وجود

... loading ...

وجود
وجود

شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں

جمعرات 18 اگست 2016 شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی 'مولوی' تو بن سکتا ہے، عالم نہیں

ahmed-javed-sahib

“شاعری کا ذوق نہ ہو تو آدمی ‘مولوی’ تو بن سکتا ہے، عالم نہیں!”

جمال کے آتش پیرہن جلوے آب معانی میں بسنے پر راضی ہو جائیں تو شاعری پیدا ہوتی ہے، اور اس ”آبدار پانی“ کا جرعہ نصیب ہونا ذوق ہے۔ ہمارے ہاں شاعری پر جھگڑا نہیں، اور وہ جو عظیم المرتبت یونانی استاد شاگرد کا جھگڑا ہے، اس کی اصل ہمارے ہاں نہیں۔ اس لیے ہم ابھی شعریات کی طرف نہیں جاتے، اور آنجناب کے قول زریں میں ذوق کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حس کے دشت میں ذہن کے بگولوں سے رستگاری ذوق کے چشمے پر ہوتی ہے۔ ذوق، معنی کو ذہن اور فہم کی گرفت سے آزاد کر کے نفس اور طبیعت کی تحویل میں دے دیتا ہے۔ ذوق، فوارۂ معنی کو صرف دیکھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس سے سرشار ہونا بھی ہے۔ ذوق معنی سے نسبت و تعلق کا ایسا وجودی انداز ہے، جو نہایت قیمتی مذہبی معنویت لیے ہوئے ہے۔ زبان غیب و شہود کا برزخ ہے، اور اس برزخ کا مجرد صورتوں سے اٹ جانا مذہبی انفس کی موت کا باعث بنتا ہے۔ ذوق، معنی کے انداز حضوری کو زندہ رکھنا ہے۔ ایمان، حقیقت سے زندہ تعلق کا نام ہے اور اس انداز حضوری کی کمک کے بغیر اسے باقی رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر زبان میں صورتوں کے لگڑبگوں کی بہتات ہو جائے تو ایمان آلاتی اور میکانکی ہو جاتا ہے، اور یہ میکانکیت قانون جیسی ہوتی ہے۔ ہم شاعری کو کسی سنگھاسن پر نہیں بٹھاتے، لیکن یہ ایک قیمتی چیز ہے جو معنی کے انداز حضوری کو زندہ رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔ شاعری فی نفسہٖ مقصود نہیں، اور نہ ”شاعری کا ذوق“ سے مراد شاعری کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ آج کے دور میں جب لفظ و معنی سے انسانی شعور اور نفس کی تمام فطری نسبتوں پر تیشے چلائے جا رہے ہیں، شاعری کا یہ وظیفہ بہت کچھ مذہبی معنویت لیے ہوئے ہے۔

”مولوی“ اور ”عالم“ دونوں کا تعلق معروفاً علم و تعلیم سے ہے، اور اگر علم و تعلیم سے ہے تو بنیادی طور پر لفظ و معنی سے ہے اور ان کی انسانی شعور سے نسبتوں سے ہے، اور تعلیمات سے ہے اور اجازت ہو تو کہہ لوں کہ فکر سے بھی ہے۔ اِدھر پرانے زمانے میں ”مولوی“ بھی عالم ہی کو کہتے تھے، لیکن کچھ زمانے سے ان میں تغایر بہت بڑھ گیا ہے، اور ‘مولوی’ کے معنی میں سلبی پرتیں داخل ہو گئی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ‘مولوی’ کے معنی خاصے متعدی ہو گئے ہیں جس سے ‘عالم’ کے ساتھ ساتھ کئی اور لفظوں کو بھی شدید خطرہ ہے۔ ہماری ناقص رائے میں یہاں ‘مولوی’ سے مراد ایسا آدمی ہے جو لفظوں کی باربرداری کرتا ہو۔ جب صرف گردان ہی کا ٹوکا چلتا رہ گیا ہو، تو لفظوں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں، اور دھڑ ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جب معنی ہی بے گھر ہوئے جاتے ہیں، ذوق کہاں باقی رہ سکتا ہے۔

‘عالم’ عموماً ایسے صاحب کے لیے استعمال ہوتا ہے جو دینی روایت یعنی ہدایت کا علم رکھتا ہو، اور اسے لوگوں تک منتقل کرنے کے ذہنی اور کرداری وسائل سے بہرہ ور ہو۔ ذہنی وسائل میں فہم اور کرداری وسائل میں ذوق کو اولیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسے عہد میں جب ہماری تہذیب کی عظیم الشان علمی روایت کی تمام تشکیلات غتربود ہو چکی ہیں، اور ہم نے علم کا معنی از سر نو ابھی طے کرنا ہے، ‘عالم’ کا معنی بھی نزاع کا شکار ہو گیا ہے۔ گزارش ہے کہ ہدایت لازمانی ہے، اور علم زمانی۔ ہمارے عظیم الشان اسلاف کا اصل کارنامہ یہی تھا کہ انہوں نے لازمانی اور زمانی کی تمام تہذیبی، تاریخی، علمی اور ذہنی نسبتوں کو نبھاہ کے دکھایا اور اب یہ صورت حال نہیں ہے۔ آج کل عموماً ‘عالم’ کا لفظ ایک ایسے شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو ہدایت کا روایتی علم تو رکھتا ہو، لیکن ہمعصر علم سے کوئی نسبت نہ رکھتا ہو۔ اب یہاں ایک سخت سوال درپیش ہو گیا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا عصری علم معتبر نہ ہو، اس کے غیر عصری اور لازمانی علم کے معتبر ہونے کے کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟ اگر یہ ضد کی جائے کہ ایسا ممکن ہے کہ عصری علم کے مکمل غیرمعتبر ہوتے ہوئے غیر عصری علم معتبر ہو سکتا ہے تو آدمی یہی کہہ سکتا ہے کہ وقت دعا ہے۔ یہ موقف ایسے ہی کہ ایک آدمی لاہور میں ہو تو سائیکل دیکھ کر اسے پہچان لیتا ہے، لیکن ساہیوال میں اسے سائیکل دکھایا جائے تو نہیں پہچان پاتا۔ ایسی حالت میں دعا ہی سہارا لیا جا سکتا ہے۔

پھر علم کی صرف حقیقت سے ہی نسبتیں نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ سے طاقت اور علم کی نسبتوں کو بھی ایک علمی اور فکری مسئلے کے طور پر زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں اب طاقت اور علم کی نسبتوں کو دانستہ نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اور عین اسی گھپلے کی حالت میں عالم اور طاقت کے تعلق کو دینی ضرورت کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس تشویشناک موقف کے ہوتے ہوئے ‘عالم’ کی تہذیبی اور روایتی معنویت دباؤ کا شکار ہو گئی ہے اور اس کے معنی کا ازسرنو تعین لازمی ہو گیا ہے۔

علم اور فکر کا بنیادی تعلق ذہن میں احتوائے معنی سے ہے۔ جبکہ ذوق نفس اور ذہن دونوں میں احتوائے معنی کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ معنی کے جدید نظریات جہاں منتہی ہوتے ہیں، وہاں مذہبی معنی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتے۔ ذوق نوعاً مذہبی معنی کے قبیلے سے ہے، اور انسانی انفس میں اس سرزمین کو تروتازہ رکھتا ہے جہاں مذہب کا شجر اگتا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر شاعری اور شعری ذوق کی مخالفت کرنا آشیانے میں بیٹھ کر آشیانہ دار شاخ کو کاٹنے کی حماقت اور خودکشی کے برابر ہے۔

ذوق کی بنیاد پر مولوی اور عالم میں فرق کرنا قدرے آسان بھی ہے اور عام فہم بھی۔ لیکن اگر مذہبی تعلیمات کی بجائے علم اور فکر کے مباحث کو بنیاد بنایا جائے تو ہماری آج کی صورت حال میں مولوی اور عالم کے فرق کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا۔


متعلقہ خبریں


سب اندھیرے ایک سے نہیں ہوتے، کچھ رات میں پھیلتے ہیں اور کچھ، دن میں! محمد دین جوہر - اتوار 04 ستمبر 2016

اندھیرے جو دل کو ظلمت خانہ بنا دیں وہ رات کو آتے ہیں اور جو ذہن کو تاریک کر دیں وہ دن کو پھیلتے ہیں۔ اندھیرے جو احوال بن جائیں وہ رات میں اترتے ہیں، اور ظلمت جو فکر بن جائے وہ دن کو بڑھتی ہے۔ آج دنیائے آفاق خود اپنے ایندھن سے اور انسانی کاوش سے روشن ہے۔ یہ دنیا انسان کا گھر تو ہے...

سب اندھیرے ایک سے نہیں ہوتے، کچھ رات میں پھیلتے ہیں اور کچھ، دن میں!

ذہانت صرف علم سے نہیں، جہل سے بھی پیدا ہوتی ہے محمد دین جوہر - بدھ 31 اگست 2016

اگر اس قول زریں میں ”ذہانت“ کا مفہوم طے ہو جائے تو اشکال ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اشکال ذہانت کے حوالے سے ”علم“ اور ”جہل“ کی ہم منصبی سے پیدا ہوتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ذہانت کا مفہوم کیا ہے یا درست تر معنی میں اس کی تعریف کیا ہے؟ علم کی عمارت دراصل تعریفات کی اینٹوں سے کھڑی ہوتی ہے۔ ای...

ذہانت صرف علم سے نہیں، جہل سے بھی پیدا ہوتی ہے

دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ محمد دین جوہر - هفته 27 اگست 2016

دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ اس سے احمق بلبلہ، اس سے نادان ذرہ، اس سے بے وفا لمحہ قابل تصور نہیں ہو سکتا۔ یہ اس مسخ شدہ، کارٹون نما بلبلے، ذرے اور لمحے کی کہانی ہے جو نہ خود سے وا...

دیکھو تو ہم کیا بن گئے ہیں! دریا کی مخالفت پر کمربستہ بلبلہ، مٹی سے بغاوت پر آمادہ ذرہ اور تاریخ کو للکارنے والا ایک ضدی لمحہ

بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں محمد دین جوہر - جمعه 12 اگست 2016

"بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں" بعض اوقات اصل بات اس قدر اہم ہوتی ہے کہ اسے براہ راست کہنے سے مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اس قول زریں کی تہہ داری ہمارے عصری حالات پر تبصرہ بھی ہے، اور اصل بات تک پہنچنے کے لیے مہمیز بھی ہے۔ اول تو اس قول میں ”بعض“ کا لفظ نہایت ...

بعض لوگ اچھا آدمی بننے سے بچنے کے لیے مذہبی ہو جاتے ہیں

سیکولر نظام میں خدا کو ماننے کی پوری آزادی ہے، البتہ بندہ بننے پر سخت پابندی ہے محمد دین جوہر - جمعه 05 اگست 2016

سیکولرزم ایک سیاسی نظام کے طور پر دنیا میں عملاً قائم ہے، اور ایک فکر کے طور پر علوم اور ذہن میں جاری ہے۔ یہ ایک کامیاب ترین نظام اور موثر ترین فکر ہے۔ اب سیکولرزم دنیا کا معمول بھی ہے اور عرف بھی۔ عام طور پر یہ سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بات د...

سیکولر نظام میں خدا کو ماننے کی پوری آزادی ہے، البتہ بندہ بننے پر سخت پابندی ہے

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! محمد دین جوہر - هفته 30 جولائی 2016

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی! اس قول زریں میں احمد جاوید صاحب نے علم پر مذہبی موقف کو سادہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سب سے پہلے اس قول کی تہہ میں کارفرما موقف کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ علم کی ایسی تعریف کہیں میسر نہیں ہے، یعن...

ایمان کو علم بنا دینا بے ایمانی ہے، اور علم کو ایمان بنا لینا، لاعلمی!

مجذوب کا رجز وجود - اتوار 25 اکتوبر 2015

احمد جاوید تنہ نا ھا یا ھو تنہ نا ھا یا ھو گم ستاروں کی لڑی ہے رات ویران پڑی ہے آگ جب دن کو دکھائی راکھ سورج سے جھڑی ہے غیب ہے دل سے زیادہ دید آنکھوں سے بڑی ہے گر نہ جائے کہیں آواز خامشی ساتھ کھڑی ہے لفظ گونگوں نے بنایا آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے رائی کا دانہ یہ دنیا کو...

مجذوب کا رجز

مناجات وجود - اتوار 06 ستمبر 2015

اونچی لہر بڑھا دیتی ہے دریا کی گہرائی تیرے غیب نے دل کو بخشی روز افزوں بینائی سات سمندر بانٹ نہ پائے موتی کی تنہائی ناپ چکا ہے سارا صحرا میری آبلہ پائی مالک میں ہوں تیرا چاکر مولا! میں مولائی دل ہے میرا گیلا پتھر جمی ...

مناجات

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر