وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایٹمی اسلحہ کے پھیلاو کاخطرہ

منگل 03 جنوری 2017 ایٹمی اسلحہ کے پھیلاو کاخطرہ

امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کے دوران جو ٹوئیٹ کیں ان میں اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ امریکا کو اس وقت تک اپنے ایٹمی اسلحے میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے جب تک دنیاایٹمی اسلحے کی حقیقت کو سمجھ نہ لے۔اپنے 140 الفاظ پر مشتمل اپنے ٹوئیٹ میں انھوںنے خیال ظاہرکیاکہ ایٹمی دفاعی قوت کے بارے میں اس وقت تک حالات جو ں کے توں رکھے جانے چاہئیں جب تک کہ ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک کو خود ان کی وجہ سے تباہی کاسامنا نہ کرنا پڑجائے یا پھر وہ اس کی ہلاکت خیزی کو اچھی طرح سمجھ نہ جائیں۔
ایٹمی دفاعی قوت ایک ایسا خیال یا واہمہ ہے جس کا گزشتہ 70سال سے یعنی اس وقت سے پراپگنڈا کیاجارہاہے جب سے ایٹمی قوتیں وجود میں آئی ہیں،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری ہی دنیا میں اسلحے کی دوڑ شروع کرنے کا محرک ثابت ہوئی ہے۔جب بھی کوئی طاقت یا کوئی ملک کوئی نیا ہتھیار تیار کرتاہے تو دوسرے تمام ممالک اپنے اسلحے کے ذخائر کو یا اپنے اسلحے کی طاقت کو اس کے مساوی یا ہم پلہ کرنے کے لیے اس جیساہی یااس سے بھی بہتر اسلحہ تیار کرنے کی کوششیں شروع کردیتاہے۔اس صورتحال کی وجہ سے آج ہم ایک دفعہ پھر ایٹمی اسلحے کی دوڑ کے خطرناک دہانے پر پہنچ چکے ہیں،اور امریکی اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے لیے گزشتہ 30سال کے دوران اپنے عوام کی بنیادی سہولتوں میں کٹوتی کرکے ایٹمی اسلحے کی تیاری اور نئے اسلحے کے تجربات پر کھربوں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں امریکا کے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میںمسلسل اضافہ کرتے رہنے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے یہ حقائق نہیں ہوں گے اور انھوںنے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایٹمی اسلحے کی تیاری جاری رکھنے کے معنی بنی نوع انسان کو ان کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی راہ کھوٹی کرنا اور لوگوںکو ان کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا میں ایٹمی اسلحہ کی تیاری جاری رکھنے کی تجویز جدید ترین سائنسی اسٹڈیز کے بھی منافی ہے جن میں کہاگیاہے کہ ایٹمی اسلحہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہیں۔ذرا سوچئے کہ اگر کوئی علاقائی ایٹمی ملک یعنی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک کسی دوسرے کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کرتاہے جو ہیروشیما پر برسائے جانے والے ایٹم بم سے بھی کم وبیش 100 گنا زیادہ قوت کا ہوگا لیکن اس کی حیثیت پوری دنیا میں موجود ایٹمی اسلحہ کے نصف فیصد کے برابر بھی نہیں ہوگی تو دنیا کے ماحول پر اس کے جو منفی اثرات پڑیں گے اور اس کی وجہ سے جو خشک سالی اور قحط جیسی صورت حال پیداہوگی صرف اسی کے نتیجے میں کرہ ارض کے کم وبیش2 ارب انسان موت کاشکار ہوجائیں گے۔یہ ایک طرح کی ایک خود کش بمباری ہوگی جو اس سے پہلے دنیا نے کبھی دیکھی نہیں ہوگی ۔اس کی وجہ سے ماحول پر اثرات کم وبیش 2 عشروں یعنی 20 سال تک موجود رہیں گے اور اس عرصے کے دوران انسانوں کا وجود ہی ختم ہوکر رہ جائے گا۔
دوسری جانب اگر بڑی طاقتوں کے درمیان ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی نوبت آگئی تو اس سے ہونے والی تباہی کا صرف تصور ہی کیاجاسکتاہے،اور ایٹمی اسلحہ کی باقیات استعمال کرنے کی صورت میں تو انسان کا وجود ہی مٹ جائے گا۔
