وجود

... loading ...

وجود
وجود

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جمعه 16 ستمبر 2016 جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ہے۔ معلوم ”نصوص“ کے ساتھ ہمارا روزمرہ عملی رویہ، ان کی تشریحاتی غارت گری، اور ان کا آلاتی استعمال ہمارے انہدام شعور، نفسی گراوٹ اور نظری علوم کے خاتمے ہی پر دلالت کرتا ہے۔ ”نص“ ہمارے لیے اب ”پیکر محسوس“ کا کام کرتی ہے، اور اسے ”دیکھ“ کر بس خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کی ہمارے ذہن سے علمی نسبتیں، نفس سے اخلاقی نسبتیں، وجود سے حق کی نسبتیں کمزور پڑ گئی ہیں، یا معدوم ہو گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوئی ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے فقہ الاکبر کے تناظر میں ہم اپنے دینی عقیدے کے ساتھ جڑی ہوئی نظری علم کی روایت کو نہ سمجھتے ہیں، نہ اس کی طرف مڑ کر دیکھنے کے روادار ہیں، اور نہ ہمیں اس میں کوئی دلچسپی باقی رہی ہے۔ عہد زوال میں نظری علوم سے لاتعلقی اور پھر نفرت کی وجہ سے ہم ”عرفان“ کی طرف مائل ہو گئے۔ لیکن نظری علوم سے دشمنی کی فضا میں عرفان پر طبع آزمائی ایسے ہی ہے جیسے آدمی ہوائی جہاز کی دم سے رسی باندھ کر اس پر ”سوار“ ہو جائے۔ آغاز ہی میں جملہ معترضہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدید تعلیم، عملی سرگرمی سے پہلے، از اول تا آخر ایک نظری مبحث ہے، اور ہم اس پر صرف وعظ کرنے یا دم کرنے پر بضد ہیں، اور زمین ہمارے پیروں تلے سے نکلتی جا رہی ہے اور آسمان سر سے ہٹتا جا رہا ہے۔ وعظ یا دم کی افادیت سے کسے انکار ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا محل نہیں ہے۔

گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل تنظیمی ہے جبکہ روایتی تعلیمی عمل اخلاقی تھا۔ ”تنظیم“ (آرگنائزیشن) تو پرانے معاشرے میں بھی موجود تھی، اور نئے معاشرے میں بھی موجود ہے، لیکن ان میں نوعی فرق ہے۔ روایتی معاشرے میں ”تنظیم“ اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور حفظ مراتب کے نظام میں تشکیل پاتی تھی، جبکہ جدید تنظیم کا اصول طاقت اور پیداوار ہے۔ روایتی تنظیم میں شمولیت کا منبع فرد کے داخل میں تھا، جبکہ جدید تنظیم میں یہ فرد کے خارج میں ہے۔ جدید تنظیم کی بنیادی ترین تعریف ہی یہ ہے کہ:

Modern organization is an artificial construct set up by the power of law.

جدید تنطیم اور تنطیمی عمل اپنی پوری وجودیات اور فعلیات میں سیاسی طاقت کے تابع اور اصول پیداوار پر اساس رکھتا ہے۔ جدید تنظیم مکمل طور پر تجریدی، آلاتی اور میکانکی ہے۔ مذہبی معنوں میں ”حضور“ کا تصور انفسی ہے، لیکن ”جدید تنظیم“ سیاسی طاقت کے ”حضور“ کو آفاق میں ممکن بنا دیتی ہے۔ جدید تنظیم قواعد و ضوابط اور اختیار کی جادوئی رسیوں سے بنا ہوا جال ہے جو سانپ تو نہیں بنتیں، غیرمرئی ہو کر سارے کو لپیٹ لیتی ہیں۔ تنظیم میں ملفوف انسان اندر باہر سے بدل جاتا ہے۔ تنظیم کی شرط وجود اور شرط فعلیت چونکہ قانون ہے اس لیے یہ سیاسی فیصلے کا حاصل ہے، اور قانون طاقت کا نفاذ ضمناً ہے اور سیاسی طاقت کی توسیع اصلاً ہے۔ اگر تنظیم کی شرطِ وجود اور شرطِ فعلیت قانون ہو، تو وہ صرف دو کام کر سکتی ہے: ایک پیداوار کو کئی گنا بڑھانے کا کام اور دوسرا اختیار اور طاقت کے ارتکاز کا کام۔

اس ”دراز نفسی“ کی ضرورت صرف یہ عرض کرنے کے لیے پیش آئی کہ تنظیم میں اخلاقیات اور انسانی رشتوں کی چونکہ کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے ان کا خاتمہ بالخیر ازخود ہو جاتا ہے۔ تنظیم میں ”اخلاقی“ کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اخلاقیات کا مطلب ”ڈیوٹی“ اور ڈسپلن ہے جو تنظیم کی نئی اخلاقیات ہے۔ جدید تعلیم از اول تا آخر ایک بہت وسیع اور طویل تنظیمی عمل ہے، اور اس کے نتائج تنظیمی وجودیات کے تابع ہیں، اور اخلاقی معنوں میں ارادی نہیں ہیں، جبری ہیں۔ ہمارا روایتی تصورِ تعلیم از اول تا آخر اخلاقی ہے۔ ہمارا یہی دبدھا ہے، اور یہی اشکال ہے۔ کیا تعلیم کا کوئی بھی دینی تصور ”تنظیمی“ ہیئت میں قابل حصول ہے یا نہیں، یہ ہمارا سوال ہے۔ جدید عہد میں ہر اجتماعی سرگرمی تنظیمی ہے، اور کوئی دوسرا طریقہ دستیاب بھی نہیں۔ تنظیم کی ساری بحث میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تنظیم اب شرائط ہستی میں داخل ہے۔

”تنظیمی ڈھانچہ“ بہت بامعنی ترکیب ہے اور جدید تنطیم کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ اپنا کام میکانکی طریقے سے کرتا ہے اور ساتھ کھڑکھڑاتا بھی رہتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچہ“ طاقت اور بالائی اختیار سے حرکت کرتا ہے، یہ موجود ہوتا ہے، محسوس بھی ہوتا ہے، سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن نظر نہیں آتا۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں ہڈیاں وغیرہ نہیں ہوتی بلکہ ہڈی کی طرح پتھرایا ہوا آدمی ہڈیوں کی جگہ نصب ہوتا ہے۔ ”تنظیمی ڈھانچے“ میں انسان دوستی، دلداری، خیرخواہی، اخلاقیات بھی اسی طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جیسے اصلی ڈھانچے میں ہوتی ہے!

سوال یہ ہے کہ تنظیم کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ گزارش ہے کہ پانی میں ایک بڑے پتھر کو پھینکا جائے تو پانی کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی پتھر گرنے کے بعد پانی اپنی ترتیب بدلے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں مشین کے داخل ہوتے ہی انسانی رشتوں کی پوری ترتیب بدل جاتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی اضطراری ہے، ارادی نہیں ہے، یعنی انسانی معاشرے کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ ایسے روایتی رشتوں پر باقی رہ سکے، جن کی اساس اخلاقی ہو۔ انسانوں کے باہمی تعامل میں اخلاقی رویے اور رشتے اہم ہوتے ہیں اور تنظیمی رشتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ مشین سے تعامل تنظیمی رشتوں کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔ مشین ایک ایسی ”تنظیم“ ہے جو نظر آتی ہے، اور ”تنظیم“ ایک ایسی مشین ہے جو نظر نہیں آتی۔ تنظیمی رشتے اور مشین لازم و ملزوم ہیں۔ انسان کے تنظیمی رشتوں کی بنیاد طاقت اور پیداوار کے اصول ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔

اگر ہم تھوڑا سا غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہمارے روایتی معاشرے میں تعلیم کا پیڑڈائم استاد اور شاگرد کا اخلاقی رشتہ تھا، جو پوری تہذیب کا گہوراہ بھی تھا۔ اس کی کچھ جھلکیاں آج بھی نظر آتی ہیں لیکن نادر کالمعدوم ہیں۔ روایتی معاشرے میں بچوں کی تعلیم معاشی ارتکاز کا طریقۂ کار اور اسناد کا پیداواری عمل نہیں تھا۔ جدید اور روایتی تعلیم کے تناظر میں ہمارے ہاں سب سے عام بحث نصاب کی ہے جو ہماری ساری بد نصیبیوں اور فکری نارسائیوں کا خلاصہ بھی ہے۔ جب تک ہم جدید تعلیم کو اس کے اپنے تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم کسی طرح کی تبدیلی لانے کے قابل بھی نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ جدید تعلیمی ادارہ بھی ایک تنظیم ہی ہے جسے اصول پیداوار پر بنایا گیا ہے، اور اس کے تمام اہداف مقداری ہیں، اخلاقی نہیں ہیں۔

یہاں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ہم صرف صورت حال کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ وغیرہ نہیں دے رہے۔ اپنی مجموعی صورت حال کے بارے میں ہم عمومی طور پر غیر مطمئن ہیں، اور اس کا تجزیہ کسی اطمینان بخش حل کے لیے ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں


جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل وجود - جمعرات 05 مئی 2016

امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل

مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر