وجود

... loading ...

وجود
وجود

سبز شربت

جمعه 28 اکتوبر 2016 سبز شربت

جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی میری آنکھیں ہوں گی، جتنے چہرے اچھے ہوں گے میرے چہرے ہوں گے ،اتنی آنکھیں اتنے چہرے کیسے یاد رکھو گے۔ہم روز درجنوں چہرے دیکھتے ہیں ، راستے میں ،بازار میں ،ٹی وی پر روز کتنے ہی نئے چہرے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم انہیں بھلا دیتے ہیں۔دنیا میں کروڑوں لوگ ہیں ،کروڑوں چہرے ہیں لیکن سب چہرے بھلا کہاں یاد رکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ چہرے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ذہن میں چپک جاتے ہیں ، یاد میں نتھی ہو جاتے ہیں ، خیال میں بس جاتے ہیں۔یہ ہمارے پیاروں کے چہرے ہوتے ہیں، ان لوگوں کے چہرے جن سے ہم بے غرض پیار کرتے یا جو ہم کو بلا کسی سود و زیاں کے چاہتے ہیں۔ایسے چہرے ہی تو یاد رہ جاتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی چہرہ ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا ہے ،اس چہرے میں کوئی ایسی خاص بات ضرور ہوتی ہے جو ہمیں یاد رہ جاتی ہے۔اور کوئی کوئی چہرہ تو دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کر لیتا ہے،کسی چہرے کو دیکھ کردنیا حیرت کی تصویر بن جاتی ہے۔شربت گل کا چہرہ بھی ایک ایسا ہی منفرد اور جادو اثر چہرہ تھا جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرلی تھی۔نیشنل جیو گرافک میگزین کے سرورق پر اس افغان لڑکی کی تصویر1984 میں شائع ہوئی تھی ،فوٹو گرافر میک کری کی کھینچی گئی اس تصویر نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر لی تھی، جنگ زدہ ملک ویسے بھی دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں میں تھا ایسے میں شربت گل کی سبز آنکھوں نے دھوم مچا دی تھی۔وہ آنکھیں ایسی ہی تھیں جن میں خوبصورتی ،یاسیت ،فریاد اور امنگ بیک وقت موجود تھی۔نیشنل جیو گرافک میگزین میں شربت گل کی تصویر چھپنے کے بعد دنیا بھر میں اس کی خوبصورت سبز آنکھوں کو سراہا گیا اور کچھ لوگوں نے اس کو افغان مونا لیزا کا خطاب بھی دے ڈالا۔شربت گل کو دوسری بار شہرت اس وقت ملی جب 2002میں فوٹو گرافر میک کری شربت گل کی تلاش میں پشاور پہنچا۔شربت گل 1984 میں کابل سے پشاور کے ایک افغان کیمپ میں ہجرت کرکے پہنچی تھیں۔میک کری نے سبز آنکھوں والی اس لڑکی کی پہلی تصویر بھی پشاور کے مہاجر کیمپ میں لی تھی اور پھر اس فوٹوگرافر نے تقریبا اٹھارہ سال بعد شربت گل کو تلاش کر ہی لیا۔ اس بار بھی شربت گل کی تصویر نے شہرت حاصل کی لیکن اس بار اس تصویر میں بے وطنی، غربت اور بے سروسامانی صاف چغلی کھا رہی تھی۔شربت گل افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں میں سے ایک ہے۔ جو آج پینتیس سال بعد بھی اپنے وطن کے بجائے پاکستان میں مقیم ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز افغان مہاجرین کے حوالے سے موثرپالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے ،یہاں کسی کو پتا ہی نہیں کتنے افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ،اور وہ کیمپوں کے علا وہ کہاں کہاں بستے ہیں۔انہوں نے اپنے کاغذات بنائے اور پاکستانی قومیت کے دستاویز حاصل کیے ،اور پھر نہ صرف جائیدادیں خرید یں بلکہ وسیع وعریض کاروبار کے مالک بھی بن گئے۔ لیکن شربت گل تو کوئی کاروبار نہیں کررہی ، نہ ہی اس کی کوئی ملازمت ہے ، گردش افلاک کی ماری سبز آنکھوں میں مستقبل کے خدشات بستے ہیں یا صبح کو شام کرنے کی فکر رہتی ہے۔ شربت گل کی ایک اور تصویر آج کل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے ، لیکن یہ تصویر میک کری نے نہیں بلکہ کسی پاکستانی رپورٹر نے پشاور کے کسی تھانے میں کھینچی ہے جہاں شربت گل بند ہے۔ شربت گل کو پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس کا اور اس کے دو بیٹوں کا پاکستانی شناختی کارڈ 17اپریل2014کو ایک ہی روز جاری کیا گیا۔شاید مشہور ہونا ہی شربت گل کا قصور تھا ، ورنہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اٹھارہ سے بیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ۔ذرائع کہتے ہیں اکثرافغان مہاجرین کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود ہے اور وہ پاکستان میں کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔ لیکن شربت گل کی سبز آنکھوں کی وحشت یا شائد نحوست نے اب تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر