وجود

... loading ...

وجود

زرداری کی نرم گرم پالیسی کیا پیپلز پارٹی وکٹ کے دونوں جانب کھیلے گی …؟

جمعه 30 دسمبر 2016 زرداری کی نرم گرم پالیسی کیا پیپلز پارٹی وکٹ کے دونوں جانب کھیلے گی …؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈی فیکٹو سربراہ آصف علی زرداری بھی بالآخر 18 ماہ بعد وطن واپس آگئے ،لیکن ان کی آمد سے قبل جو فضا بنائی اور ماحول تیار کیاگیاتھا ، صورتحال اس کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔اس سے قبل آصف زرداری اپنی ایک اشتعال انگیز تقریر کے بعد خاموشی سے بیرون ملک روانہ ہوگئے تھے ،ان کی روانگی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی وقت یہ رائے قائم کرلی گئی تھی کہ اب آصف زرداری کم از کم جنرل (ر)راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک وطن واپس نہیں آئیں گے ، اس طرح لوگوں کایہ خیال درست ثابت ہوا اور آصف زرداری جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک بڑے اطمینان وسکون سے دبئی میں بیٹھے موسم اور سیاست دونوں کے مزے لیتے رہے، اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد انھوں نے وطن واپسی کے لیے پر تولنا شروع کردیے تھے۔
آصف زرداری کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی ملک میں گرماگرمی کاماحول تیار کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور خود پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے یہ تاثر دیاجاتارہاکہ آصف زرداری وطن واپس آتے ہی موجودہ حکومت اور خاص طورپر وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف طبل جنگ بجادیں گے اور کراچی اورلاہور کی سڑکوں پر دمادم مست قلندر شروع ہوجائے گا، موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کو یہ امید بندھ چلی تھی کہ اگر آصف زرداری موجودہ حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہ ہوئے تو کم ازکم نواز شریف کو قبل از وقت انتخابا ت کرانے اور موجودہ عوام دشمن پالیسیاں ترک کرکے عوام کے مسائل پر توجہ دینے پر مجبور کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے،ان کی آمد سے قبل بلاول بھٹو نے نواز شریف کو 27 دسمبر تک اپنے پیش کردہ 4 نکات منظور کرنے کاالٹی میٹم دے رکھا تھااور واضح طورپر اعلان کیا تھا کہ اگر 27 دسمبر تک ان کے پیش کردہ 4نکات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور دمادم مست قلندر کرنے کے لائحہ عمل کا اعلان کردیں گے۔اس لیے عام طورپر تاثر یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اس موقع پر کسی تحریک کا اعلان کردیا جائے گا اور اس طرح گڑھی خدا بخش کا جلسہ اس حکومت کے خلاف تحریک کانقطہ آغاز ثابت ہوگا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد،کے مصداق کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔آصف زرداری وطن واپس آئے ،انھوں نے اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو کی 9ویں برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش میں اپنے ہونہار بیٹے کے ساتھ ایک بڑا جلسہ بھی کیا لیکن کسی کو ان کے لہجے میں اس گھن گرج کاشائبہ تک نظر نہیں آیا ،ان کی آمد سے قبل عوام کو جس کی توقع دلائی جارہی تھی۔اس طرح آصف زرداری کی آمد سے پاکستان کی سیاست میں جس ہلچل کی امید کی جارہی تھی وہ آصف زرداری کی جانب سے ضمنی الیکشن لڑ کر اسمبلی میں جانے کی خواہش کے اظہار کے ساتھ ہی دم توڑ گئی،کیونکہ ان کے اسمبلی میں جاکر پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے اعلان سے یہ ثابت ہوگیاکہ پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلاکر نواز شریف کے لیے مسائل کھڑے کرنے اور ان کوقبل از وقت الیکشن کرانے پر مجبور کرنے کاکوئی ارادہ نہیں رکھتی۔گڑھی خدا بخش کے بظاہر بڑے لیکن پھسپھسے جلسے کے بعد خود پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں نے زرداری کے لب ولہجے کی نرمی پر تعجب کااظہار کیاجب کہ آصف زرداری کے قریبی حلقوں کاکہناہے کہ یہ بھی آصف زرداری کی ایک چال تھی۔ان کاکہناتھا کہ حکومت اور مقتدر طبقوں کے نمائندگان کے ساتھ زرداری پس پردہ طویل مذاکرات کے بعد بعض یقین دہانیاں حاصل کرنے اور بعض یقین دہانیاں کرانے کے بعد پاکستان آئے ہیں تاکہ یہاں رہ کر بظاہر بکھرتی اور سکڑتی ہوئی پارٹی کو دوبارہ مجتمع اور فعال کرسکیں۔ زرداری کے قریبی حلقوں کا یہ بھی کہناہے کہ آصف زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما خود بھی فوری طورپر حکومت کی بساط لپیٹنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اس طرح اگر فوری طورپر قبل از وقت انتخابات کااعلان کردیاگیا تو پیپلز پارٹی کو ایک دفعہ پھر پہلے سے بھی زیادہ شرمناک ناکامی کاسامنا کرنا پڑسکتاہے۔جس سے پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے اور ملک کی ایک بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے اس کا وجود ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
18 ماہ کی طویل غیر حاضری کے بعدوطن واپسی اور پارٹی کے اہم رہنمائوں کی جانب سے کیے گئے ان اعلانات کے باوجود کہ آصف زرداری وطن واپسی پر سیاست کی بساط پلٹ دیں گے ،ان کے دھیمے اور مفاہمانہ لب ولہجے سے ان قیاس آرائیوںاور زرداری کے قریبی حلقوں کی جانب سے کی جانے والی مذکورہ باتوں کوتقویت ملی ہے اوریہ صاف ظاہرہورہاہے کہ آصف زرداری باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت واپس آئے ہیں اور ان کی وطن واپسی سے قبل ہی ان کی حکومت کے ساتھ ڈیل ہوچکی ہے بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ وہ بظاہر حکومت پرتنقید کے باوجود درپردہ حکومت کی حمایت کریں گے اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت اور شریف برادران کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے اور پاناما کے مسئلے کو بنیاد بناکرانھیں اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوششوں کوناکام بنانے کے لیے اپوزیشن کوتقسیم کرکے نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔
سیاسی حلقے بھی اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی فوری طورپر کم از کم سندھ سے باہر کہیں بھی انتخابی دنگل میں اترنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ زرداری نے فوری طورپر حکومت کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلانے کا اعلان کرنے کے بجائے اسمبلی میں جاکر پارلیمانی سیاست کرنے کا اعلان کیاہے ،زرداری کی اس حکمت عملی سے انھیں دو فائدے حاصل ہوں گے ،ایک طرف وہ رکن اسمبلی اور ان کابیٹا اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے حکومت کو مناسب پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرنے پر مجبور کرسکیں گے اور سرکاری خرچ پر اطمینان سے بیٹھ کر پارٹی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے اور دوسری طرف انھیں 2018 میں ہونے والے مجوزہ انتخابات کے لیے پارٹی کو منظم کرنے اوراپنے کارکنوں کو فعال کرنے کاموقع مل سکے گا ،اس طرح ڈیڑھ سال بعد جب وہ انتخابی دنگل میں اتریں گے تو ان کے پاس اس وقت سے زیادہ بھرپور طاقت موجود ہوگی اور وہ اسمبلیوں میںکم از کم ایک مضبوط حزب اختلاف کی حیثیت حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
جہاں تک وزیر اعظم نواز شریف کا تعلق ہے تو اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ زرداری کی وطن آمد کے بعد متوقع سیاسی ہلچل نے ان کی پریشانیوں میں ضرور اضافہ کیاہے اور پاناما کامسئلہ دبانا یا اس پر کارروائی موخر کرانے میں ناکامی کے بعد اب انھیں اپنا تخت ہر لحظہ زیادہ سے زیادہ کمزور ہوتا نظر آرہاہے یہی وجہ ہے کہ انھوںنے اپنی سابقہ ’’میں نہ مانوں‘‘ اور جو میں کہوں وہی صحیح کی روش تبدیل کرنا شروع کردی ہے اور اپوزیشن سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقوں سے رابطوں کاسلسلہ شروع کردیاہے جس کا اندازہ نواز شریف کی جانب سے سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں اور مفاہمت کے لیے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی خدمات حاصل کیے جانے اور انھیں علی الاعلان اپوزیشن سے مفاہمت کی کوششیں کرنے کی ہدایت سے کیاجاسکتاہے، اب یہ الگ بات ہے کہ انھوںنے جس شخصیت کو مفاہمت کرانے یعنی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ثالثی کی ذمہ داری سونپی ہے وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتاہے اور اپوزیشن کی جماعتیں اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار کرتی ہیں کیونکہ جو شخص خود اپنی پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے اورملک کے مقتدر علمائے کرام کو پارٹی چھوڑ کر اپنا الگ دھڑا بنانے سے روکنے میں کامیاب نہ ہوسکاہواور خود اپنے دیرینہ ساتھیوں کے ساتھ مفاہمت میں ناکام رہاہو وہ نواز شریف اور ایک مشتعل اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کرانے میںکیاکردار ادا کرسکے گا ،اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔تاہم اس پوری صورتحال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آئندہ چند دنوں میں فیصلہ ہوجائے گا کہ پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف تحریک چلائے یا کچھ لو اور کچھ دو کی مفاہمت کی پالیسی پر کاربند رہے ،اگلے چند ماہ حکومت کے لیے انتہائی کٹھن ثابت ہوں گے اور حکومت کے لیے اپوزیشن کی جانب سے تحریکوں اور عوامی احتجاجوں کی نئی لہر سے نمٹنا آسان کام نہیں ہوگا۔
ایسی صورت میں نواز شریف اور ان کے بعض بڑ بولے اوربھڑک مارنے کی بے مثال شہرت رکھنے والے ساتھیوں کو اپنی پرانی روش ترک کرکے زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار کرنے اور معاملات کو طاقت کے زور پر طے کرنے یادبانے کے بجائے افہام و تفہیم کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر حکومت اور خود نواز شریف کو اس کے منفی نتائج سے خود کو محفوظ رکھنا شایدممکن نہ ہوسکے۔


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر