وجود

... loading ...

وجود
وجود

جدید تعلیم اور نصاب

هفته 17 ستمبر 2016 جدید تعلیم اور نصاب

curriculum

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم پر گفتگو میں یہ پہلو سرے سے موجود نہیں ہے۔ قومی تعلیم پر داد سخن ایک مستقل سرگرمی ہے لیکن عموماً یہ نصاب سے شروع ہوتی ہے اور نصاب پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ہماری قومی بدنصیبی تو ہے ہی، لیکن تعلیم کے لیے بھی کوئی نیک فال نہیں ہے۔ اس مختل تناظر کی وجہ سے ہماری تعلیم کبھی سیدھی نہیں ہو سکی اور نہ ہو سکتی ہے۔ گزارش ہے کہ جس صورت حال کو بہتر کرنا، یا اسے یکسر تبدیل کرنا مطلوب ہو، اس کا درست تجزیہ ہی نئے عمل کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر جدید تعلیم کو نصاب کے مساوی سمجھا جاتا ہے اور اس موقف پر کھڑے ہو کر جدید یا روایتی تعلیم کے بارے میں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس صورت حال کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ایک بڑا سا موٹروے ہے، اس موٹروے پر ایک بس دوڑتی چلی جاتی ہے، اس بس میں بہت سی سیٹیں ہیں، ان سیٹوں پر بچے بیٹھے ہیں، ان بچوں کے پاس بستے ہیں، ہر بستے میں پانچ سات کتابیں ہیں۔ ہمارے اہل نظر کا خیال ہے کہ ہر بستے کی دو تین کتابیں بدل دینے سے یہ سارا نظام بدل جائے گا۔

جدید تعلیمی نصاب چند موضوعات اور مضامین پر متون کا مجموعہ ہے۔ یہ مضامین معاشرے کی عملی اور معاشی زندگی میں اہم خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن جدید عہد میں متن کی بدحالی پر گفتگو کیے بغیر نصاب کا مسئلہ طے نہیں ہو سکتا۔ جدید عہد میں متن واقعے کی پیداوار ہے، یعنی جدید عہد میں متن واقعہ کے تابع ہے۔ یہ ”واقعہ“ فطری، ارضی، سائنسی، نفسی یا ذہنی ہو سکتا ہے۔ اور یہ واقعات بہت ہی تیزی سے بدلتے اور بدلے جاتے ہیں۔ جدید پیداواری وسائل متن کو ان کے تابع اور ہم قدم رکھتے ہیں۔ زمانے کے مطابق، جدید تعلیم میں شامل متون اور نصابات از اول تا آخر، بلا اطلاع مکمل طور پر بدل جاتے ہیں، اور سابقہ متون بیک آن و بیک قلم متروک ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ جدید تعلیم کے مجموعی عمل میں متن مقدس ہے نہ مستقل، اور نہ ہی اس کا معنی مقدس اور مستقل ہے۔ جدید تعلیم میں متن اور نصاب کی حیثیت ایک کنویئر بیلٹ (conveyer belt) کی ہے جو نئے معانی کے بسکٹ بچے تک پہنچاتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اس بیلٹ کا ڈیزائین اور رفتار تبدیل ہو جاتی ہے اور بسکٹ بھی نیا آ جاتا ہے۔ جدید تعلیم کا مقصد اور طریقۂ کار یہی ہے۔ جدید تعلیم میں متن و معنی مطلوب و مقصود نہیں ہیں، محض آلاتی ہیں۔ جدید نصابات بچے کے ذہن کی نئی تنظیم کاری کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مذہبی متون کے ساتھ یہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟ جدید عہد میں ہمارے ہاں مذہبی متون کا آلاتی استعمال بھی جدید تعلیم کی نحوست کا اثر ہے۔

جدید تعلیم متن اور نصاب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کا مقصد دو چیزوں کو مسلسل مٹاتے چلے جانا ہے۔ خارج میں روایت اور تاریخ، اور داخل میں حافظہ۔ جدید تعلیمی نظام متن اور نصاب کو بہت مہارت سے استعمال کرتا ہے تاکہ بچے کا روایت اور تاریخ سے کوئی تعلق باقی نہ رہے، اور وہ لیبارٹری تک محدود ہو جائے، اور روایت جس چیز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ اس بچے کی رسائی میں نہ رہے۔ دوسری طرف یادداشت اور حافظے کو جدید تعلیم میں کوئی اہمیت دینا ناپسندیدہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ جدید تعلیم میں نصاب یا کسی تدریسی طریقے کا پرانا اور مندرس (out of date) ہونا بہت ہی بڑا عیب ہے۔ جدید تعلیم، نصاب کے ذریعے تاریخ اور روایت کے ذکر ہی کو شرم ناک بنا دیتی ہے، اور حافظے پر انحصار کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ جدید تعلیم کے ذریعے روایت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے اور حافظے کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ذہن میں کوئی ”متعین“ چیز باقی نہ رہے۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو فرد مکمل طور پر سیاسی، معاشی اور میڈیائی قوتوں کے جھکڑ میں ریگ رواں بن جاتا ہے۔

