وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’کلبھوشن ‘‘ نیٹ ورک کا شاخسانہ 5برسوں میں کوئٹہ کو 4سو سے زائد لاشوں کا تحفہ

منگل 08 نومبر 2016 ’’کلبھوشن ‘‘ نیٹ ورک کا شاخسانہ 5برسوں میں کوئٹہ کو 4سو سے زائد لاشوں کا تحفہ

حکومت کلبھوشن یادیو گرفتاری کے باوجوداس سے حاصل ہونے والی معلومات سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے،دہشت کارروائیاں جاری
بھارت بلوچستان کے عوام میں عدم تحفظ اور احساس محرومی کو بڑھاوا دے کر اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرنے میں مصروف،پاکستانی حکمراں خواب غفلت میں مدہوش
baloch-sarmacharبلوچستان کے غریب اور کم وسیلہ عوام ان دنوں شدید عدم تحفظ کی کیفیت کاشکار ہیں جس کی وجہ سے ان میں عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ہی احسا س محرومی اور مجبوری بھی بڑھتا جارہاہے ، اس کی بنیادی وجہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے پے درپے واقعات میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے باوجود ان کے تحفظ کیلیے موثر اور مربوط اقدامات میں حکومت کی ناکامی ہے ۔صورتحال کی سنگینی کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ کم وبیش 5سال سے کوئٹہ شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،ابتدا میں دہشت گرد کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو جن کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے ، نشانہ بناتے رہے اور ارباب اختیار اسے فرقہ وارانہ قتل کا نام دے کر معاملے کی مبینہ طورپرپردہ پوشی کرتے رہے لیکن شیعہ برادری کے ارکان کے قتل کے پے درپے واقعات کے بعد حکومت کی جانب سے ان کے تحفظ کیلیے کچھ اقدامات کیے گئے جنھیں اگرچہ کافی نہیں کہاجاسکتا لیکن حکومت کی جانب سے کیے گئے ان اقدامات کے بعد ہزارہ شیعہ برادری کے قتل کے واقعات تقریباً رک گئے لیکن اس کے بعد اب دہشت گردوں کانشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے قیام کے بنیادی علمبردار وکلا برادری کے لوگ بن چکے ہیں ، اس کے علاوہ کوئٹہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کیلیے دوسرے صوبوں سے کوئٹہ اوربلوچستان کے دوسرے علاقوں میں جانے والے ماہرین تعلیم اور روزگار کی تلاش میں دیگر صوبوں سے بلوچستان جانے والے محنت کش اب بھی ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں اور ان کی جان ومال کے تحفظ کیلیے ابھی تک وفاقی اور خود بلوچستان حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں جنھیں قابل اطمینا ن قرار دیا جاسکے۔تاہم گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ دہشت گردوں کااصل نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ، اور اہم سرکاری تنصیبات ہیں جن میں گیس کی پائپ لائنیں اور بجلی کے ترسیلی نظام کیلیے استعمال کی جانے والی تنصیبات ہیں۔
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات سے متعلق سرکاری اور اخباری ریکارڈ کے مطابق 2جون 2012 کو کوئٹہ کے ہزار گنجی کے علاقے میں زیارت سے واپس آنے والے شیعہ ہزارہ برادری کی ایک بس کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اور بس میں سوار 14 افراد کو قتل کردیا ۔2013 میں کوئٹہ دہشت گردوں کا خصوصی نشانہ بنا رہا جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ 10 جنوری کو دہشت گردوں نے علمدار روڈ پر ایک اسنوکر کلب کو نشانہ بنایا، اسنوکر کلب میں 2خود کش دھماکے ہوئے اور کم وبیش 92 افراد لقمہ اجل بن گئے ، ابھی ان کا سوگ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ 16 فروری کو ہزارہ ٹاؤن میں واٹر ٹینکر کے ذریعے دھماکا کیا گیا جس کے نتیجے میں 89 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔15 جون 2013 کو دہشت گردوں نے سردار بہادر ویمنز یونیورسٹی کی ایک بس کو خود کش دھماکے کانشانہ بنایا جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے عملے کے ارکان سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت طالبات کی تھی ۔8 اگست 2013 کو نواں کلی کے علاقے میں ایک ایس ایچ او کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا اورجب مقتول ایس ایچ او کی نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی اس وقت پولیس لائن میں ایک خود کش دھماکہ کیاگیا جس کے نتیجے میں نماز جنازہ میں شریک ڈی آئی جی فیاض سنبل سمیت 30 افراد ہلاک ہوگئے ۔
دہشت گردی کی ان وارداتوں کاسلسلہ اگرچہ 2014 میں بھی جاری رہا لیکن اس میں کسی حد تک کمی اور ٹہراؤ محسوس کیا گیا لیکن دہشت گرد خاموش نہیں بیٹھے اور 14 مارچ 2014 کو انھوں نے ایک بس میں بم نصب کرکے دھماکا کردیا اور اس طرح حکام کو یہ احساس دلادیا کہ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے ہیں اور ان کی تخریبی سرگرمیاں جاری ہیں ، سائنس کالج کے قریب بس میں اس دھماکے کے نتیجے میں 10افراد ہلاک ہوئے ۔2015 کوئٹہ کے شہریوں کیلیے اس اعتبار سے پرسکون کہاجاسکتا ہے کہ 2015 کے دوران صرف 19 اکتوبر کو دہشت گردی کا صرف ایک بڑا واقعہ ہوا جب 19 اکتوبر 2015 کو دہشت گردوں نے ایک بس ٹرمینل کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے ۔
2016 یعنی رواں سال کے دوران کوئٹہ میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ایک دفعہ پھر تیزی نظر آرہی ہے جس کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ14 جنوری 2016 کو سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مأمور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں 13 پولیس اہلکاروں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے،7 فروری کو ملتان چوک کے نزدیک سیکورٹی فورس کے ایک قافلے کو نشانہ بنایاگیا جس کے نتیجے میں9افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، 8اگست 2016 کو دہشت گردوں نے ڈسٹرکٹ بار کوئٹہ کے صدر کو نشانہ بنایا اور جب ان کے ساتھی وکلا ان کی لاش لینے سول ہسپتال پہنچے تو سول ہسپتال کوئٹہ کو خود کش حملے کانشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں70سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے۔5اکتوبر کو مسلح دہشت گردوں نے کیرانی روڈ پر ایک بس میں گھس کر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 4خواتین کی زندگیوں کاچراغ گل کردیا اور پھر 25 اکتوبر کو مبینہ طور پر صرف 3سے 6 دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوکر زیر تربیت پولیس اہلکاروں کاقتل عام کیا جس کے نتیجے میں 62 پولیس کیڈٹس جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔
دہشت گردی کے واقعات کے تسلسل سے متعلق مذکورہ بالا اعدادوشمار صرف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ہیں اور اس میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں جن میں ڈیرہ بگٹی ، آوران ،تربت اور مری اور مینگل قبائل کے علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے متعلق اعدادوشمار شامل نہیں کیے گئے ہیں کیونکہ دوردراز واقع ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کی خبریں کم ہی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوپاتی ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں ہونے والے تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات اور اس سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے درست اعدادوشمار کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے ،تاہم ان اعدادوشمار سے بھی یہ ظاہرہوتا ہے کہ ہمارا پوشیدہ دشمن جو کہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بڑی حد تک بے نقاب ہوچکاہے ،بلوچستان کے عوام میں عدم تحفظ کا احسا س پیدا کرکے ان میں موجود محرومی اور مجبوری کے احساس کو بڑھاوا دینے اور اس کے بعد نوجوان اور کچے ذہنوں کو اپنے مقاصد کیلیے استعمال کرنے کی منظم منصوبہ بندی کے تحت کارروائیوں میں
مصروف ہے بلکہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد ایک چوٹ کھائے ہوئے سانپ کی طرح وہ پاکستان کو جلد از جلد سبق سکھانے کے درپے ہے جبکہ ہمارے ارباب اختیار کلبھوشن سے حاصل ہونے والی معلومات سے بھی پوری طرح استفادہ کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔
ارباب اختیار کو بلوچستان کی جانب سے تجاہل مجرمانہ کا یہ رویہ ترک کرکے بلوچستان کے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ہی ان کو تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کابھی مربوط اور موثر انتظام کرناچاہئے اور جس طرح تخریب کار اور دہشت گرد اپنی کارروائیوں کیلیے سرکاری اداروں اور سیکورٹی فورسز کے نرم اور نسبتا نظرانداز کیے گئے اہداف تلاش کرکے کاری وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو بھی ایسے مقامات کی ترجیحی بنیاد پر نشاندہی کرنی چاہئے جنھیں بآسانی تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کے واقعات کیلیے نرم چارے کے طورپر استعمال کیے جانے کاخدشہ ہو اور حکومت کو انٹیلی جنس اداروں کی اس حوالے سے تیار کی گئی رپورٹوں کو مزید کارروائی کیلیے صوبائی حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے کو فراہم کرکے خود کو بری الذمہ تصور کرنے کے بجائے وفاق کی سطح ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے تاکہ ملک دشمن عناصر کسی بھی احتیاطی تدابیر میں تاخیر کافائدہ اٹھا کر لوگوں کو خون میں نہلانے کی بزدلانہ کوششوں میں کامیاب نہ ہوسکیں۔


متعلقہ خبریں


فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر