123 ممالک نے جو دنیا کی مجموعی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں، ایٹمی اسلحہ کے استعمال پر پابندی کے معاہدے کا مطالبہ کیاہے جس پر اگلے سال اقوام متحدہ میں غور کیاجائے گا۔ان ممالک کی تجویز کے مطابق ایٹمی اسلحہ سمیت دنیا بھر میں تمام انتہائی ہلاکت خیز اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے جن میں کیمیائی اور حیاتیاتی بم اور بارودی سرنگیں بھی شامل ہیں، کے استعمال اور تیار ی پر مکمل طورپر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کریں گے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایٹمی اور دیگر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی تیاری اور استعمال پر پابندی کی اس تجویز کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ اس تحریک کی قیادت کریں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ویژن کے اعتبار سے عظیم شخصیت کے مالک ہیں، اب یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے کہ وہ انسانیت کو ہلاکت اور تباہی سے بچانے میں مدد دینے والے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کو ترجیح دیں گے یا ایک ایٹمی قوت کے مالک روایتی عظیم ملک امریکا کے روایتی صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے اوردنیا کی تباہی اور بربادی کے منصوبوں میں برابر کے حصہ دار کہلانا پسند کریں گے؟دنیا بالخصوص بنی نوع انسان کو ان کے فیصلے کاانتظار رہے گا۔