امریکا کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اور اس کے بعد صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے غالبا ً ایٹمی اسلحہ کی اس تباہ کاری پر غور ہی نہیں کیاہے اور ایٹمی اسلحہ کے اس تباہ کن پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کیے رکھا ہے۔انتخابی مہم کے دوران دونوں میں سے کسی بھی امیدوار نے کبھی یہ بھی ظاہرنہیں کیا کہ انھیں ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاریوں اور اس کے استعمال کے خوفناک نتائج کا علم ہے۔انھوںنے اس بات کابھی اظہار نہیں کیا کہ آخر کن حالات میں وہ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کا آپشن استعمال کرنے پر غور کریں گے،یا اس کے استعمال کی اجازت دیں گے۔اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران یہ سوال اٹھاتے رہے کہ جب ہمارے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے تو ہم اسے استعمال کیوں نہیں کرسکتے ؟ اور آخر مزید ممالک کو اس کی تیاری کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی۔تاہم وہ اس دوران مشرق وسطیٰ یا یورپ میں ایٹمی اسلحہ کے استعمال کے امکان کے بارے میں سوالات کاجواب دینے سے مسلسل گریز کرتے رہے۔
ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاری کی قوت کا تقاضہ ہے کہ ان کے استعمال کا آپشن کبھی اختیار نہیں کیاجانا چاہیے،کیونکہ دنیا کے پاس اس کے متبادلات موجودہیں۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں انسان کا وجود ختم ہوجانے کے خطرات کے پیش نظر دنیا کے ایٹمی اسلحہ نہ رکھنے والے ممالک، دنیا بھر کی میڈیکل ایسوسی ایشنز اور بین الاقوامی ریڈ کراس سمیت دنیا بھر کی سول سوسائٹیز بہت پہلے ہی ہوش میں آچکی ہیں اور کافی عرصے سے ایٹمی اسلحہ کی تباہ کاری کی قوت اور صلاحیت کے پیش نظر ان کو کسی بھی صورت میں استعمال نہ کئے جانے کی تلقین کررہی ہیں۔ دنیا کے 123 ممالک نے جو دنیا کی مجموعی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں، ایٹمی اسلحہ کے استعمال پر پابندی کے معاہدے کا مطالبہ کیاہے جس پر اگلے سال اقوام متحدہ میں غور کیاجائے گا۔ان ممالک کی تجویز کے مطابق ایٹمی اسلحہ سمیت دنیا بھر میں تمام انتہائی ہلاکت خیز اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے جن میں کیمیائی اور حیاتیاتی بم اور بارودی سرنگیں بھی شامل ہیں، کے استعمال اور تیار ی پر مکمل طورپر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کریں گے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایٹمی اور دیگر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی تیاری اور استعمال پر پابندی کی اس تجویز کی نہ صرف حمایت کریں بلکہ اس تحریک کی قیادت کریں ۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ویژن کے اعتبار سے عظیم شخصیت کے مالک ہیں، اب یہ فیصلہ انھیں خود کرنا ہے کہ وہ انسانیت کو ہلاکت اور تباہی سے بچانے میں مدد دینے والے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کو ترجیح دیں گے یا ایک ایٹمی قوت کے مالک روایتی عظیم ملک امریکا کے روایتی صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے اوردنیا کی تباہی اور بربادی کے منصوبوں میں برابر کے حصہ دار کہلانا پسند کریں گے؟دنیا بالخصوص بنی نوع انسان کو ان کے فیصلے کاانتظار رہے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر