وجود

... loading ...

وجود
وجود

تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!!

هفته 02 جولائی 2016 تھوڑی بارش‘ تباہی زیادہ… یہ ہے کراچی!!

rain in khi

کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی… شہر چمک جائے گا… آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب… سیر و تفریح کے منصوبے… شاپنگ کی پلاننگ… سب کچھ بارش کے ’’آفٹر شاکس‘‘ کی نذر ہو گیا… سڑکیں‘ ندی نالے اور گلیاں نہریں بن گئیں۔ بہتر انتظامات کے دعوے بھی بہہ گئے۔ کہیں عملہ غائب رہا‘ تو کہیں مشینری کا فقدان تھا۔ محکمہ بلدیات کے وجود کے ’’بلاجواز‘‘ ہونے کا بھی پتہ چل گیا۔ ’’رین ایمرجنسی پلان‘‘ کسے کہتے ہیں یہ بھی بلدیہ کراچی نے بتا دیا۔ بارش سے قبل ہونے والے ہنگامی اجلاسوں کا نتیجہ بھی کراچی کی سڑکوں پر پانی کی صورت میں نظر آ گیا۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو چند ٹی وی چینلز پر ’’بیپر‘‘ کے دوران ارشاد فرماتے رہے: ’’عملہ پانی نکال رہا ہے بہت جلد سڑکیں خشک ہو جائیں گی‘‘۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا… قدرت نے کراچی پر کرم کیا اور بارش کے بعد سورج بلدیہ کی اہم ذمہ داری خود نبھاتا رہا‘ پانی دھوپ کی تپش سے ہی خشک ہوتا رہا۔ بارش ’’ٹیسٹ میچ‘‘ کی طرح جاری رہی… اور ایک بار پھر کراچی والے پہلے بارش اور پھر سڑکوں پر جمع پانی میں’’نہاتے‘‘ رہے۔

کراچی میں بارش زحمت کیوں بنتی ہے یہ بات سب جانتے ہیں۔ شہر کے برساتی نالوں پر شاپنگ پلازہ اور مارکیٹیں بن چکی ہیں۔ مون سون سے قبل چھوٹے نالوں سے بھی کچرا صاف نہیں کیا گیا۔ شہر کے سولہ بڑے نالے اب بھی کچرے کی تہہ سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ اب بارش کا پانی بھی جائے تو جائے کہاں؟ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے صفائی کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے‘ جو دھرے رہ گئے۔ کمشنر کراچی نے نالوں کے دورے کئے… فوٹو سیشن بھی ہوئے… لیکن صفائی نہ کروا سکے۔ شدید بارشوں کی صورت میں یہی کچرے سے بھرے نالے پانی کو سمندر میں بھیجنے کے بجائے سڑکوں کو سمندر بنا دیتے ہیں۔ تھوڑی سی بارش کے ساتھ ہی گٹر ابلنا بھی فیشن سا بن گیا ہے۔ اور ٹیکس دینے والے شہری‘ تاجر اور صنعت کار محکمہ بلدیات کی وجہ سے ہونے والی اس تباہی کو جھیلنے پر مجبور ہیں۔

اہل کراچی کے لئے ایک کے بعد دوسری مصیبت تیار رہتی ہے۔ ایک جانب سڑکیں پانی سے لبالب بھری ہیں تو دوسری طرف کراچی کو پانی سپلائی کرنے والی 72 انچ قطر سٹیل کی پائپ لائن دو جگہ سے پھٹ گئی اور کراچی کو پانی کی فراہمی معطل ہے۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کی پلاننگ تو دیکھیں!! آسمان سے پانی برس رہا ہے اور پینے کے لئے پانی ہی نہیں۔ کراچی کے بلدیاتی محکموں کی طرح محکمہ موسمیات کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ جب بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں گرمی بڑھ جاتی ہے۔ جب کہتے ہیں‘ بارش نہیں ہو گی‘ ساون دل کھول کر برستا ہے۔ محکمہ موسمیات نے پانچ دن قبل کراچی میں بارش کے لئے 27 جون کی تاریخ دی تھی۔ 27 جون کو بھی بارش نہ ہونے پر ڈی جی میٹ سے سوال ہوا تو بولے: ’’نہیں ہوئی تو ایک دن بعد ہو جائے گی‘‘۔ محکمہ موسمیات کی دی گئی تاریخیں بار بار غلط ہونے پر محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ایسے بوکھلائے کہ بارش کی پیشگوئی ہی واپس لے لی… مگراس کے چند گھنٹوں بعد ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش شروع ہو گئی۔ ہر پیشگوئی غلط ثابت ہونے پر کراچی والے سوال کر رہے ہیں کہ کیا محکمہ موسمیات بھی کراچی کے ساتھ ’’سوتیلا سلوک‘‘ کر رہا ہے؟

کراچی میں بارش کا ایک اور اہم ’’تحفہ‘‘ ٹریفک جام کی صورت میں ملتا ہے۔ شہر میں ہزاروں ٹریفک پولیس اہلکار کام کرتے ہیں۔ کراچی کے ٹیکس سے ان کو تنخواہ بھی ادا کی جاتی ہے لیکن جب جب بارش ہوتی ہے یہ ٹریفک اہلکار و افسران شاید خود بھی ’’نہانے‘‘ چلے جاتے ہیں‘ اور شہر معمول کی طرح اﷲ کے حوالے ہوتا ہے۔ اہم سگنلز اور چورنگیاں خالی ہو جاتی ہیں‘ اور ٹریفک کو ’’آٹو‘‘ موڈ پر ڈالنے والے یہ ’’پائلٹ‘‘ بارش کے بعد ہی باہر نکلتے ہیں۔ بے بس اور لاچار شہری سڑکوں پر ہی افطار کرتے ہیں۔ بعض توگاڑیاں بند کرکے پیدل گھر جانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ کراچی کی ’’رین ایمرجنسی‘‘ سے تو عام حالات ہی بہتر نظر آتے ہیں۔ ایسی ایمرجنسی کا کیا فائدہ جسے دیکھ کر یہ کہا جائے ’’حل سے مسئلہ بہتر تھا‘‘۔

کراچی میں بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی بجلی فرار ہو جاتی ہے۔ بارش کے ساتھ فیڈرز ٹرپ کر جانا لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ یہ بھی کراچی کے ساتھ اْسی ’’پرانی دشمنی‘‘ کا نتیجہ ہے جو پہلے وفاق اور اب سندھ حکومت نے جاری رکھی ہوئی ہے۔ جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی جا رہی تھی تو بوسیدہ نظام کی جگہ نئے نظام کی تنصیب کی یقین دہانی کرائی گئی‘ لیکن جس وقت کاپر کے تار ہٹا کر سلور کے تار لگائے جا رہے تھے تو ’’تاریک مستقبل‘‘ سے ناواقف بے چارے شہری انہی کھمبوں کے نیچے کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے تھے… اور آج وہی سلور کے تار نہ 45 ڈگری کی گرمی برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی بارش کی چند بوندیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کراچی کے ڈھائی کروڑ شہریوں کا سودا تھا کیونکہ یہ سب بجلی کے صارفین تھے۔ یہ نہ ہوتے تو سودا بھی نہ ہوتا‘ جو حکومت اور ایک پرائیوٹ ادارے کے درمیان ہوا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی بس کے مسافروں کو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی کنڈیکٹر کے ایک حکم پر دوسری بس میں منتقل کر دیا جائے اور وہ مسافر اپنی سیٹ چھوڑ کر دوسری بس میں کھڑے رہ کر سفر کرنے پر مجبور ہوں۔ اس میں قصور ان مسافروں کا بھی ہے جو سیٹ کے حصول کے لالچ میں بس سے اتر جاتے ہیں اور احتجاج نہیں کرتے حالانکہ وہ نصف یا اس سے زیادہ سفر سکون سے بیٹھ کر طے کر چکے ہوتے ہیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری پر اٹھنے والے سوال آج تک ’’زندہ‘‘ ہیں… اور ہر بارش اور شدید گرمی کے بعد کے الیکٹرک پر کڑی تنقید کی جاتی ہے‘ لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا یہ کوئی حساس معاملہ ہے؟ یا پھر اس میں ملکی مفاد انتہائی مقدم ہے۔ جب تک کے ای ایس سی کی نجکاری نہیں ہوئی تھی ادارے کے ملازمین خوشحال‘ عوام مطمئن اور صارفین بے غم تھے لیکن آج صورتحال بالکل مختلف ہے‘ سب کے سب پریشان ہیں۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کا معاہدہ اگرچہ پرویز مشرف دور میں ہوا لیکن اس کے بعد آنے والی جمہوریت کی ’’چیمپئن حکومتیں‘‘ بھی نامعلوم اور پراسرار وجوہ کی بنا پر معاہدے کو سامنے نہ لا سکیں۔ کے الیکٹرک کے سربراہ کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے سے استثنیٰ حاصل ہے جو کہ وزیر اعظم پاکستان کو بھی نہیں۔ اِس ایک شق سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معاہدہ کتنا ’’خطرناک ‘‘ہو گا۔ کراچی کو پانی اور اندھیرے میں ڈبونے کے ذمہ دار صرف دو ادارے بلدیات اور کے الیکٹرک ہیں۔ اسی لئے تو کراچی میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی پریشانیوں پر احمد فراز سے معذرت کے ساتھ یہ شعر پڑھنے کا دل چاہتا ہے کہ