جدید تعلیم اور نصاب میں تخلیقی عمل اور رویوں پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ تخلیقی عمل کا مرکز جمالیاتی تجربہ ہے، اور تخلیقی عمل نفس انسانی کی آزادی اور حریت کا اظہار ہے۔ جدید تعلیم جسے تخلیقی عمل قرار دیتی ہے، وہ دراصل ابداع (innovation) ہے، یعنی ایک ہی معلوم چیز کے کئی نمونے اور ڈیزائین بنانا۔ ابداعی عمل دراصل مارکیٹ کی ضرورت کے تابع اور کاروباری نوعیت کی سرگرمی ہے۔ جدید تعلیم میں سکھایا جانے والا تخلیقی یا ابداعی عمل حافظے اور فہم میں بھی ایک جدلیات پیدا کر دیتا ہے۔ اس طریقۂ کار کا مقصد پرانی چیز کی تنقیص کرنا اور نئی چیز کی تعظیم سکھانا ہے۔ اس رویے اور ذہنیت میں ”پرانا ہونا“ ازخود اور بغیر دلیل کے مذموم ہو جاتا ہے۔ آگے چل کر یہی چیز فیشن، نئے ماڈل، اور نئی نئی مصنوعات کو قبولیت دے کر کاروبار میں معاون ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں استعمار کی عطا کردہ جدید تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ”مذہبی حافظہ“ کباڑ خانہ بن گیا، اور جدید ذہن بالکل ہی بنجریلا اور میکانکی ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حافظے اور ذہن میں زندہ نسبتیں تلاش کی جاتیں، کیونکہ اپنی کوئی چیز بنانے میں محنت کرنا پڑتی ہے اور یہ محنت ہم پر بہت گراں گزرتی ہے۔

جدید تعلیم کا تدریجی عمل متن کے ساتھ بچے کے نفسی رویے اور ذہنی تعلق کو تبدیل کر دیتا ہے۔ تعلیم میں جدید نصاب کی حیثیت کو دیکھے بغیر ان کی جگہ یا ان کے ہم پہلو مذہبی متون رکھنے سے ہمارے اعتقادی اور اخلاقی مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے۔ بطور مسلمان ہم جس متن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کسی تاریخی واقعے کا پیدا کردہ نہیں ہے، نہ کسی واقعے کے تابع ہے، نہ انسانی شعور کا پیدا کردہ ہے، نہ انسانی شعور کے تابع ہے، نہ وہ جدید ہے، نہ وہ مندرس ہے۔ وہ حق ہے، حق کا اظہار ہے، اور ہدایت ہے۔ جدید تعلیم کا متن صرف ذہن کے لیے ہے جبکہ مذہبی متن کا مخاطب صرف ذہن نہیں، پورا انسان ہے۔ جدید تعلیم کا نصاب بچے کو زمانے کی ہمقدمی سکھاتا ہے اور بہت جلد یہی زمانہ اس کے ذہن اور عمل کا مقتدا بن جاتا ہے۔ مذہبی متن کو زمانے کی ہمقدمی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ زمانے کی مقتدائیت کو رد کرتا ہے۔ جدید تعلیم انسان کو مرکبِ ایام (زمانے کی سواری) بنا دیتی ہے، جو عبد کے دینی تصور کی ضد ہے۔

لارڈ میکالے نے جب تعلیم کو ریاستی اختیارات کے ذریعے باقاعدہ حیثیت دی، اور اسے ”تعلیمات عامہ“ بنا دیا تو اس میں ایک نہایت بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ ہماری زبانوں کو بالکل تباہ کر دیا جائے۔ کچھ زمانے تک ہمیں اس کا خفیف سا احساس رہا، لیکن بہت جلد ہم خود عین اسی ایجنڈے پر کاربند ہو گئے۔ یعنی جدید تعلیم کے ذریعے اپنی زبانوں کی مکمل تباہی اب ہمارا مقصد بھی ہے۔ آج ہماری زبانوں کی تباہی مکمل ہو گئی ہے اور اس پر فخر ہمارے کلچر کی بڑی روایت بن گئی ہے۔ گولی سے جسم ہلاک ہوتا ہے اور زبان کو متن سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ زبان کی ہلاکت دراصل انسانی شعور کی ہلاکت ہے۔ جدید تعلیم کے طریقۂ کار اور نصابوں سے آج لارڈ میکالے کا منصوبہ پورا ہو گیا ہے اور ہماری زبانیں اور ہمارا شعور ہلاکت میں ہیں۔ ہم اپنی تہذیب اور شعور کے ملبے سے بس ایک بستہ بچا لائے ہیں، اور اسی کی مجاوری پر خوش ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ذہنی اور ثقافتی وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیں، جن سے یہ بچا کھچا بستہ ہمارے شعور کی رگِ زندگی اور ہماری تہذیب کی اصلِ حیات بن سکے؟ نصاب کا سوال ضمنی ہے، اور شعور اور تہذیب کی زندگی کا سوال بنیادی ہے۔ نصاب درست ترتیب اور تناظر ہی میں بامعنی ہوتا ہے۔ آج ہماری یہ ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔


متعلقہ خبریں


یکساں نصاب کیلئے کسی ایک کتاب کو بطور ٹیکسٹ بک لازمی پڑھانے کی پاپندی ختم وجود - اتوار 03 اکتوبر 2021

سنگل نیشنل کریکولم پر بڑا فیصلہ کر لیا گیا، یکساں نصاب کیلئے کسی ایک کتاب کو بطور ٹیکسٹ بک لازمی پڑھانے کی پاپندی ختم کر دی گئی ، سنگل نیشنل کریکولم فریم ورک کے تحت پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں پر این او سی دینے کی لازمی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ حکومت نے سنگل نیشنل کریکولم کے تحت س...

یکساں نصاب کیلئے کسی ایک کتاب کو بطور ٹیکسٹ بک لازمی پڑھانے کی پاپندی ختم

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل وجود - جمعرات 05 مئی 2016

امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر