... loading ...
اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ اینٹ جتنی اچھی گھڑی ہوئی ہو گی، تعمیر کی صفائی اتنی ہی ظاہر ہو گی۔ ”ذہانت“ کی تعریف کو رندہ لگاتے ہوئے مجھے ایک پرانی بات یاد آ گئی جو شاید قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہو۔ یونی ورسٹی کے زمانے میں ورڈزورتھ کی شاعری میں ”نیچر“ کا مفہوم قابو میں نہیں آ رہا تھا، اور اس کی تعریف متعین کرنے میں بڑی دشواری ہو رہی تھی۔ سوال کرنے کے لیے تو شعبے میں دیواریں ہی تھیں، اور وہ خود دیوار گریہ بنی رہتی تھیں۔ سوچا لائبریری سے مدد لیتے ہیں، تو وہاں اتفاقاً ایک کتاب مل گئی جس میں کوئی ساٹھ، ستر صفحے کا باب صرف نیچر کی تعریفات اور ان کی بحث پر تھا۔ فوٹو کاپی کرائی اور منڈکری مار بستر میں گھس گئے اور خوش ہو لیے کہ چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔ جب تک مضمون ختم ہوا، مایوسی بڑھ گئی کہ پرچے ہو جائیں گے اور نگوڑی ”نیچر“ کا مفہوم ہاتھ نہیں لگے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس باب میں نیچر کی کوئی ایک سو تیئیس تعریفات اور ان کی مختصر تشریحات درج تھیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ جدید علم کے ہر ڈسپلن میں یہی حالات ہیں، اور تعریف کی تعریف میں ہمیں ایک پرانی کہاوت یاد آ گئی کہ ”چلتی کا نام گاڑی ہے“۔ بس تعریف کی بھی یہی تعریف ہے۔ اس کو آج کل ورکنگ ڈیفی نشن کہتے ہیں۔ اگر آپ ایک ہی تعریف پر اصرار کرنا چاہتے ہیں تو وہ علمی ذرائع سے تو ہاتھ آنے کی نہیں اس کے لیے کم از کم ایک یا زیادہ مسلح سنتری داعشانہ طرز پر درکار ہیں۔ زیادہ گہرائی سے دیکھیں تو یہ جدید علم پر ذرا بھیس بدل کر اترنے والی Babylonian curse ہے۔
شخصی ذہانت کی شدید ترین کاروباری اہمیت کی وجہ سے تدریس، تعلیم، تدریسیات، تعلیمی نفسیات میں، اور ایک قطعی غیر اقداری تناظر میں، اس پر دقیق تھیوریاں اور مہنگی تحقیق کی گئی ہے۔ اتنی ہی شدید محنت سے ”تخلیقی“ اور ”ابداعی“ کا التباس بھی ارادی طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ ساری تھیوریاں اور تحقیقات دو مقاصد کے حصول میں معاون ہوتی ہیں، ایک ایفی شنسی ہے، اور دوسرا پیداواریت۔ اس صورت حال میں ذہانت کی پوری تشکیل مفاد کے تابع ہے، اور یہ مفاد کاروباری منافع اور کاروباری بقا ہے۔ ایسی ذہانت جو اقدار سے منقطع ہو جائے وہ جبلت کے طور پر کام کرتی ہے، اور اسے صیقل کرنے کے لیے علم اور جہل کی اہمیت ایک جیسی ہے، اور ٹریننگ اور تجربہ زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کاروباری ذہانت، مستریانہ ذہانت، عملی زندگی کی ذہانت وغیرہ کے لیے calculation کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، علم و فکر وغیرہ کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے کلچر میں ”پروفیسر“ کے معنی پر ذرا گہرائی سے غور کر لیا جائے تو ذہانت اور علم کا تعلق تاسف کے ساتھ ازخود سمجھ آ جاتا ہے۔ ذہانت کی جدید تھیوریاں اس بات کی قائل ہیں کہ یہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے، جیسے مثال کے طور پر کتے، گھوڑے اور ڈولفن وغیرہ میں۔ ذہانت کے اس تناظر میں حیوانی اور انسانی ذہانت کا فرق درجے کا ہے، نوع کا نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس ملکہ کا تعلق کسی علم یا جہل سے نہیں ہے۔ ہم یہاں ذہانت کی تعریف کر کے فی الوقت رسوائی مول نہیں لینا چاہتے، بس یہ عرض ہے کہ ذہانت کسی بھی واقعاتی صورت حال کو بھانپ لینے اور اپنے ہدف تک لپک کر جانے کا نام ہے۔ اس پھانپنے اور لپکنے میں علم و جہل دونوں برابر ہیں۔
اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے، کوئی عارضی مانے اور کوئی مستقل کہے، وہ الگ بات ہے، گھر تو ہے، اور یہاں اندھیرے بھی ہیں، اور روشنیاں بھی۔ ساری روشنیاں گھر کو منور کرنے میں کھپتی جا رہی ہیں، اور انسان نے اندھیروں کو دنیا سے جلاوطن ک...
دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے واقف ہے نہ اس دنیا سے جس میں وہ اپنے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں ہے۔ ان احوال کے ساتھ ہونا، کرنا سب لاحاصل اور بے معنی ہے۔ بلبلے کا دریا کی مخالفت کرنا مضحکہ خیز ہے، ذرے کی مٹی سے بغاوت لایعنی ہ...
"شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!" جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، اس کی اصل ہمارے ہاں نہیں۔ اس لیے ہم ابھی شعریات کی طرف نہیں جاتے، اور آنجناب کے قول زریں میں ذوق کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حس کے دشت میں ذہن کے بگولوں سے رستگاری ذوق کے چشمے پر ہوتی ہے۔ ذ...
"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت معنی خیز ہے، جس کا اشارہ ہر سمت پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایک غالب رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قول سے بظاہر تو یہی مراد ہے کہ لوگ مذہبی ہو جاتے ہیں، لیکن اچھے نہیں بنتے۔ یہاں توجہ دلانا مقصود ہے کہ ی...
سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات درست نہیں، کیونکہ یہ مذہب کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتا کہ اسے اپنے ”خلاف“ قرار دے کر اس کی اہمیت کا اعتراف کرے۔ طاقت اور علم میں سیکولرزم کا غلبہ اتنا مکمل ہے کہ اہل مذہب کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ اور بول...
ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعنی کہیں بھی میسر نہیں ہے، جس کے مطابق مثلاً فزکس اور وحی کا بیک وقت علم ہونا ثابت ہو جائے۔ اگر اس تعریف کے مطابق فزکس علم ہے تو وحی یقیناً اس تعریف سے خارج ہو گی۔ اور اگر اس تعریف پر وحی علم ہے تو فزکس...
احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کوہ ساری یہ اڑی ہے وقت کے پاؤں میں کب سے پھانس کی طرح گڑی ہے کتنی بدرو ہے یہ ، تھو تھو تنہ نا ھا یا ھو طرفہ دام و رسن ایجاد! میں ہوں سیّاروں کا صیّاد از فلک تا بہ زمیں ہے گرم ہنگامۂ بے داد آتشی...
اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ہے جس پر کائی (احمد جاوید)