اِن بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تیرا ’’شہر‘‘ ہے کچھ تو خیال کر


متعلقہ خبریں


دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ وجود - جمعه 04 نومبر 2022

کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...

دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا وجود - منگل 18 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...

این اے 237 ملیر میں عمران خان کو شکست، پی ٹی آئی نے نتاج کو چیلنج کر دیا

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...

کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بڑا بریک ڈاؤن، 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی وجود - بدھ 05 اکتوبر 2022

کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...

نامعلوم افراد کی فائرنگ ، 2 رینجرز اہلکار زخمی

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری وجود - پیر 19 ستمبر 2022

کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...

کراچی، اسٹریٹ کرائمز میں ریکارڈ اضافہ، رپورٹ جاری

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا وجود - پیر 19 ستمبر 2022

بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...

کراچی میں شہریوں نے کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں کچرا ڈالنا شروع کر دیا

کراچی میں جعلی ادویات فروخت کیے جانے کا انکشاف وجود - هفته 17 ستمبر 2022

کراچی کے علاقے سعود آباد سے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔ پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کی جعلی ادویات برآمد کرلیں۔ پولیس کے مطابق سعود آباد میں فیکٹری پر چھاپہ کارروائی کی گئی، اس دوران چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر فیکٹری میں جعلی ادویات بنائی جا رہی تھ...

کراچی میں جعلی ادویات فروخت کیے جانے کا انکشاف

کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں ہوش ربا اضافہ ، پولیس مکمل ناکام وجود - منگل 13 ستمبر 2022

اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے شاہین فورس کے قیام اور گشت کے باوجود شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، نیو کراچی صنعتی ایریا میں موٹر سائیکل سوار ڈاکو فیکٹری ملازم سے 10 لاکھ روپے نقد لوٹ ک...

کراچی میں  اسٹریٹ کرائم میں ہوش ربا اضافہ ، پولیس مکمل ناکام

کراچی: شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال وجود - هفته 10 ستمبر 2022

کراچی میں شدید گرمی کے باعث لوڈ شیڈنگ نے عوام کا بُرا حال کردیا۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں درجہ حرارت میں اضافے کے بعد کے الیکٹرک نے بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا۔ نارتھ ناظم آباد بلاک ڈبلیو، کورنگی، لیاقت آباد، گلبہار، ابوالحسن اصفہانی روڈ ، پاک کالونی، پی ای سی ایچ ایس،...

کراچی: شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ سے عوام بے حال

ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کرنے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 جون 2022

بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری سے ایم کیو ایم رہنماؤں سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلدیہ عظمی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بلاول ہاؤس ...

ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کرنے کا فیصلہ

تاریخی کراچی کارواں، جماعت اسلامی کا چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جدوجہد کا اعلان وجود - پیر 30 مئی 2022

شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کر...

تاریخی کراچی کارواں، جماعت اسلامی کا چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جدوجہد کا اعلان

کراچی میں کمپیوٹراسٹڈیز، نوابشاہ میں اردو اور سندھی کے پرچے آؤٹ وجود - منگل 17 مئی 2022

کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص ڈویژنز میں میٹرک کے امتحانات کا آغاز ہوگیا، جس کے ساتھ ہی نقل مافیا کا سرطان بھی پھیلنے لگا۔ کراچی میں کمپیوٹر اسٹڈیز اور نوابشاہ بورڈ کے اردواور سندھی زبان کے پرچے آؤٹ ہو گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق کراچی میں میٹرک بورڈ کے تحت ہونے والے امتحانات کے د...

کراچی میں کمپیوٹراسٹڈیز، نوابشاہ میں اردو اور سندھی کے پرچے آؤٹ

مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر